Baseerat-e-Quran - An-Naml : 15
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ عِلْمًا١ۚ وَ قَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰى كَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا : اور تحقیق دیا ہم نے دَاوٗدَ : داود وَسُلَيْمٰنَ : اور سلیمان عِلْمًا : (بڑا) علم وَقَالَا : اور انہوں نے کہا الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے فَضَّلَنَا : فضیلت دی ہمیں عَلٰي : پر كَثِيْرٍ : اکثر مِّنْ : سے عِبَادِهِ : اپنے بندے الْمُؤْمِنِيْنَ : مون (جمع)
اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا کیا۔ ان دونوں نے کہا تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت دی ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 15 تا 19 : فضلنا (ہم نے فضیلت دی۔ بڑائی دی) علمنا ( ہمیں سکھایا گیا) منطق (بولنا۔ بولی) الطیر (پرندہ۔ پرندے) حشر (جمع کیا گیا) ‘ یوزعون (وہ روکے جاتے ہیں) ‘ وادالنمل (چیونٹیوں کا میدان) ‘ لایحطمن (روند نہ ڈالیں) تبسم (وہ مسکرادیا) ضاحک ( ہنسنے والا) ‘ اوزعنی ( مجھے توفیق دے) ‘ ترضی (توخوش ہوجائے) ۔ تشریح : آیت نمبر 15 تا 19 : حضرت دائود (علیہ السلام) جو بنی اسرائیل کے عظیم پیغمبر تھے ان کو اللہ نے زبور کے ساتھ ساتھ ایسی خوبصورت آواز سے نوازا ھتا کہ جب وہ اپنی خوبصورت آواز میں زبور کی آیات کی تلاوت اور اللہ کی حمد وثناء کرتے تھے تو تمام انسان ‘ جنات ‘ چرند پرند اور درند بھی جھوم اٹھتے اور ان کی حمد و ثنا سے پہاڑ گونج اٹھتے تھے۔ وہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے اخراجات اپنے ہاتھ کی محنت سے پورے فرماتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں لوہے کو موم کی طرح نرم کردیا تھا وہ جس طرح چاہتے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے لوہے کو گرم کئے بغیر باریک اور نازک زنجیروں کے حلقے بناکرایسی زر ہیں تیار کرتے تھے جن سے ایک سپاہی میدان جنگ میں آسانی سے نقل و حرکت کرسکتا تھا اور اس طرح ایک جنگی ضرورت بھی پوری ہوجاتی تھی۔ حضرت دائود (علیہ السلام) کے انیس بیٹے تھے جن میں سب سے چھوٹے بیٹے حضرت سلیمان (علیہ السلام) تھے۔ تمام اولاد میں صرف حضرت سلیمان (علیہ السلام) ہی ان کے علم کے وارث تھے۔ وقت کے عظیم نبی اور عالی شان حکومت و سلطنت کے مالک تھے۔ ایک مرتبہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اللہ سے دعا کی ” الہٰی مجھے ایسی سلطنت عطا فرما جو میرے بعد کسی کو میسر اور حاصل نہ ہو (سورۃ ص) اللہ تعالیٰ نے ان کی اس دعا کو قبول فرمایا اور ان کو وہ سلطنت عطا فرمائی جو اپنی مثال آپ ہے۔ اللہ نے ان کو انسانوں اور جنات کے علاوہ چرند ‘ پرند ‘ رند اور ہواؤں پر بھی حکومت عطا کی تھی۔ ہوا ان کے اسی طرح تابع اور مسخر کردی گئی تھی کہ وہ آپ کے تخت کو لے کر اڑ جاتی ۔ تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ ایک مہینے کا سفر آدھے دن میں طے ہوجایا کرتا تھا۔ ان کا لشکر زبردست قوت و طاقت کا مالک تھا جس میں چرند ‘ پرند ‘ درند ‘ انسان اور جنات سب ہی شامل تھے۔ اور آپ ہر مخلوق کی بوی سمجھتے تھے۔ چناچہ ایک مرتبہ آپ اسی زبردست لشکر کے ساتھ جا ہے تھے کہ آپ کے کان میں ایک چیونٹی کی آواز پڑگئی جو اپنی ساتھی چیونٹیوں سے کہہ رہی تھی کہ تم جلدی سے اپنے بلوں میں گھس جائو کیونکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا لشکر آرہا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ لشکر تمہیں اپنے پاؤں سے روند ڈالے اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس چھوٹے سے جانور کی بات سن پر بےساختہ ہنس پڑے اور شکر کے طور پر اللہ کے سامنے جھک گئے اور عرض کیا “ الہٰی میں کس منہ سے آپ کا شکر یہ اداکروں۔ واقعی آپ نے مجھے اور میرے والدین کو اپنی بیشمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ عاجزی اور انکساری سے عرض کیا کہ اے اللہ مجھے اپنے صالح بندوں میں شالم فرما لیجئے گا۔ اپنی خاص رحمت اورا علیٰ درجات سے نواز دیجئے گا ۔ مجھے ایسے اعمال کی توفیق عطا فرمایئے گا کہ جس سے آپ راضی ہوجائیں۔ اللہ نے ان آیات میں چند باتوں کو ارشاد فرمایا ہے (1) اللہ نے حکومت تو فرعون کو بھی دی تھی مگر وہ اس قوت و طاقت کو اپنا ذاتی کمال سمجھ کر نافرمان بن گیا اور اللہ کے مقابلے میں اس نے لوگوں کو اپنے سامنے جھکانا شروع کردیا۔ اس کے برخلاف اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو زبردست قوت و طاقت ‘ حکومت و سلطنت عطا فرمائی تھی لیکن انہوں نے اس کو اپنا ذاتی کمال نہیں بلکہ اللہ کی عطائو بخشش سمجھا اسی لیے وہ ہر آن ہر نعمت پر اللہ کا شکرادا کرتے تھے۔ (2) اتنی بڑی سلطنت و حکومت کے باوجود حضرت دائود لوہے کی زر ہیں بنا کر اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) ٹوکریاں بناکر اپنی گذراوقات کرتے تھے۔ یہ وہ ہاتھ کی کمائی تھی جو انسان کو اللہ کا محبوب بنادیتی ہے۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ کسی انسان کا بہترین رزق اس کے اپنے ہاتھ کی کمائی ہے۔ بلاشبہ حضرت دائود اپنے ہاتھ سے محنت کرتے تھے۔ (3) اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ اس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو حضرت دائود ؐ کا وارث بنایا اس سے مراد ” وراثت علم “ ہے مال و دولت کی وراثت نہیں ہے کیونکہ انبیاء کرام کی وراثت مال و دولت نہیں ہوتی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہم انبیاء کرام نہ کسی کے وارث ہوتے ہیں اور نہ کوئی ہمارا وارث ہوتا ہے۔
Top