Asrar-ut-Tanzil - At-Tawba : 45
وَ نُوْحًا اِذْ نَادٰى مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَنَجَّیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِیْمِۚ
وَنُوْحًا : اور نوح اِذْ نَادٰي : جب پکارا مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے فَاسْتَجَبْنَا : تو ہم نے قبول کرلی لَهٗ : اس کی فَنَجَّيْنٰهُ : پھر ہم نے اسے نجات دی وَاَهْلَهٗ : اور اس کے لوگ مِنَ : سے الْكَرْبِ : بےچینی الْعَظِيْمِ : بڑی
اور نوح (علیہ السلام) کو جب اس (زمانہ ابراہیمی) سے پہلے انہوں نے دعا کی تو ہم نے ان کی دعا قبول فرمائی تو انہیں اور ان کے تابعین کو بھاری غم سے نجات بخشی
(رکوع نمبر 6) اسرارومعارف ایسے ہی نوح (علیہ السلام) کی مثال ہے جب کفار کی ایذا اور مسلسل انکار کے باعث انہوں نے دعا کی تو کفار تباہ وبرباد ہوگئے ، سارا عالم غرق ہوا مگر وہ ان کے ماننے والے اس بہت بڑے دکھ سے بھی محفوظ رہے نیز کفار کی ایذا سے بھی ہمیشہ کے لیے بچا لیے گئے کہ کفار غرق ہو کر اپنے انجام کو پہنچے نیز ہم نے کفار سے اپنی آیات کے انکار اور نبی کی نافرمانی کا خوب خوب بدلہ لیا کہ وہ بھی بہت برے لوگ تھے اور جب اللہ جل جلالہ کی نافرمانی اور نبی کی دشمنی میں حد سے بڑھے تو ہم نے سب کو ڈبو دیا اور غرق کر کے تباہ کردیا ۔ (نبی کی اطاعت میں آخرت بھی اور دنیا کا فائدہ بھی نصیب ہوتا ہے) نیز داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) کے واقعات سنائیے کہ جہاں نبی سے دشمنی بربادی کا سبب ہے وہاں نبی کی اطاعت میں آخرت بھی سنورتی ہے اور دنیا کا فائدہ بھی نصیب ہوتا ہے جیسے انہوں نے کھیتی کے اجڑنے کا فیصلہ سنایا تھا جب ایک شخص کی بکریوں نے دوسرے کی کھیتی چر لی تھی ، ان کا فیصلہ ہمارے سامنے تھا اور حق تھا جو داؤد (علیہ السلام) نے کیا مگر ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کو اس کی ایک بہتر صورت القا کردی کہ جس میں صرف فیصلہ ہی نہ تھا ان دونوں فریقوں کا دنیا کا فائدہ بھی تھا مفسرین کرام نے واقعہ اس طرح نقل فرمایا ہے کہ ایک شخص کی بکریاں دوسرے کی کھیتی چر گئیں ، اور کھیتی کا نقصان اسی قدر ہوگیا جس قدر بکریوں کی قیمت تھی اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے آپ نے سارا معاملہ دیکھ کر اور ثبوت پا کر حکم دیا کہ نقصان پورا کرنے کے لیے بکریاں کھیت کے مالک کو دے دی جائیں اور یہ فیصلہ حق تھا جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے کہ ان کا فیصلہ ہمارے روبرو تھا جب انہوں نے فیصلہ قبول کرلیا تو اللہ جل جلالہ نے سلیمان (علیہ السلام) کے دل میں بات ڈال دی جنہوں نے عرض کیا کہ والد گرامی آپ کو فیصلہ درست مگر اس سے بہتر صورت بھی ہے پوچھا وہ کیا فرمایا بکریاں کھیتی والے کو دیں اور وہ ان سے فائدہ اٹھائے مگر تب تک کھیتی بکریوں کے مالک کو دی جائے تاکہ وہ اس میں محنت کرے اور جب پہلے کی طرح سرسبز ہوجائے تو کھیتی کا مالک کھیتی لے کر بکریاں واپس کر دے تو دونوں کو دنیا کا فائدہ بھی مل جائے گا چناچہ اس پر انہوں نے یہ فیصلہ قبول کر کے صلح کرلی ۔ (کیا فیصلہ تبدیل کیا جاسکتا ہے ؟ اور اپیل درست ہے) اس بارہ میں تفاسیر میں بہت لمبی بحثیں کی گئیں ہیں کہ کیا پہلا فیصلہ درست نہ تھا یا اگر درست تھا تو تبدیل کیوں ہوا ، درحقیقت یہاں دونوں فیصلے درست تھے پہلا قانونی فیصلہ تھا اور حق تھا ، دوسرا فیصلہ ان کی باہمی رضا مندی سے تھا اور ایک طرح کی صلح تھی نیز اسلام میں بھی اگر فریقین صلح کریں تو اسے اولیت حاصل ہے اگر کوئی فریق نہ مانے تو قانونی فیصلہ نافذ کیا جاتا ہے جیسا کہ سیدنا عمر ؓ کا ارشاد ہے کہ قانونی فیصلہ سے ایک فریق دب جاتا ہے مگر دل سے راضی نہیں ہوتا جبکہ صلح سے دل صاف ہوجاتے ہیں نیز یہ ارشاد بھی موجود ہے کہ اگر فیصلہ کر چکنے کے بعد خود قاضی کو بہتر صورت نظر آئے تو اس فیصلہ کو بدل دے یعنی نظر ثانی کرنا درست ہے اور یہ بھی درست ہے کہ اس سے اوپر کی عدالت مزید چھان پھٹک کر کے دیکھ لے وہی فیصلہ بحال رکھے یا اس کی بہتر صورت نافذ کردے ، دونوں فیصلے حق پر مبنی تھے لہذا ارشاد ہوا کہ ہم نے دونوں کو حکم اور علم عطا فرمایا تھا سلطنت بھی دی تھی اور نبوت بھی عطا کی گئی ،۔ (ذکر اور اس کی برکات) داؤد (علیہ السلام) کی شان تو یہ تھی کہ پہاڑ اور فضائی پرندے ان کے ساتھ اللہ جل جلالہ کا ذکر کیا کرتے اور اس کی پاکی زبان قال سے بیان کیا کرتے ، اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ یہ کام ہماری قدرت سے ہوتا ہے اور ہم قادر ہیں جو چاہیں کریں اگر یہاں یہ ذکر زبان حال سے کہا جائے تو داؤد (علیہ السلام) کی تخصیص نہیں رہتی وہ تو ہر شے ہر حال میں کرتی ہے لہذا یہاں زبان قال سے ہی مراد ہے اور یہ فضیلت بعض اہل اللہ کو باتباع نبی نصیب ہوتی ہے کہ پہاڑ ، پتھر ، درخت ان سے کلام کرتے ہیں ، ایسے طبیب گذرے ہیں جو جڑی بوٹیوں سے ان کی تاثیر دریافت کرلیا کرتے تھے حتی کہ ذکر کی برکات اس سے بھی بہت زیادہ ہیں نیز انبیاء کرام (علیہ السلام) دنیا کے علوم کا خزینہ بھی ہوتے ہیں اور اللہ جل جلالہ کی طرف سے انہیں یہ علوم سکھائے جاتے ہیں ۔ (صنعت اور اسلام) جیسے ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو لوہے کی زرہ بنانا سکھا دیا جس نے لڑائی کی شدت میں لوگوں کی حفاظت کا حق ادا کیا ، لوگوں تمہیں ان نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا چاہئے یعنی صنعت اور ٹیکنا لوجی نہ صرف سیکھنا ضروری ہے بلکہ یہ اللہ جل جلالہ کی بہت بڑی نعمت ہے اور جس قدر حاصل ہو سکے کی جائے اور اس پر