Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Saadi - An-Naml : 15
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ عِلْمًا١ۚ وَ قَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰى كَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا
: اور تحقیق دیا ہم نے
دَاوٗدَ
: داود
وَسُلَيْمٰنَ
: اور سلیمان
عِلْمًا
: (بڑا) علم
وَقَالَا
: اور انہوں نے کہا
الْحَمْدُ
: تمام تعریفیں
لِلّٰهِ
: اللہ کے لیے
الَّذِيْ
: وہ جس نے
فَضَّلَنَا
: فضیلت دی ہمیں
عَلٰي
: پر
كَثِيْرٍ
: اکثر
مِّنْ
: سے
عِبَادِهِ
: اپنے بندے
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مون (جمع)
اور ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم بخشا اور انہوں نے کہا کہ خدا کا شکر ہے جس نے ہمیں بہت سے اپنے مومن بندوں پر فضیلت دی
آیت 15 سے 44 اللہ تبارک و تعالیٰ ان آیات کریمہ میں حضرت داؤد اور ان کے فرزند سلیمان (علیہ السلام) پر اپنے احسان کا ذکر کتا ہے کہ اس نے انہیں وسیع علم عطا کیا اور اس معنی کی دلیل یہ ہے کہ ” علم “ کو نکرہ کے صیغے میں بیان کیا جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا : (وداؤد و سلیمن اذ یحکمن فی الحرچ اذ نطشت فیہ غنم القوم وکنا لحکمھم شھدین۔ ففھمنھا سلیمن وکلا اتینا حکما وعلما) (الانبیاء : 21/78۔ 79) ” اور یاد کیجئے داؤد اور سلیمان کو جبکہ وہ دونوں ایک کھیت کے جھگڑے میں فیصلہ کر رہے تھے اس کھیت میں کچھ لوگوں کی بکریاں رات کے وقت چر گئی تھیں ہم ان کے فیصلے کو خود دیکھ رہے تھے۔ پس صحیح فیصلہ ہم نے سلیان کو سمجھا دیا حالانکہ حکم اور علم سے ہم نے دونوں ہی کو سرفراز کیا تھا۔ “ (وقالا) ان دونوں نے اس احسان پر کہ اللہ نے ان کو تعلیم دی، اپنے رب کا شکر بجا لاتے ہوئے کہا : (الحمد اللہ الذی فضلنا علی کثیر من عبادہ المومنین) ” اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت دی۔ “ پس ان دونوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی کہ اس نے انہیں ایمان سے بہرہ مند کی اور انہیں سعادت مند لوگوں میں شامل کی اور وہ ان کے خواص میں شمار ہوتے ہیں۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ اہل ایمان کے چار درجے ہیں۔ صالحین، ان سے اوپر شہداء، ان سے اوپر صدیقین اور سب سے اوپر انبیاء۔ داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے خاص رسولوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اگرچہ ان کا درجہ پانچ اولوالعزم رسولوں کے درجے سے کم تر ہے۔ تاہم وہ جملہ اصحاب فضیلت انبیاء و رسل میں شمار ہوتے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نہایت تعظیم کے ساتھ ذکر کیا ہے اور ان کی بہت زیادہ مدح و توصیف بیان کی ہے۔ پس انہوں نے اس منزلت کے عطا ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ یہ بندے کی سعادت کا عنوان ہے کہ وہ تمام دینی اور دنیاوی نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور یہ ایمان رکھے کہ تمام نعمتیں صرف اس کے رب کی طرف سے عطا ہوتی ہیں۔ وہ ان نعمتوں پر فخر کرے نہ ان پر تکبر کرے بلکہ وہ یہ سمجھے کہ یہ نعمتیں اس پر یہ لازم کرتی ہیں کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا بےانتہا شکر ادا کیا جائے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی مشترک مدح کی پھر سلیمان (علیہ السلام) کا خصوصی ذکر کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک عظیم سلطنت عطا کی اور انہوں نے وہ کارنامے سرانجام دئیے جو ان کے باپ داؤد (علیہ السلام) سرانجام نہ دے سکے۔ ( و ورث سلیمن داؤد) ” اور سلیمان، داؤد کے وارث بنے۔ “ یعنی و حضرت داؤد (علیہ السلام) کے علم ور ان کی نبوت کے وارث بنے انہوں نے اپنے علم کے ساتھ اپنے والد کے علم کو اکٹھا کرلیا شاید انہوں نے اپنے باپ کے علم کو اپنے باپ سے سیکھا اس کے ساتھ ساتھ ان کے باپ کی موجودگی میں بھی ان کے پاس علم تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (ففھمنھا سلیمن) (الانبیاء : 21/79) ” پس صحیح فیصلہ ہم نے سلیمان کو سمجھا دیا۔ “ اللہ تعالیٰ کے احسان پر اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اور تحدیث نعمت کے طور پر سلیمان (علیہ السلام) نے کہا : (یایھا الناس علمنا منطق الطیر) ” لوگو ! ہمیں جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے۔ “ سیلمان (علیہ السلام) پرندوں کی بولی اور ان کی بات کو سمجھتے تھے جیسا کہ آنجناب نے ہد ہد سیبات چیت کی اور ہد دہد نے ان کی باتوں کو جواب دیا اور جیسا کہ آنجناب نے چیونٹی کی بات کو سمجھ لیا تھا جو اس نے چیونٹیوں سے کی تھی۔۔۔ اس کا ذکر آئندہ سطور میں آئے گا۔ یہ فضیلت سلیمان (علیہ السلام) کے سوا کسی اور کو عطا نہیں ہوئی۔ (واوتینا من کل شی) ” اور ہمیں ہر چیز عطا کی گئی ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نعمتیں، اقتدار کے اسباب، سلطنت اور غلبہ عطا کیا جو انسانوں میں سے کسی کو عطا نہیں ہوئے اس لئے انہوں نے اپنے رب سے دعا کی : (وھب لی ملکا لا ینبغی لاحدن من بعدی) (ص : 38/35) ” اور مجھے وہ اقتدار عطا کر جو میرے بعد کسی کے سزاوار نہ ہو۔ “ پس اللہ تعالیٰ نے جنوں کو ان کے سامنے مسخر کردیا جو ان کے لئے ہر وہ کام کرتے تھے جو وہ چاہتے تھے، جو دوسرے لوگ نہیں کرسکتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ہوا کو ان کے لئے مسخر کردیا وہ صبح کے وقت ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت ایک مہینے کی راہ تک چلتی تھی۔ (ان ھذا ) ” بیشک یہ۔ “ یعنی یہ سب کچھ جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کیا، ہمیں فضیلت عطا کی اور جس کے ساتھ ہمیں مختص کیا۔ (لھو الفضل المبین) ” البتہ وہ صریح فضل ہے۔ “ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا واضح فضل ہے۔ پس انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کا پوری طرح اعترف کیا۔ (وحشر لسلیمن جنودوہ من الجن والانس والطیر فھم یوزعون) ” اور سلیمان (علیہ السلام) کے لئے جنوں، انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے اور وہ قسم وار کئے جاتے تھے۔ “ یعنی ان کے سامنے ان کے بیشمار مختلف انواع کے خوف ناک لشکر جمع ہوئے یہ لشکر انسانوں، جنوں، شیاطین اور پرندوں میں سے تھے۔ ان کو نظم و ضبط میں رکھا جاتا اور انکا انتظام کیا جاتا تھا۔ ان کے اول کو آخر کی طرف لوٹا یا جاتا تھا وہ اپنے کوچ کرنے اور پڑاؤ ڈالنے میں نہایت نظم و ضبط سے کام لیتے تھے اور ہر ایک اس کے لئے پوری طرح مستعد اور تیار ہوتا تھا۔ یہ تمام لشکر سلیمان (علیہ السلام) کے حکم کی تعمیل کرتے تھے ان میں سے کوئی بھی، حکم عدولی کرنے اور سرکشی دکھانے کی قدرت نہیں رکھتا تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ھذا عطاؤ نا فامنن اوامسک) (ص : 38/39) ” یہ ہماری نوازش ہے، آپ جسے چاہیں نوازیں اور جس سے چاہیں روک لیں۔ “ یعنی جس کو چاہیں بغیر حساب وعطا کریں۔ پس سلیمان (علیہ السلام) یہ عظی لشکر لے کر اپنی کسی مہم پر روانہ ہوئے (حتی اذاتوا علی واد النمل قالت نملۃ) ” حتیٰ کہ جب وہ چیوینٹوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا۔ “ یعنی چیونٹی نے اپنے گروہ اور اپنے ابنائے جنس کو متنہ کرتے ہوئے کہا : (یا یھا النمل ادخلو مسکنکم لا یحطمنکم سلیمن وجنودوہ وھم لایشعرون) ” اے چیونیٹو ! اپنے اپنے بلوں میں داخل ہوجاؤ، ایسانہ ہو کہ سلیمان (علیہ السلام) اور اس کے لشرک تم کو کچل ڈالیں اور ان کو خبر بھی نہ ہو۔ “ اس چیونٹی نے خیر خواہی کی اور یہ بات چیونٹیوں کو سنائی۔ یہ بات یا تو اس نے خود سنائی اور ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ نے خرق عادت کے طور پر چیونتیوں کو سماعت عطا کردی ہو کیونکہ چیونٹیوں کو ایک چیونٹی کی آواز کے ذریعے سے آگاہ کرنا، جبکہ چیونٹیوں نے وادی کو بھر رکھا تھا، بہت ہی تعجب انگیز بات ہے۔۔۔ یا اس چیونٹی نے ساتھی والی چیونٹی سے کہا ہوگا اور یہ خبر ایک چیونٹی سے دوسری چیونٹ تک حتیٰ کہ تمام چیونٹیوں میں سرایت کرگئی ہوگی اور اس چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں کے بچنے کیلئے کہا اور اس کا طریقہ یہ تھا کہ تمام چیونٹیاں اپنے اپنے بلوں میں گھس جائیں۔ یہ چیونٹی سلیمان علیہ السلام، ان کے احوال اور ان کی سلطنت کی عظمت کو اچھی طرح جانتی تھی اس لئے اس نے ان کی طرف سے معذرت کرتے ہوئے کہا، اگر انہوں نے چیونٹیوں کو کچل ڈالا تو یہ فعل قصداً اور شعوری طور پر نہیں ہوگا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے چیونٹی کی بات سن لی اور آپ اس کو سمجھ بھی گئے۔ (فتبسم ضاحکا من قولھا) ” پس وہ (سلیمان علیہ السلام) چیونٹی کی بات سن کر ہنس پڑے۔ “ چیونٹی کی اپنی ہم جنسوں کے بارے میں اور خود اپنے بارے میں خیر خواہی اور حسن تعبیر پر خوش ہو کر مسکرا پڑے یہ انبیائے کرام کا حال ہے جو ادب کامل اور اپنے مقام پر اظہار تعجب کو شامل ہے نیز یہ کہ ان کا ہنسان تبسم کی حد تک ہوتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا زیادہ تر ہنسنا مسکراہٹ کی حد تک ہوتا تھا۔ کیونکہ قہقہہ لگا کر ہنسنا خفت عقل اور سواء ادب پر دلالت کرتا ہے۔ خوش ہونے والی بات پر خوش نہ ہونا اور عدم تبسم بدخلقی اور طبیعت کی سختی پر دلالت کرتا ہے اور انبیاء و رسل اس سے پاک ہوتے ہیں۔ سلیمان (علیہ السلام) نے اللہ تبارک و تعالیٰ کا، جس نے اسے یہ مقام عطا کیا، شکر ادا کرتے ہوئے کہا : (رب اوزعنی) یعنی اے رب ! مجھے الہام کر اور مجھے توفیق دے (ان اشکر نعمتک التی انعمت علی وعلی والدی) ” کہ جو انسان تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیے ہیں، ان کا شکر کروں۔ “ کیونکہ والدین کو نعمت عطا ہونا اولاد کو نعمت عطا ہونا ہے۔ پس حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے رب سے اس دینی اور دنیاوی نعمت پر، جو اس نے انہیں اور ان کے والدین کو عطا کی، شکر ادا کرنے کی توفیق کا سوال کیا : (وان اعمل صالحا ترضہ ‘) ” اور یہ کہ ایسے نیک کام کروں کہ تو ان سے خوش ہوجائے۔ “ یعنی مجھے توفیق عطا کر کہ میں ایسے نیک کام کروں جو تیرے حکم کے موافق، خالص تیرے لئے، مفسدات اور نقائص سے پاک ہوں، تاکہ تو ان سے راضی ہو۔ (وادخلی برحمتک) ” اور مجھے اپنی رحمت سے داخل فرما۔ “ یعنی جنت بھی جس رحمت کا حصہ ہے۔ (فی عبادک الصلحین) ” اپنے جملہ نیک بندوں میں “ کیونکہ رحمت، صالحین کے لئے، ان کے درجات اور منازل کے مطابق رکھی گئی ہے۔ یہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کی اس حالت کے نمونے کا ذکر ہے جو چیونٹی کی بات سن کر ہوئی تھی۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے پرندوں کے ساتھ سلیمان (علیہ السلام) کے مخاطب ہونے کا ایک اور نمونہ ذکر کیا، چناچہ فرمایا : (وتفقد الطیر) ” اور انہوں نے پرندوں کا جائزہ لیا۔ “ یہ چیز اپ کے کام عزم و خرم، آپ کی افواج کی بہترین اور تنظیم اور چھوتے بڑے معاملات میں آپ کی بہترین تدبیر پر دلالت کرتی ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے پرندوں کو بھی مہمل نہیں چھوڑا بلکہ آپ نے ان کا بغور معائنہ کیا کہ تم پرندے حاضر ہیں یا ان میں سے کوئی مفقود ہے ؟ یہ ہے آیت کریمہ کا معنی۔ ان مفسرین کا یہ قول صحیح نہیں کہ سلیمان (علیہ السلام) نے پرندوں کو معائنہ اس لئے کیا تھا تاکہ وہ ہد ہد کو تلاش کریں کہ وہ کہاں ہے ؟ جو ان کی رہنمائی کرے کہ آیا پانی قریب ہے یا دور ہے۔ جیسا کہ ہد ہد کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ زمین کی کثیف تہوں کے نیچے پانی دیکھ سکتا ہے۔ ان کے اس قول پر کوئی دلیل نہیں بلکہ عقلی اور لفظی دلیل اس کے بطلان پر دلالت کرتی ہے۔ عقلی دلیل یہ ہے کہ عادت، تجربات اور مشاہدات کے ذریعے سے یہ بات معلوم ہے کہ تمام حیوانات میں کوئی حیوان ایسا نہیں جو خرق عادت کے طور پر زمین کی کثیف تہوں کے نیچے پانی دیکھ سکتا ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کا ذکر ضرور کرتا کیونکہ یہ بہت بڑا معجزہ ہے۔ رہی لفظی دلیل، تو اگر ہی معنی مراد ہوتا تو اللہ تعالیٰ یوں فرماتا :” سلیمان نے ہد ہد کو طلب کیا تاکہ وہ ان کے لئے پانی تلاش کرے جب انہوں نے ہد ہد کو موجود نہ پایا تو انہوں نے کہا جو کہا۔۔۔ “ یا عبارت اس طرح ہوتی ” سلیمان نے ہد ہد کے بارے میں تفتیش کی ” یا “ ہد ہد کے بارے میں تحقیق کی “ اور اس قسم کی دیگر عبارات۔ انہوں نے تو پرندوں کا صرف اس لئے جائزہ لیا تھا تاکہ وہ معلوم کریں کہ ان میں سے کون حاضر اور کون غیر حاضر ہے اور ان میں سے کون اپنے اپنامقام پر موجود ہے جہاں اس کو متعین کیا گیا تھا۔ نیز حضرت سلیمان (علیہ السلام) پانی کے متحاج نہ تھے کہ انہیں ہد ہد کے علم ہندسہ کی ضرورت پڑتی۔ اس لئے کہ آپ کے پاس جن اور بڑے بڑے عفریت تھے جو پانی کو خواہ کتنا ہی گہرا کیوں نہ وتا زمین کھود کر نکال لاتے۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کیلئے ہوا کو مسخر کردیا تھا وہ صبح کے وقت ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت ایم مہینے کی راہ تک چلتی تھی ان تمام نعمتوں کے ہوتے ہوئے وہ ہد ہد کے کیسے محتاج ہوسکتے تھے ؟ یہ موجود تفاسیر جو شہرت پاچکی ہیں ان کے سوا کوئی تفسیر معروف ہے نہ پائی جاتی ہے سب مجرد اسرائیلی روایات ہیں اور ان کے ناقلین صحیح معانی سے انے تناقض اور صحیح اقوال کے ساتھ ان کی تطبیق سے بیخبر ہیں۔ پھر یہ تفاسیر نقل ہوتی چلی آئیں، متاخرین متقدمین کے اعتماد پر ان کو نقل کرتے رہے حتیٰ کہ ان کے حق ہونے کا یقین آنے لگا۔ پس تفسیر میں روی اقوال اسی طرح جگہ پاتے ہیں۔ ایک عقل مند اور ذہین شخص خوب جانتا ہے کہ یہ قرآن کریم عربی مبین میں نازل ہوا ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے عالم و جائل تمام مخلوق کو خطاب کیا ہے اور ان کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کے معانی میں غور و فکر کریں اور ان کو معروف عربی الفاظ کے ساتھ جن کے معانی معروف ہیں تطبیق دینے کی کوشش کریں۔ جن سے اہل عرب ناواقف نہیں۔ اگر کچھ تفسیر اقوال رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی اور سے منقول ہیں تو ان کو اس اصل پر پرکھنا چاہیے۔ اگر وہ اسصل کے مطابق ہیں تو ان کو قبول کرلیا جائے کیونکہ الفاظ معانی پر دلالت کرتے ہیں۔ اگر یہ اقوال لفظ اور معنی کی مخالفت کرتے ہیں یا وہ لفظ یا معنی میں سے ایک کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کو رد کردے اور ان کے بطلان کا یقین کرے کیونکہ اس کے پاس ایک مسلمہ اصول ہے اور یہ تفسیری اقوال اس اصول کی مخالفت کرتے ہیں اور یہ اصول ہمیں کلام کے معنی اور اس کی دلالت کے ذریعے سے معلوم ہے۔ اور محل استشہاد یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا پرندوں کا معائنہ کرنا اور ہد ہد کو مفقود پانا ان کے کمال حزم و احتیاط، تدبیر سلطنت میں ذاتی عمل دخل اور ان کی ذہانت و فطانت پر دلالت کرتا ہے، یہاں تک کہ ہد ہد جیسے چھوٹے سے پرندے کو مفقود پایا تو فرمایا : (مالی لا اری الھد ھد ام اکنا من الغائنبین) ” کیا وجہ ہے کہ ہد ہد نظر نہیں آتا، کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ؟ “ کیا ہد ہد کا نظر نہ آنا میری قلت فطانت کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ وہ مخلوق کے بیشمار گروہوں میں چھپا ہوا ہے ؟ یا میری بات برمحل ہے کہ وہ میری اجازت اور حکم کے بغیر غیر حاضر ہے ؟ تب سلیمان (علیہ السلام) ہد ہد پر سخت ناراض ہوئے اور اسے دھمکی دیتے ہوئے فرمایا : (لا عذبنہ عذابا شدید) ” میں اسے سخت سزادوں گا۔ “ یعنی قتل کے سوا اسے ہر قسم کا سخت عذاب دوں گا۔ (اولا اذبحنہ اولیا یتینی بسلطن مبین) ” یا اسے ذبح کر ڈالوں گا یا وہ میرے سامنے دلیل صریح پیش کرے۔ “ یعنی وہ اپنے پیچھے رہ جانے کے جواز پر واضح دلیل پیش کرے۔ یہ آپ کے کمال عدل و انصاف اور تقویٰ کی دلیل ہے کہ آپ نے ہد ہد کو یوں ہی سخت عذاب دینے یا قتل کرنے کی قسم نہیں کھائی کیوں کہ یہ سزا صرف بہت بڑے جرم کی پاداش ہی میں دی جاسکتی ہے اور ہد ہد کی غیر حاضری میں کسی واضح عذر کا احتمال بھی ہوسکتا ہے اس لئے آپ نے اپنے ورع اور فطانت کی بنا پر اس کو مستثنیٰ کیا۔ (فمکث غیر بعید) ” ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی “ کہ ہدہد پیش ہوا اور یہ چیز لشکر میں سلیمان (علیہ السلام) کی ہیبت اور اپنے معاملات پر ان کی گہری نظر پر دلالت کرتی ہے حتیٰ کہ ہد ہد بھی جسے ایک واضح عذر نے پیچھے چھوڑ دیا تھا، طویل عرصہ تک غیر حاضر نہ رہ سکا۔ (فقال) ہد ہد نے سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں عرض کیا : (احطت بما لم تحظ بہ) ” میں کچھ علم رکھتا ہوں جس کا آپ (اپنے وسیع علم اور اس میں بلند رجے پر فائز ہونے کے باوجود) احاطہ نہیں کرسکے۔ “ (وجئتنک من سبا) ” اور میں آپ کے پاس سبا سے لایا ہوں۔ “ یعنی یمنکے مشہور قبیلہ سے (بنبا یقین) ” ایک یقینی خبر۔ “ یعنی میں ایک یقینی خبر لے کر آیا ہوں۔ پھر اس نے اس خبر کو واضح کرتے ہوئے عرض کیا : (انی وجدت امراۃ تملکھم) ” میں نے ایک عورت دیکھی کہ ان لوگوں پر بادشاہت کرتی ہے۔ “ یعنی وہ عورت ہوتے ہوئے قبیلہء سبا کی بادشاہ تھی۔ (واوتیت من کل شئی) ” اور اسے ہر قسم کا سازوسامان عطا کیا گیا ہے “ جو بادشاہوں کو عطا ہوتا ہے، مثلا مال و دولت، اسلحہ، فوج، مضبوط دفاعی حصار اور قلعے وغیرہ۔ (ولھا عرش عظیم) ” اور اس کے پاس بہر بڑا تخت (بادشاہی) ہے “ جس پر وہ جلوہ افروز ہوتی ہے۔ وہ بہت ہی حیران کن تخت ہے۔ تخت شاہی کا بڑا ہونا عظمت مملکت، قوت سلطنت اور شوریٰ کے افراد کی کثرت پر دلالت کرتا ہ۔ (وجدتھا وقومھا یسجدون للشمس من دون اللہ) ” میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کو چھوڑ کر کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں۔ “ یعنی وہ لوگ مشرک ہیں اور سورج کی پوجا کرتے ہیں۔ (وزین لھم الشیطن اعمالھم) ’ اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لئے مزین کردیا ہے “ انہیں اپنے اعمال حق نظر آتے ہیں (فصدھم عن السبیل فھم لا یھتدون) ’‘’ اور ان کو راستے سے روک رکھا ہے پس وہ ہدایت پر نہیں آتے۔ “ کیونکہ وہ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کا موقف حق ہے اس کی ہدایت کی توقع نہیں کی جاسکتی جب تک کہ اس کا یہ عقیدہ بدل نہ جائے۔ (الا یسجدوا اللہ الذی یخرج الخب فی السموات والارض) ” وہ اس اللہ کو سجدہ کیوں نہیں کرتے جو آسمانوں اور زمین میں چھپی چیزوں کو ظاہر کرتا ہے۔ “ یعنی جو آسمان کے کناروں اور زمین کے دو درواز گوشوں میں چھپی ہوئی چھوٹی چھوٹی مخلوقات، نباتات کے بیچ اور سینوں میں چھپے ہوئے بھیدوں کو جانتا ہے۔ وہ زمین اور آسمان میں چھپی ہوئی چیزوں کو بارش برسا کر اور نباتات اگا کر ظاہر کرتا ہے۔ وہ زمین میں پوشیدہ اشیاء کو اس وقت بھی ظاہر کرے گا جب صور پھونکا جائے گا اور مردوں کو زمین سے اٹھا کر کھڑا کیا جائے گا تاکہ ان کا ان کے اعمال کی جزا یا سزا دے (ویعلم ما تخفون وما تعلنون) ” اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم چھپاتے ہو اور جسے تم ظاہر کرتے ہو۔ “ (اللہ الا لہ الا ھو) ” اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ “ یعنی عبادت، انابت، تذلل اور محبت صرف اسی کے لائق ہے۔ وہی عبادت کا مستحق ہے کیونکہ وہ صفات کا ملہ کا مالک اور تمام نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں جو اس کی عبادت کی موجب ہیں۔ (رب العرش العظیم) ” وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔ “ جو تمام مخلوقات کے لئے چھت ہے اور زمین اور آسمانوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ پس یہ بادشاہ عظیم سلطنت اور بہت بڑی شان کا مالک ہے، وہی ہے جس کے سامنے تذلل اور خضوع کا اظہار کیا جائے اور وہی ہے جس کے سامنے رکوع و سجود کیا جائے۔ جب ہد ہد نے سلیمان (علیہ السلام) کو یہ عظیم خبر سنای تو وہ سزا سے بچ گیا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) حیران ہوئے کہ یہ بات ان سے کیسے چھپی رہ گئی۔ آپ نے ہد ہد کی عقل اور دانائی کا اثبات کرتے ہوئے کہا : (سننظر اصدقت ام کنت من الکذیبن۔ اذھب بکتبی ھذا ) ” اچھا ہم دیکھیں گے کہ تم نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹا ہے، یہ میرا خط لے جا۔ “ اس خط کے مندرجات کا عنقریب ذکر آئے گا۔ (فالقۃ الیھم ثم تول عنھم) ” اور اسے ان کی طرف ڈال دے پھر ان کے پاس سے پھر آ۔ “ یعنی ذرا دور ہٹ جا (فانظر ما ذا یرجعون) ” اور دیکھ کر وہ کیا جواب دیتے ہیں۔ “ یعنی تجھے کی جواب دیتے ہیں اور آپس میں کیا گفتگو کرتے ہیں۔ ہد ہد یہ خط لے گیا اور ملکہ کے سامنے پھینک دیا، اس نے اپنی قوم سے کہا : (انی القی الی کتب کریم) ” میری طرف ایک نامۂ گرامی ڈالا گیا ہے۔ “ یعنی روئے زمین کے سب سے بڑے بادشاہ کی طرف سے ایک جلیل القدر خط بھیجا گیا ہے۔ پھر اس نے خط کا مضمون بیان کرتے ہوئے کہا : (انہ من سلیمن وانہ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الا تعلوا علی واتونی مسلمین) ” وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے شروع اللہ کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے کہ مجھ سے سرکشی نہ کرو اور مطیع ہو کر میرے پاس چلے آؤ۔ “ یعنی مجھ سے بڑے بننے کی کوشش نہ کرو بلکہ مطیع ہو کر میری حکمرانی کو قبول کرلو میرے احکام کو تسلیم کرکے فرمانبرداری کے ساتھ میرے پاس آؤ۔ یہ خط مکمکل طور پر واضح ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مختصر تھا کیونکہ یہ خط انکو اپنی سرکشی، اپنے اس حال پر باقی رہنے سے روکنے، سلیمان (علیہ السلام) کے خم کی اطاعت، ان کی حکمرانی قبول کرنے، مطیع ہو کر ان کی خدمت میں حاجر ہونے اور ان کو اسلام کی دعوت دینے کو متضمن تھا۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ خط کی ابتدا میں پوری بسم اللہ لکھنا اور خط کے عنوان وغیرہ میں اپنے نام سے ابتدا کرنا مستحب ہے۔ یہ اس ملکہ کے حزم و احتیاط اور اس کی عقل مندی تھی کہ اس نے سلطنت کے بڑے بڑے لوگوں کو جمع کیا اور کہنے لگی :) یا یھا الملواء افتونی فی امری) ” اے اہل دربار ! میرے اس معاملے میں مجھے مشورہ دو ۔ “ یعنی مجھے بتاؤ کہ ہم سلیمان (علیہ السلام) کو کیا جواب دیں کیا ہم اس کی اطاعت قبول کرلیں یا اس کے علاوہ کچھ اور کریں ؟ (ما کنت قاطعۃ امرا حتی تشھدون) یعنی میں تمہاری رائے اور مشورہ کے بغیر اپی صوابدید کے مطابق احکام جاری نہیں کرتی۔ (قالو انحن اولا قوۃ واولوا باس شدید) ” انہوں نے کہا، ہم بڑے زور آور اور سخت جنگ جو ہیں۔ “ یعنی اگر آپ سلیمان (علیہ السلام) کی بات کو ٹھکرا دیں اور اس کی اطاعت قبول نہ کریں تو ہم جنگ کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ ان کی اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسے رائے کی طرف مائل ہوگئے تھے۔ اگر اس پر عمل درآمد ہوجاتا تو ان کی بہت تباہی ہوتی، پھر وہ اپنی رائے پر قائم نہ رہے بلکہ کہے لگے : (والامر الیک) ” اور حکم آپ کے اختیار میں ہے۔ “ یعنی آپ جو رائے دیں گی اسی کو اختیار کیا جائے گا کیونکہ وہ اس کی عقل مندی، حزم و احتیاط اور خیر خواہی کو جانتے تھے۔ (فانظری) ” پس دیکھئے “ یعنی غور وفکر کیجئے ! (ماذ تامرین) ” آپ کیا حکم فرماتی ہیں۔ “ قوم سبا کی ملکہ نے اپنے سرداروں کو ان کی رائے سے صرف نظر کرنے پر راضی کرتے اور جنگ کا انجام واضح کرتے ہوئے کہا : (ان الملوک اذا دخلوا قریۃ افسدوھا) ” بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو (قتل و غارت، لوٹ مار کرکے، لوگوں کو قیدی بنا کر اور گھروں کو اجاڑ کر) فساد برپا کرتے ہیں۔ “ (وجعلوا عزۃ اھلھا اذلۃ) ” اور وہاں کے عزت داروں کو ذلیل کردیتے ہیں۔ “ یعنی وہ رؤسا اور اشراف کو ذلیل کرتے ہیں۔ پس یہ رائے درست نہیں ہے، نیز میں آزمائے بغیر اور کوئی ایسا آدمی بھیجئے بغیر جو اس کے احوال پر سے پردہ ہٹا سکے، اس کی اطاعت قبول نہیں کروں گی تبہ ہمارا معاملہ بصیرت پر مبنی ہوگا۔ ملکہ نے کہا : (وانی مرسلۃ الیھم یھدیۃ فنظرۃ بمہ یرجع المرسلون) ” اور میں ان کی طرف کوئی تحفہ بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ قاصد کیا جواب لاتے ہیں۔ “ یعنی سلیمان (علیہ السلام) کی طرف سے ایلچی کو کیا جواب ملتا ہے آیا وہ اپنی رائے اور اپنے قول پر قائم رہتا ہے یا ہدیہ اسے فریب میں مبتلا کرکے اس کی رائے اور ارادے کو بدل دیتا ہے ؟ نیز اس کے اور اس کی افواج کے کیا حالات ہیں ؟ پس ملکہ نے اپنی قوم کے عقل مند اور اصحاب رائے لوگوں کو ہدیوں کے ساتھ سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں روانہ کیا۔ (فلما جاء سلیمن) ” پس جب وہ (قاصد) سلیمان (علیہ السلام) کے پاس پہنچا۔ “ یعنی ملکہ کے ایلچی تحائف لے کر سیلمان (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ (قال) تو حضرت سلیمان نے ان کے انکار کرنے اور ان کی دعوت پر لبیک نہ کہنے پر سخت ناراض ہوتے ہوئے کہا : (اتئمد ونن بمال فما اتتن اللہ خیر مما اتتکم) ” کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو ؟ جو کچھ اللہ نے مجھے عطا فرمایا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے۔ “ تمہاری ان چیزوں کی میرے نزدیک کوئی وقعت نہیں اور نہ ان کے آنے پر مجھے کوئی خوشی ہی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بیشمار نعمتوں سے نواز کر ان چیزوں سے بےنیاز کردیا ہے۔ (بل انتم بھدیتکم تفرحون) ” بلکہ تم ہی اپنے ہدیے پر اتراتے ہو۔ “ تم دنیا سے محبت کی بنا پر ان تحائف پر اتراتے ہو، تمہارے پاس جو کچھ ہے وہ اس کی نسبت کہیں کم ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کر رکھا ہے۔ پھر حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جب ایلچی میں عقل و دانش دیکھی اور آپ نے اندازہ کرلیا کہ وہ آپ کے پیغام کو من و عن ملکہ تک پہنچا دے گا تو آپ نے خط لکھے بغیر پیغام دیا اور کہا : (ارجع الیھم) ” ان کے پاس واپس جاؤ۔ “ یعنی یہ تحافء واپس ان کے پاس لے جاؤ (فلنا تینھم بجنود لا قبل لھم بھا) ” ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس کے مقابلے کی ان کو طاقت نہ ہوگی۔ “ (والنخرجنھم منھا اذلۃ وھم صغرون) ” اور ہم ان کو وہاں سے بےعزت کرکے نکال دیں گے۔ “ پس وہ ایلچی واپس آیا اور ان کو سلیمان (علیہ السلام) کا پیغام پہنچا دیا اور وہ سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے تیار ہوگئے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو علم تھا کہ وہ ضرور ان کی طرف آئیں گے اس لئے انہوں نے اپنی مجلس میں موجود جنوں اور انسانوں سے کہا : (ایکم یاتینی بعرشھا قبل ان یاتونی مسلمین) ” کوئی تم میں ایسا ہے کہ قبل اس کے کہ وہ مطیع ہو کر ہمارے پاس آئیں، اس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لے آؤ۔ ‘ تاکہ ان کے مسلمان ہونے سے پہلے پہلے ان کے تخت میں تصرف کرسکیں کیونکہ انکے مسلمان ہونے کے بعد ان کے اموال حرام ہوجائیں گے۔ (قال عفریت من الجن) ” جنات میں سے ” عفریت ‘ نے کہا۔” عفریت سے مراد وہ (جن وغیرہ) ہے جو نہایت طاقتور اور چست ہو۔ (انا اتیک بہ قبل ان تقوم من مقاملک وانی علیہ لقوی امین) ” قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں میں اس کو آپ کے پاس لا حاضر کرتا ہوں۔ میں اس کو اٹھانے کی طاقت رکھتا ہو اور امانت دار ہوں۔ “ ظاہر ہے اس وقت سلیمان (علیہ السلام) شام کے علاتے میں تھے ان کے درمیان اور قوم سبا کے علاقے کے درمیان تقریبا چارہ ماہ کی مسافت تھی۔۔۔ دو ماہ جانے کے لئے اور دو ماہ واپس لوٹنے کیلئے۔ بایں ہمہ اس عفریت نے کہا کہ اس تکت کے بڑا اور بھاری ہونے اور فاصلہ زیادہ ہونے کے باوجود وہ اسے لانے کا التزام کرتا ہے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اس مجلس سے کھڑا ہونے سے پہلے پہلے وہ اسے ال کر پیش کردے گا۔ اس قسم کی طویل مجالس کی عادت یہ ہوتی ہے کہ یہ زیادہ تر چاشت کے وقت تک رہتی ہیں یعنی یہ مجالس دن کے تیسرے حصے تک جاری رہتی ہیں یہ عام معمول کے وقت کی انتہاء ہے تاہم اس وقت میں کمی بیشی بھی ہوسکتی ہے۔ اس عظیم بادشاہ کی رعیت میں ایسے فراد موجود تھے جن کے پاس اتنی قوت اور قدرت تھی اور اس سے بھی بڑھ کر (قال الذی عندہ علم من الکتب) ” وہ شخص جس کے پاس کتاب کا علم تھا بولا “۔۔۔ مفسرین کہتے ہیں کہ وہ ایک عالم فاضل اور صالح شخص تھا جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں رہتا تھا اسے ” آصف بن برخیا “ کہا جاتا تھا اس کے پاس ” اسم اعظم ‘ کا علم تھا جس کے ذریعے سے جو دعا مانگی جائے اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے اور جو اسوال کیا جائے اللہ عطا کرتا ہے۔۔۔ (انا اتیک بہ قبل ان یرتد الیک طرفک) ” میں آپ کی آنکھ کے جھپکنے سے پہلے پہلے اسے آپ کے پاس حاضر کیے دیتا ہوں۔ ‘ یعنی وہ اس ” اسم اعظم “ کے واسطے سے دعا مانگے گا اور تخت اسی وقت حاضر ہوجائے گا چناچہ اس نے دعا مانگی اور ملکہء سبا کا تخت فوراً حاضر ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس سے یہی مراد ہے جو ہم نے بیان کیا ہے یا اس کے پاس کتاب کا کوئی ایسا علم تھا جس کی بنا پر وہ دور کی چیز کو اور مشکل امور کو حاصل کرنے کی قدرت رکھتا تھا۔ (فلما راہ مستقرا عندہ) ” پس جب انہوں نے اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا۔ “ تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کی کہ اس نے آپ کو قدرت اور اقتدار عطا کی اور تمام امور کو آپ کے لئے آسان کردیا۔ (قال ھذا من فضل ربی لیبلویء اشکرام اکفر) ” کہا کہ یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ مجھے آزمائے، کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوں۔ “ یعنی وہ مجھے اس کے ذریعے سے آزمائے، چناچہ سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے اقتدار، سلطنت اور طاقت سے۔۔۔ جیسا کہ جاہل ملوک و سلاطین کی عادت ہے۔۔۔ کبھی فریب نہیں کھایا۔ بلکہ آپ کو علم تھا کہ یہ قوقت واقتدار اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان ہے۔ وہ خائف رہتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس نعمت کا شکر ادا نہ کرسکیں۔ پھر واضح کردیا کہ شکر کا اللہ تعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اس کا فائدہ شکر کرنے والے ہی کی طرف لوٹتا ہے۔ فرمایا : (ومن شکر فانما یشکر لنفسہ ومن کفر فان ربی غنی کریم) ” اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بےنیاز، کرم کرنے والا ہے۔ “ یعنی وہ اس کے اعمال سے بےنیاز ہے، وہ کریم ہے بےپایاں بھلائی کا مالک ہے اس کی بھلائی شکر گزارا اور ناشکرکے سب کو شامل ہے البتہ جو کوئی اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے تو وہ مزید نعمتوں کا مستحق بنتا ہے اور جو کوئی اس کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے تو یہ ان کے زوال کا باعث بنتی ہے۔ پھر سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے پاس والوں سے فرمایا : (نکروا لھا عرشھا) ” اس ( ملکہ) کے لئے اس کے تخت کی صورت بدل دو ۔ “ یعنی اس تخت میں کچھ کمی بیشی کرکے اسے بدل ڈالو۔ (ننظر) ہم اس بارے میں اس کی عقل کا امتحان لیں گے۔ (اتھتدی) کیا اسے راہ صواب ملتی ہے اور اس کے پاس وہ ذہانت اور فطانت ہے جو اقتدار کے لائق ہے یا وہ اس سے محروم ہے ؟ (فلما جاء ت) ” پس جب وہ (ملکہء سبا) سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ “ تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے وہ تخت ملکہ سبا کے سامنے پیش کیا اور جس تخت پر وہ متمکن تھی اسے وہ اپنے شہر میں چھوڑ کر آئی تھی۔ (قیل اھکذ عرشک) ” پوچھا گیا کہ کیا آپ کا تخت بھی اسی طرح کا ہے۔ “ یعنی ہمارے ہاں یہ بات مشہور ہے کہ آپ کے پاس ایک بہت بڑا تخت ہے۔ کیا وہ اس جیسا تخت ہے جو ہم نے آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے ؟ (قالت کانہ ھو) ” اس نے کہا، گویا کہ یہ وہی ہے۔ “ یہ ملکہء سبا کی ذہانت وفطانت تھی کہ اس نے یہ نہیں کہا ” یہ وہی ہے “ کیونکہ اس میں تبدیلی ہوچکی تھی اور نہ اس نے اس کی نفی ہی کی کیونکہ وہ اس تخت کو پہنچان چکی تھی اس لئے اس نے اپنے جواب میں ایسا لفظ استعمال کیا جو دونوں امور کا محتمل اور دونوں حالتوں پر صادق آتا تھا۔ سلیمان (علیہ السلام) نے اس کی ہدایت اور عقل مندی پر حیران ہو کر اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے، کہ اس نے اسے اس سے بھی زیادہ عقل و دانش سے نوازا ہے، کہا : (واوتینا العلم من قبلھا) ” اور ہم کو اس سے پہلے ہی علم ہوگیا تھا۔ “ یعنی ہدایت، عقل و دانش اور حزم و احتیاط اس ملکہ سے پہلے عطا ہوچکی ہے (وکنا مسلمین) ” اور ہم مسلمان ہیں۔ “ اور یہی حقیقی اور نفع مند ہدایت ہے۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ یہ ملکہء سبا کا قول ہو یعنی ” ہمیں سلیمان کی بادشاہت، سلطنت اور وسیع اقتدار کے بارے میں اس حالت سے پہلے ہی علم تھا، جو بہت لمبی مسافت سے ہمارا تخت منگوا کر پیش کرنے کی صورت میں ہم نے اس کی قدرت کا مشاہدہ کیا۔ ہم اس کے سامنے سر اطاعت خم کرتے ہوئے اور اس کی سلطنت اور اقتدار کو تسلیم کرتے ہوئے اطاعت کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔ “ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (وصدھا ما کانت تعبد من دون اللہ) ’ اور اللہ کے سوا وہ جس کی پرستش کرتی تھی، اس نے اسے روکے رکھا۔ “ یعنی اسے اسلام سے روکے رکھا ورنہ اس میں ذہانت و فطانت تھی جس کے ذریعے سے وہ باطل میں سے حق کو پہنچان سکتی تھی۔ مگر حقیقت ہے کہ باطل عقائد بصیرت قلب کو زائل کردیتے ہیں (انھا کانت من قوم کفرین) ” (اس سے پہلے) وہ کافروں میں سے تھی۔ “ اس لئے وہ انہی کے دین پر قائم رہی۔ اہل دین سے کسی ایک شخص کا علیحدہ ہونا۔۔۔ جبکہ اس کی دائمی عادت اس معاملے کے بارے میں کہ ہے کہ اس کی عقل اے لوگوں کی گمراہی اور خطا قرار دیتی ہے۔۔۔ بہت نادر چیز ہے، اس لئے اس کا کفر پر باقی رہنا کوئی تعجب انگیز نہیں ہے۔ پھر سلیمان (علیہ السلام) نے ارادہ کیا کہ ملکہ ان کی سلطنت کا مشاہدہ کرکے جو عقول کو حیران کردیتی ہے۔ پس آپ نے اس سے کہا کہ وہ محل میں داخل ہو، وہ ایک بلند اور سیع بیٹھنے کی جگہ تھی اور یہ شیشے سے بنائی گئی تھی جس کے نیچے نہریں جاری تھیں۔ (قیل لھا ادخلی الصرح فلما راتۃ حسبتہ لجۃ) ” اس سے کہا گیا کہ محل میں داخل ہوجاؤ تو جب اس نے اس کو دیکھا تو اسے پانی کا حوض سمجھا۔ “ کیونکہ شیشے شفاف تھے اور ان کے نیچے بہتا ہوا پانی صاف دکھائی دے رہا تھا اور وہ شیشہ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ بذات خود چل رہا ہو۔ اس کے سوا کوئی چیز نہ ہو۔ (وکشفت عن ساقیھا) ” اور اس نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑا ہٹا لیا “ پانی میں داخل ہونے کے لئے۔ یہ چیز بھی ملکہ کی عقل مندی اور اس کے ادب پر دلالت کرتی ہے کیونکہ وہ محل میں جہاں اسے داخل ہونے کے لئے کہا گیا، داخل ہونے سے رکی نہیں۔ اسے علم تھا کہ صرف اس کے اکرام و تکریم کی خاطر ایسا کرنے کے لئے کہا گیا ہے اور سلیمان بادشاہ اور اس کی تنظیم نے حکمت اور دانائی کی بنیادی پر اسے تعمیر کرایا ہے اور جو کچھ اس نے دیکھا تھا اس کے بعد کسی بری حالت کے بارے میں اس کے دل میں ادنیٰ سا شک بھی نہ تھا۔ اور جب وہ ” پانی “ میں داخل ہونے کیلئے تیار ہوئی تو اسے کہا گیا : (انہ صرح ممرد) ” یہ ایسا محل ہے جس میں جڑے ہوئے ہیں۔ “ یعنی چکنا اور ملائم کیا گیا ہے (ن قواریر) ” شیشوں سے۔ “ اس لئے تجھے پنڈلیوں سے کپڑا اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پس جب وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس پہنچی، وہاں جو کچھ دیکھا اور اسے سلیمان (علیہ السلام) کی نبوت اور رسالت کے بارے میں لعم ہوا تو وہ اپنے کفر سے باز آگئی اور کہنے لگی : (رب انی ظلمت نفسی واسلمت مع سلیمن للہ رب العلمین) ” اے میرے رب ! میں اپنے آپ پر ظلم کرتی رہی، اب میں سلیمان کے ساتھ کائنت کے رب کی اطاعت قبول کرتی ہوں۔ “ ملکہء سبا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا یہ وہ قصہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ خود ساختہ فروعات اور اسرائیلی روایات، جو تفسیر کے نام پر پھیلی ہوئی ہیں ان کا اللہ تعالیٰ کے کلام کی تفسیر سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس قسم کی روایات ایسے امور میں شمار ہوتی ہیں جن کا اطعی فیصلہ ایسی دلیل پر موقوف ہوتا ہے جو نبی اکرم ﷺ سے منقول ہو۔ اس قصہ میں منقول اکثر روایات اس معیار پور پوری نہیں اترتیں۔ اس لئے کامل احتیاط یہ ہے کہ ان سے اعراض کیا جائے اور ان کو تفسیر میں داخل نہ کیا جائے۔
Top