Asrar-ut-Tanzil - An-Naml : 15
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ عِلْمًا١ۚ وَ قَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰى كَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا : اور تحقیق دیا ہم نے دَاوٗدَ : داود وَسُلَيْمٰنَ : اور سلیمان عِلْمًا : (بڑا) علم وَقَالَا : اور انہوں نے کہا الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے فَضَّلَنَا : فضیلت دی ہمیں عَلٰي : پر كَثِيْرٍ : اکثر مِّنْ : سے عِبَادِهِ : اپنے بندے الْمُؤْمِنِيْنَ : مون (جمع)
اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو علم عطا فرمایا اور انہوں نے کہا اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا فرمائی
آیات نمبر 15:31 اسرار و معارف : ہم نے داود اور سلیمان (علیہما السلام) کو علوم نبوت سے سرفراز فرمایا یہاں علم سے مراد نبوت کے ساتھ دوسرے علوم بھی شامل ہیں کہ حکومت و سیاست کا علم یا فنون میں سے زرہ سازی کا علم جو داود (علیہ السلام) کو بطور خاص عطا ہوا تھا نیز ان کی خصوصیت حکومت و سلطنت بھی تھی اور وہ حضرات اس پر شکر بھی ادا کرتے تھے کہ انہیں بہت سے نیک بندوں میں خاص فضیلت عطا کی گئی مثلاً ہر نبی کو بھی حکومت و سلطنت تو عطا نہ ہوئی اور سلیمان (علیہ السلام) داود (علیہ السلام) کے وارث مقرر ہوئے جب انہوں نے فرمایا کہ لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہر وہ نعمت عطا ہوئی ہے جو اس عظیم الشان سلطنت کے لیے ضروری ہے اور یہ اللہ کریم کا خاص احسان ہے۔ وراثت انبیاء : سلیمان (علیہ السلام) حضرت داود (علیہ السلام) کے علوم نبوت کے وارث ہوئے یہاں وراثت مال مراد لینا درست نہیں کہ مفسرین کرام کے مطابق داود (علیہ السلام) کے انیس بیٹے تے جو مال کے وارث تھے مگر نبوت صرف سلیمان (علیہ السلام) کو عطا ہوئی لہذا حکومت و سلطنت پر بھی وہی فائز ہوئے کہ حکومت وراثت میں نہیں بلکہ اہلیت کی بنیاد پر ملنا چاہیے تھی۔ اس سب کو آپ ﷺ کے ارشادات اور واضح کردیتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ہم انبیاء کی جماعت نہ کسی سے وراثت پاتے ہیں نہ کوئی ہمارا وارث ہوتا ہے۔ یعنی دولت دنیا اور روپے پیسے میں وراثت انبیاء میں ہوتی ہے اور سلیمان (علیہ السلام) کو تو علوم عطا ہوئے ان میں اضافہ کردیا گیا اور انہیں جنات اور چرند و پرند نیز وحوش پر بھی حکومت و سلطنت تو عطا نہ ہوئی اور سلیمان (علیہ السلام) داود (علیہ السلام) کے وارث مقرر ہوئے جب انہوں نے فرمایا کہ لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہر وہ نعمت عطا ہوئی ہے جو اس عظیم الشان سلطنت کے لیے ضروری ہے اور یہ اللہ کریم کا خاص احسان ہے۔ وراثت انبیاء : سلیمان (علیہ السلام) ضرت داود (علیہ السلام) کے علوم نبوت کے وارث ہوے یہاں وراثت مال مراد لینا درست نہیں کہ مفسرین کرام کے مطابق داود (علیہ السلام) کے انیس بیٹے تھے جو مال کے وارث تھے مگر نبوت صرف سلیمان (علیہ السلام) کو عطا ہوئی لہذا حکومت و سلطنت پر بھی وہی فائز ہوئے کہ حکومت وراثت میں نہیں بلکہ اہلیت کی بنیاد پر ملنا چاہیے تھی۔ اس سب کو آپ ﷺ کے ارشادات اور واضح کردیتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ہم انبیاء کی جماعت نہ کسی سے وراثت پاتے ہیں نہ کوئی ہمارا وارث ہوتا ہے۔ یعنی دولت دنیا اور روپے پیسے میں وراثت انبیاء میں نہیں ہوتی بلکہ فرمایا انبیاء کے وارث علما ہوتے ہیں کہ ان کی وراثت دراہم و دنانیر میں نہیں علم میں ہوتی ہے اور سلیمان (علیہ السلام) کو تو علوم عطا ہوئے ان میں اضافہ کردیا گیا اور انہیں جنات اور چرند و پرند نیز وحوش پر بھی حکومت و سلطنت اور ان سب کی زبانیں سمجھنے کا علم عطا ہوا۔ اور پھر یہ روایت موجود ہے کہ حضور ﷺ سلیمان (علیہ السلام) کے وارث ہوئے جبکہ درمیان میں کم و بیش سترہ سو سال کا فاصلہ ہے۔ اور پھر انہوں نے اپنا لاؤ لشکر جمع فرمایا اپنی سلطنت میں کسی جانب نکلنے کو جس میں انسانوں کے علاوہ جنات اور جانور ، پرندے وغیرہ اپنی اپنی جماعت میں حاضر تھے۔ اور ایک سمت کو نکلے حتی کہ ایک وادی پر گذر ہوا جہاں چیونٹیاں کثرت سے تھیں تو ایک چیونٹی نے لشکر کو آتا جان کر باقی چیونٹیوں سے کہا کہ اپنے گھروں میں گھس جاؤ ایسا نہ ہو کہ لشکر سلیمان (علیہ السلام) تمہیں روندتا ہوا گذر جائے اور انہیں تمہارے حال کی خبر بھی نہ ہو کہ کوئی پاؤں کے نیچے مسلا گیا ہے۔ جانوروں میں بھی شعور ہے : اس سے ثابت ہے کہ جانوروں میں بھی شعور ہے اگرچہ ایسا کامل نہیں کہ وہ شریعت کے مکلف ٹھہرائے جاتے مگر شعور ضرور ہے اور فطری علوم جو انہیں بخشے گئے ہیں جیسے گھر بنانا غذا تلاش کرنا بچے پالنا اور اپنے خاندان کو سنبھالنا یہ سب فرائض وہ بخوبی انجام دیتے ہیں شہد کے چھتے میں اور شیروں کے کنبے میں ہاتھیوں کے ریوڑ اور کو وں کی ڈار میں ہر جگہ یہ بات نظر آتی ہے۔ سلیمان (علیہ السلام) نے یہ بات سن بھی لی اور سمجھ بھی لی۔ ظاہر ہے ان کا سن لینا بھی معجزہ تھا کہ پاس تو نہ کھڑے تھے اور سمجھ لینا بھی اور اس پر بہت خوش بھی ہوئے کہ اللہ نے مجھے یہ علم عطا فرمایا اور میریرعیت میں چیونٹی کو بھی احساس ذمہ داری بخشا ہے کہ ان کی سردار ان کو بچانے کی فکر کر رہی ہے۔ تو دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے کہ بارے الہا اپنی ان نعمتوں کو دوام عطا فرما اور مجھے توفیق عطا کر کہ شکر ادا کرسکوں کہ مجھ پر بھی اور میرے والد پر بھی یہ کتنے عظیم احسان فرمائے گئے اور نیک اعمال کی توفیق کے ساتھ انہیں قبول بھی فرما۔ اور مجھے ہمیشہ اپنے نیک اور صالح بندوں میں ہی شامل رکھ۔ نیک عمل اور قبولیت : انبیاء (علیہم السلام) کی دعا ایک طریق تعلیم بھی ہوتا ہے یہاں یہ تعلیم فرما دیا کہ عمل کا صالح ہونا الگ بات ہے اور قبول ہونا الگ مثلاً جو عمل بھی ظاہراً شریعت کے مطابق ہے صالح ہے مگر قبول تو باطنی ارادے اور خلوص سے اور اللہ کریم کی مرضی سے ہوگا لہذا نیکی کے ساتھ بھی عجز کی ضرورت ہے۔ ایک جگہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے پرندوں کے بارے میں خبر لی تو پتہ چلا ہدہد غیر حاضر ہے۔ فرمایا یہ ہدہد کہاں غائب ہوگیا بلا اجازت غیر حاضری پر تو اسے بہت سخت سزا دی جائے گی یا ہوسکتا ہے سزائے موت دے دی جائے اور اسے ذبح کردیا جائے۔ یا پھر کوئی معقول وجہ بیان کرے گا۔ خدام کو رعایا کی خبر گیری اور انتظامی امور : حضرت ابن عباس کے مطابق ہدہد میں یہ خصوصیت ہے کہ زیر زمین پانی کی گذرگاہوں کو بھانپ لیتا ہے اور لشکر جہاں پہنچا تھا وہاں بظاہر پانی نہ تھا اب اس کی ضرورت پڑی کہ جگہ کی نشاندہی کرے اور جنات پل بھر میں کھود نکالیں تو وہ غائب جبکہ لشکر میں سے بعض کا پیاس سے مرنے کا اندیشہ تھا تو اس کی غیر حاضری پر بھی سزائے موت تک کا امکان بیان ہوا لہذا امور سلطنت میں خدام اور رعایا کی خبرگیری نیز ذمہ دار لوگوں پر انتظامی امور می دیانتداری کا اور پابندی سے کرنے کا اہتمام ضروری ہے یہاں عجیب بات نقل فرماتے کہ ہدہد زیر زمین تو دیکھ لیتا ہے مگر زمین پر ڈالے گئے جال میں بہت جلد پھنس جاتا ہے وہ نہیں دیکھ پاتا سبحان اللہ سب قدرت اللہ ہی کے لیے ہے اور مخلوق بہرحال محتاج۔ سو ہدہد بہت جلد حاضر ہوگیا اور عرض کرنے لگا کہ حضور غلام ایک بہت ایک بہت اہم خبر لایا ہے کہ دوران پرواز ایک شاداب ملک دیکھ کر ادھر چلا گیا اور وہاں جا کر ایسی عجیب حالت دیکھی جس کی آپ کو ابھی اطلاع نہیں کہ علم غیب تو خاصہ باری تعالیٰ ہے اور انبیاء کو اطلاع دی جاتی ہے لہذا جس بات کی خبر اللہ کی طرف سے نہ پہنچے اس کا پتہ نہیں ہوسکتا یہاں اللہ نے ہدہد کو ذریعہ بنا دیا۔ اور وہ خبر یہ تھی کہ میں سباء سے جو یمن کا بہت بڑا شہر تھا یہ اطلاع لایا ہوں اور پورے وثوق سے عرض کر رہا ہوں کہ وہاں اس قوم پر ایک خاتون کی حکومت ہے جس کے پاس حکومت وسلطتنت کے تمام لوازم موجود ہیں اور وہ ایک بہت بڑے اور عظیم الشان تخت پر جلوہ افروز ہوتی ہے۔ عورت کی حکومت : اسلام میں عورت کی حکومت کے بارے میں کوئی ابہام نہیں اور اس بات پر اجماع ہے کہ عورت حکومت کی اہل نہیں بلکہ نماز تک میں امامت نہیں کرسکتی چہ جائیکہ امامت کبری پہ فائز ہو۔ بلقیس کی حکومت سے دلیل لینا درست نہیں کہ وہ آتش پرستوں کی حکمران تھیں اور سلیمان (علیہ السلام) کا ان سے شادی کرکے انہیں حکومت پر فائز رکھنا کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں دوسرے یہ کہ اگر ایسا ہو تو حکومت شادی کے بعد سلیمان (علیہ السلام) کی ہوئی وہ تو ان کے تابع ہوگئی اور حق یہ ہے کہ ہمیں آقائے نامدار ﷺ کی اطاعت کرنا ہے پہلی امتوں کی نہیں اور آپ ﷺ نے اس کی اجازت نہیں دی نہ کسی عورت کو امام یا حاکم مقرر فرمایا۔ بلقیس کے حالات : مفسرین کرام نے لکھا ہے کہ ان کے دادا اس علاقہ کے بہت بڑے سلطان تھے پھر بلقیس کے باپ نے ایک جنی عورت سے شادی کی تھی جس کی یہ بیٹی تھی لہذا اس کے ساتھ بھی جنات ہوتے تھے۔ جنات کے ساتھ شادی کا امکان اور جواز اس پر اختلاف ہے کہ آیا یہ جائز ہے یا نہیں یہ حالات۔ آکام المرجان فی احکام جان۔ نامی کتاب میں موجود ہیں کہ یہ کیسے ممکن اور کس دور میں ایسا ہوا۔ جہاں تک جنات کے توالد و تناسل کا تعلق ہے تو وہ انسانوں کی طرح سے ہے اور جن مردوں کے انسانی خواتین پر جنسی حملے یا جنی خواتین کے انسان مردوں سے جنسی تعلقات فقیر کے ذاتی علم میں بھی ہیں کہ ایسا ہوتا ہے اور بکثرت ہوتا ہے ہاں نکاح کے جواز میں تردد ہے علماء کا یہ ارشاد بہت وزن رکھتا ہے کہ اگر اسے جائز کہا جائے تو ہر ناجائز حمل رکھنے والی عورت کہہ سکتی ہے کہ میں نے جن سے شادی کی ہے پھر اس کی تحقیق کیا ہوسکے گی بہرحال ایک طبقہ جواز کا قال بھی ہے۔ نیز ہدہد نے یہ اطلاع بھی دی کہ وہ عظیم الشان ملکہ اور اس کی قوم سورج کی پوجا کرتی ہے یعنی آتش پرست ہیں جو سورج آگ اور ہر روشنی کی پرستش کرنے لگتے ہیں اور شیطان نے انہیں اس راستے پر ایسا ڈال دیا ہے کہ وہ اسی کو بہت خوبصورت راستہ یعنی راہ ہدایت سمجھے ہوے ہیں اور یوں انہیں اللہ کی راہ سے روک دیا ہے اور وہ گمراہ ہوگئے ہیں۔ حالانکہ حق یہ ہے کہ وہ اللہ کو سجدہ کریں جو آسمان و زمین سے پوشیدہ چیزوں کو ظاہر کرتا ہے اور بندوں کے ظاہر و باطن سے بھی خوب واقف ہے اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں صرف اللہ پروردگار ہے عرش عظیم کا بھی۔ یعنی ہدہد نے بھی بھی خواہش ظاہر کی کہ انہیں ہدایت کی طرف بلایا جائے تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا ابھی تصدیق ہوجاتی ہے کہ تم سچ کہہ رہے ہو یا جان بچانے کے حیلے کر رہے ہو۔ میرا یہ خط لے جاؤ اور ملکہ اور اس کی قوم کو دو ملکہ کو دے کر الگ ہوجانا یعنی آداب شاہی کا لحاظ رکھنا پھر دیکھتے ہیں کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔ کفار کو دعوت بذریعہ تحریر : بذریعہ تحریر بھی دعوت نہ صرف درست بلکہ مسنون ہے آپ ﷺ نے کفار کے بادشاہوں کو خطوط روانہ فرمائے مگر اس میں مہذب انداز اختیار کرنا ضروری ہے جیسا کہ یہاں ہدہد کو تعلیم دیا جا رہا ہے اور آپ ﷺ کے قاصدوں کے عمل سے واضح ہے چناچہ ہدہد نے خط لے جا کر ملکہ کے ذاتی کمرہ میں ہاں وہ اکیلی تھی دیا اس نے پڑھا اور اپنے ساتھ دربار میں لائی اور امرء دربار سے کہا کہ مجھے ایک خط ملا ہے جو کسی نے میرے کمرے میں ڈال دیا ہے مگر وہ خط بہت خوبصورت جامع اور لائق ستائش ہے یہ سلیمان کی طرف سے ہے اور اس کا مضمون ہے کہ اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو نہایت مہربان اور بہت رحم کرنے والا ہے اور میرے مقابلے میں کبھی قوت کا اظہار نہ کرنا بلکہ اطاعت اختیار کرکے پاس حاضر ہوجاؤ۔ خط کے آداب : اول تو خط پہ مہر تھی جو خط کی عظمت کی دلیل ہوتی ہے اور دنیا کے سب حکمران استعمال کرتے ہیں حتی کہ نبی اکرم ﷺ بھی خطوط پہ مہر ثبت فرماتے تھے۔ لکھنے والے کا نام پہلے ہونا کہ مکتوب الیہ جان لے خط کس کا ہے آج کل پیڈ جو چھپتے ہیں وہ یہ دونوں کام کردیتے ہیں تیسرے یہ کہ خط اللہ کے نام سے شروع کیا جائے اور چوتھے یہ کہ جامع مضمون کم الفاظ ہوں فضول جملے لکھ کر خط طویل نہ کیا جائے۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ خواہ کافر کو لکھا جائے شروع اللہ کے نام اور اس کی عظمت کے بیان سے ہو۔
Top