اللہ جل جلالہ کا شکر ادا کیا جائے کہ بندہ ٹیکنالوجی بھی سیکھے اور دین بھی جانتا ہو ، ایسے ہی ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کو ہوا پر اختیار دے دیا جو ان کے حکم سے چلتی اور بابرکت زمین اور ان کی سلطنت میں انہیں اڑائے پھرتی ، ہماری ذات ہر شے سے واقف ہے مفسرین کرام کے مطابق سلیمان (علیہ السلام) اپنے اہل دربار سمیت بہت بڑے تخت پر کرسیاں سجا لیتے اور جہاں چاہتے مہینوں کی مسافت پر ہوا انہیں گھنٹوں میں لے جاتی ، یہ اللہ جل جلالہ کی عطا تھی کہ انسانی ذہن بالآخر ایسی مشین بنانے میں کامیاب ہوگیا جس کی ساری تکنیک ہوا کو تیزی سے پیچھے دھکیل کر انسانوں سمیت ایک ہوائی جہاز کو اڑا لے جانا ہے ، اسی لیے آپ ﷺ کا ارشاد ” الحکمۃ ضالۃ المومن “۔ کہ صنعت اور دانائی کی بات مومن ہی کی گم شدہ دولت ہے جہاں ملے حاصل کرلی جائے ۔ (جنات کا وجود بھی ہے اور بطور کرامت ولی کا ان پر اختیار ہونا ممکن ہے) نیز سلیمان (علیہ السلام) کو تو ہم نے جنات پر بھی حکومت بخشی کہ وہ ان کی خدمت اور اطاعت کرتے تھے ، بعض سمندروں سے موتی نکال کر لاتے تو کچھ دوسری خدمات انجام دیتے ، یہاں بھی ثابت ہے کہ جنات اللہ جل جلالہ کی مخلوق ہے اور زمین پر آباد ہے جو ایمان لانے کے مکلف ہیں جو کفر کرتے ہیں وہ شیطان کے پیروکار ہو کر شیاطین ہی کہلاتے ہیں اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا حکم ان پر بھی تھا ورنہ ایمان دار تو اطاعت کرنا ویسے ہی سعادت جانتے ہیں نیز یہ ممکن ہے کہ ولی اللہ کو بغیر کسی چلہ کشی اور عمل کے محض کرامت کے طور پر جنات پر اختیار حاصل ہو ۔ اور ایسے ہی عجائبات ایوب (علیہ السلام) کے واقعہ میں ہیں کہ جب ان پر بیماری بہت بڑھ گئی تو انہوں نے دعا فرمائی کہ میرے پروردگار میں سخت تکلیف میں ہوں اور آپ سب سے بڑے رحم کرنے والے ہیں چناچہ ہم نے ان کی درخواست قبول فرما کر ان سے نہ صرف بیماری دور کردی بلکہ انھیں ان کا گھر بار اور خاندان بھی عطا کردیا اور اتنا اور بھی دے دیا جس قدر مال اور اولاد پہلے ان کی تھی حضرت ایوب (علیہ السلام) بھی اللہ کے نبی تھے اور بہت مالدار بھی تھے صاحب اولاد بھی مگر اللہ جل جلالہ کی طرف سے آزمائش آئی مال بھی کھو گیا ، خاندان بھی مرکھپ گیا ، اور خود سخت بیمار ہو کر ایسے پھوڑے میں مبتلا ہوئے کہ سارا بدن ایک پھوڑا بن گیا ، صرف ایک بیوی ساتھ رہ گئیں جو یوسف (علیہ السلام) کی پوتی تھیں جن کا نام لیا بنت منشا بن یوسف تھا ، لوگوں نے شہر سے نکال کر باہر پھینک دیا ، اس حال میں بھی اللہ جل جلالہ کا شکر ادا کیا کرتے ، جب اللہ جل جلالہ کو منظور ہوا تو دعا فرمائی ، اللہ کریم نے زمین پر پاؤں مارنے کا حکم دیا جس سے شفاف چشمہ پھوٹ پڑا اور اس میں غسل کر کے صحت یاب ہوگئے ، رب جلیل نے اولاد اور مال ومنال بھی عطا فرمایا اگر وہی مرنے والے زندہ کر دے تو قادر ہے کہ حضرت عزیز (علیہ السلام) کی طرح دنیا اور برزخ کے درمیان ہی رکھا ہو اور پھر سے لوٹا دیا ہو یا نئی اولاد دے دی تو بھی اس کی قدرت سے کچھ بعید نہیں ، یہ سب حالات ان لوگوں کے لیے تو بہت بڑی نصیحت ہیں جو میری عبادت کرتے ہیں ، ایسے ہی اسمعیل (علیہ السلام) اور حضرت ادریس (علیہ السلام) اور ذوالکفل یہ سب لوگ صبر کرنے والے تھے یعنی دین پر عمل کا راستہ ایسا ہے کہ اس میں ہمیشہ مشکلات پیش آتی ہیں اور اللہ جل جلالہ سے ایمان کا تقاضا ہے کہ صبر وشکر سے برداشت کیا جائے پھر اللہ کریم آسانی میں بھی بدل دیتے ہیں کہ ان سب کو انجام کار ہم نے اپنی رحمت سے نوازا کہ یہ سب نیک اور صالح لوگ تھے ۔ (دین پر عمل کے راستہ میں ہمیشہ مشکلات آتی ہیں) ایسا ہی عجیب و غریب واقعہ مچھلی والے نبی یعنی حضرت یونس (علیہ السلام) کا ہے کہ جب وہ قوم خفا ہو کر چل دیئے اور ان کے خیال میں یہ کوئی جرم نہ تھا کہ اس پر گرفت ہو مگر وہ اندھیروں میں پھنس کر رہ گئے اور وہاں بھی اللہ ہی کو پکارا کہ اے اللہ تو ہی واحد اور بغیر کسی شریک کے حکمران ہے اور ہر عجیب سے پاک ہے بیشک میں قصور وار ہوں اس واقعہ بھی مقصود اسی موضوع کی تائید ہے کہ نافرمانی ہمیشہ عذاب ہی کا سبب بنتی ہے اور بھلائی کا راستہ توبہ کا راستہ اور اطاعت کا راستہ ہے ۔ (یونس (علیہ السلام) کا واقعہ) مفسرین نے بہت طویل بیان کیا ہے جس میں بڑی حد تک اسرائیلی روایات بھی آگئی ہیں جو اعتبار کے قابل نہیں ہوتیں قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ سے صاف واقعہ اس طرح سے ملتا ہے کہ موصل کے علاقہ میں نینوا نامی شہر کے لوگوں کی طرف مبعوث فرمائے گئے بہت محنت کے بعد بھی قوم نے آپ کی بات ماننے سے انکار ہی کیا تو اللہ جل جلالہ کی طرف سے عذاب کی وعید ملی جو انہوں نے قوم کو سنا دی کہ اب تین روز کے اندر اندر اللہ جل جلالہ کا عذاب تمہیں اپنی گرفت میں لینے والا ہے اور قوم کی اس بےحسی پر کہ کسی ایک آدمی نے بھی ایمان قبول نہ کیا بہت ناراض ہوئے ” ذھب مغاضبا “ ۔ سے اللہ جل جلالہ ہی کے لیے ناراض ہونا مقصود ہے اور اسی ناراضگی میں انہیں چھوڑ کر چل دیئے ، اگرچہ عذاب کا وعدہ بھی اللہ جل جلالہ کا تھا مگر تاحال توبہ کا دروازہ تو بند نہ ہوا تھا نیز اللہ جل جلالہ کے نبی کو جانے کے لیے بھی وحی کا انتظار کرنا اولی تھا اگرچہ عذاب کی وعید کے بعد آپ کا یہ اجتہاد کہ اب انہیں اس مقام سے چلے جانا چاہئے درست تھا کہ میرے چلے جانے سے کوئی گرفت نہ ہوگی مگر ہوا یہ کہ قوم نے توبہ کرلی ، جب انہوں نے دیکھا کہ یونس (علیہ السلام) تو چلے گئے اور عذاب کے بعض اثرات ظاہر ہونے لگے تو سب نے خوب الحاح وزاری سے دعا کی حتی کہ سب آبادیوں سے نکل گئے ، ماؤں نے بچوں کو دودھ دینا بند کردیا ، جانوروں کے بچے الگ کردیے اور یوں سب گڑ گڑا کر دعا کرنے لگے بچوں نے الگ رو رو کر شور کیا جانور اور ان کے بچے اپنی اپنی جگہ چلانے لگے تو اللہ جل جلالہ نے ان کی توبہ قبول فرما کر عذاب روک دیا ادھر حضرت یونس (علیہ السلام) چلتے ہوئے دریا پر پہنچے اور کشتی میں سوار ہوئے تو دریا کے درمیان کشتی رک گئی ، ان لوگوں نے کہا کہ شاید کوئی بھاگا ہوا غلام کشتی میں ہے حضرت یونس (علیہ السلام) کو تب احساس ہوا اور فرمایا میں ہوں مجھے دریا میں ڈال دیا جائے مگر اہل کشتی نہ مانے اور قرعہ ڈالا وہ بھی آپ ہی کے نام نکلا تو آپ کو دریا میں ڈال دیا جہاں فورا ایک مچھلی نے نگل لیا ، مگر اللہ جل جلالہ نے آپ کو مچھلی کی غذا نہ بننے دیا نہ اس حال میں آپ کو کوئی گزند پہنچا بلکہ مچھلی کے پیٹ کے اندر بھی آپ اللہ جل جلالہ کا ذکر کر رہے تھے گویا اپنے حواس میں تھے اور وہاں ہی دعا کی کہ اللہ جل جلالہ تو پاک ہے اور مجھ سے خطا سرزد ہوئی ، چناچہ ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے ان کی دعاقبول فرمائی اور انھیں اس مصیبت سے بچا لیا یعنی مچھلی نے کنارے پر اگل دیا اور پھر واپس اپنی زندگی میں لوٹ گئے ، ایسے ہی ہر ایمان والے کو ہم غموں سے بچا لیتے ہیں اور اس کی دعائیں قبول فرما کر اس کی دستگیری فرماتے ہیں ۔ یہی مثال حضرت زکریا (علیہ السلام) کے واقعہ میں موجود ہے جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا دعا کی بار الہا مجھے دنیا میں تنہا مت چھوڑ کر میرا کوئی وارث نہیں اور سب سے بہتر وارث تو تیری ہی ذات ہے کہ اولاد بھی دنیا سے چلی ہی جائے گی مگر میری تمنا ہے کہ میری اولاد ہو جو میری جگہ لے سکے اور میرے بعددین کی خادم ہو کہ انبیاء کرام ﷺ کی وراثت دین کا علم ہی ہوتی ہے تو ان کی دعا قبول ہوتی ، حضرت یحیٰ (علیہ السلام) جیسا عظیم فرزند عطا فرمایا جو نبوت سے سرفراز ہو کر حقیقی وارث ثابت ہوئے اور صرف یہی نہیں کہ ایک عظیم فرزند عطا فرمایا بلکہ ان کی اہلیہ جو بانجھ تھیں اور اولاد کے لائق نہ تھیں انہیں صحت مند اور قابل اولاد بنا دیا اس لیے کہ یہ میرے بندے نیکی اور بھلائی کی طرف لپکنے والے تھے کبھی نیکی میں تاخیر نہ کرتے اور ہر حال میں مجھے یاد کرتے ، دکھ ہو یا تکلیف آرام ہو یا راحت ہمیشہ مجھے ہی پکارتے تھے اور انہیں میرے مقابل اپنے عجز کا اور بندہ ہونے کا پوری طرح احساس تھا ، پھر حضرت مریم (علیہا السلام) کی مثال لیجئے جنھوں نے اپنی آبرو کو مرد سے محفوظ رکھا حتی کہ مرد سے نکاح کے راستے جائز اور حلال طور پر بھی نہ ملیں اور ہم نے ان میں اپنی روح پھونک دی جبرائیل (علیہ السلام) کو دم کرنے کا حکم دیا مگر جو پھونک انہوں نے ماری دراصل وہ ہمارا ہی فعل تھا اور انہیں بغیر شوہر کے فرزند عطا فرمایا اور ان کی ذات کو اور ان کے بیٹے کو ایک جہان کے لیے اپنی عظمت کا نشان بنا دیا ۔ (کیا شادی نہ کرنا باعث فضیلت ہے) مریم (علیہا السلام) کے واقعہ میں حضرت یحیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں بھی ان کے جنسی ملاپ سے الگ رہنے کی تعریف کی گئی ہے انہیں ” حصورا “ بھی کہا گیا ہے جس سے مراد ان کا جنس مخالف سے الگ رہنا ہے تو بظاہر لگتا ہے کہ شادی نہ کرنے پر تعریف ہے مگر یہ بات قابل توجہ ہے کہ اگر شادی نہ کرنا باعث فضیلت ہوتا تو نبی کریم ﷺ کبھی شادی نہ کرتے حالانکہ آپ نے نہ صرف نکاح فرمائے بلکہ نکاح کو اپنی اہم سنت قرار دے کر نکاح کرنے کی تاکید فرمائی ، ہاں اس حال میں کہ اگر شادی نہ ہو سکے تو پھر کسی بھی طرح ناموس پہ حرف نہ آئے قابل تعریف ہے نیز شادی اور جنسی ملاپ میں ایک اثر ہے کہ دنیا کا کوئی کام اگر سب سے زیادہ توجہ کو جذب کرتا ہے تو وہ جنسی اختلاط ہے اور وہ چند لمحے آدمی اگر فنا فی اللہ والا بھی ہو تو اس کی توجہ متاثر ہوتی ہے لہذا اس بات کو بھی شمار کیا جائے گا کہ جو بندہ زندگی بھر اس میں مبتلا ہی نہ ہوا ہو وہ کس قدر مکمل طور پر متوجہ الی اللہ رہا ، سیرت میں موجود ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی لخت جگر کو قبر میں اتارنے کے لیے حکم دیا تھا کہ ایسے دو بندے آئیں جنہوں نے رات اہلیہ سے مباشرت نہ کی ہو حالانکہ مباشرت کرنا گناہ نہیں تھا بلکہ زوجین کے حقوق میں ہے مگر نہ کرنے والا شب بھر زیادہ متوجہ الی اللہ رہا ، لہذا اس کام کے لیے اسے ترجیح دی گئی ، (واللہ اعلم) ہاں یہ درست ہے کہ اگر ممکن ہو تو نکاح ضرور کیا جائے اور آج کل تو دو تین چار نکاح کرے اگر اللہ جل جلالہ ہمت دیں تو یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں میں کفار کا اثر پھیل رہا ہے اور نکاح ثانی کو برا سمجھا جانے لگا ہے تو لوگو متذکرہ بالا سب لوگ جن کی نبوت وصداقت کو ماننے کا دعوی تم بھی رکھتے ہو ، یہودی ، عیسائی تو خیر عرب کے مشرک بھی خود کو دین ابراہیمی کا پیرو کار کہتے ہیں مگر یہ تو دیکھو کہ سب ایک جماعت ہیں ، عقائد میں کوئی اختلاف نہیں ۔ اللہ جل جلالہ کی ذات اور صفات آخرت ، حشر نشر عذاب وثواب اور فرشتوں کے وجود کی سب نے خبر دی ہے اور خصوصا سب نے اپنی بعثت کا بھی اور زندگی کا بھی مقصد یہی قرار دیا کہ اللہ جل جلالہ واحد ہے اور صرف اور صرف وہی اکیلا عبادت کے لائق ہے لہذا میں ہی تمہارا پروردگار ہوں میری ہی عبادت کیا کرو مگر لوگ اغراض کے بندے بن گئے اور وہی کتابیں پڑھ کر بھی خود کو تقسیم کرلیا ، اپنی اپنی غرض پوری کرنے کے لیے الگ مذاہب گھڑ لیے اور فرقے بنا لیے مگر یہ جان رکھو کہ آخر کب تک ! آخر کو تو سب کو ہماری ہی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے ۔
Top