Asrar-ut-Tanzil - An-Naml : 32
قَالَتْ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِیْ فِیْۤ اَمْرِیْ١ۚ مَا كُنْتُ قَاطِعَةً اَمْرًا حَتّٰى تَشْهَدُوْنِ
قَالَتْ : وہ بولی يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا : اے سردارو ! اَفْتُوْنِيْ : مجھے رائے دو فِيْٓ اَمْرِيْ : میرے معاملے میں مَا كُنْتُ : میں نہیں ہوں قَاطِعَةً : فیصلہ کرنے والی اَمْرًا : کسی معاملہ میں حَتّٰى : جب تک تَشْهَدُوْنِ : تم موجود ہو
کہنے لگی اے سردارو ! میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو جب تک تم لوگ حاضر نہ ہو (مشورہ نہ دو ) میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کرتی
رکوع نمبر 3 ۔ آیات 32 تا 44 ۔ اسرار و معارف : مشورہ کی اہمیت : ملکہ بلقیس نے اپنے امراء کو جمع کرکے خط سنانے کے بعد رائے دریافت کی اور کہا کہ تمہیں علم ہے امور سلطنت ہمیشہ تمہارے مشورے سے طے کیے جاتے ہیں اس سے ثابت ہے کہ قبل اسلام بھی بعض حکمران مشورہ کی اہمیت سے واقف تھے اسلام نے مشورہ کی اہمیت پر اس قدر زور دیا کہ خود نبی اکرم ﷺ خدام سے مشورہ فرماتے تھے۔ امراء دربار نے جواب دیا کہ اگر بات مقابلہ کرنے کی ہے تو ہماری جنگی طاقت کسی سے کم نہیں اور ہم مانے ہوئے جنگجو بھی ہیں اور اگر مصلحت اس کے خلاف ہے تو بھی فیصلہ اور حکم تو آپ ہی صادر فرمائیں گی جو مناسب ہو ارشاد فرمائیں اس نے کہا کہ ابھی جنگ مناسب نہیں ہے پہلے تحقیق کرلینا ضروری ہے کہ جنگ میں فتح و شکست دونوں کا امکان ہوتا ہے اور شکست ملکوں اور شہروں پر تباہی لاتی ہے فاتح حکمران شہروں کو اجاڑ دیتے ہیں اور وہاں کے با اثر افراد کو رسوا کردیتے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ فاتحین کا کردار اور مسلمان : یہاں حکمرانوں کو یہ حکت عملی تعلیم دی گئی ہے کہ ملکی مفاد میں جنگ لڑی جائے جب کوئی دوسرا راستہ باقی نہ ہو محض اپنی ہوس کی تکمیل کیلئے ملکوں اور قوموں کو جنگ میں نہ جھونکا جائے۔ نیز ملکہ سبا نے غیر مسلم فاتحین کے کردار کی صحیح تصویر پیش کردی ہے جبکہ اسلام نے جنگ ہی سے روک کر جہاد کا فلسفہ دیا جس میں مقابل کو رسوا کرنا مقصود نہیں بلکہ برائی سے روکنا مقصود ہے اور تاریخ اسلام گواہ ہے کہ مسلمان فاتحین نے کفار مفتوحین سے بھی انصاف ہے اور رواداری کا سلوک کیا جنہیں مغرب کے وحشی اب دہشت گرد کہتے ہیں۔ صحابہ کرام کی عظمت تو بہت بلند ہے فلسطین ہی پر مسلمانوں اور عیسایوں کے قبضے میں کیا فرق ہے دیکھا جاسکتا ہے۔ نیز ملکہ بلقیس یہ بھی جاننا چاہتی تھی کہ یہ بات صرف بادشاہ کی نہیں اس میں بات عقیدے کی ہے اور باطل مذہب کو چھوڑنے اور اللہ کے ساتھ ایمان لانے کی ہے لہذا دیکھا جائے کہ یہ بندہ محض ہوس ملک گیری میں مذہبی لبادہ اوڑے ہوئے ہے یا واقعی اللہ کا سچا نبی ہے اگر تو مفاد پرست ہے تو مقابلہ کریں گے اور نبی سچا ہے تو اطاعت کی جائے کہ جنگ سے سوائے شکست کے کچھ حاصل نہ ہوگا چناچہ یہ طے کیا کہ میں بہت ہی قیمتی تحائف دے کر اپنے قاصد روانہ کرتی ہوں دیکھیں وہ کیا جواب لاتے ہیں کہ اگر دنیا کا طالب ہے تو دولت لے کر خوش ہوجائے گا یا مزید طلب کرے گا اور اگر نبی ہے تو عقیدے پہ سمجھوتہ نہ کرے گا یہاں یہ بات ثابت ہے کہ باطل معاشرے یا باطل انداز حکمرانی کو محض چند فوائد کے لیے قبول کرنا درست نہیں بلکہ اس سے ٹکرانا ضروری ہے۔ رہا غیر مسلم کا ہدایہ تو آپ ﷺ نے قبول بھی فرمایا اور رد بھی۔ جہاں دین پر سمجھوتے کا انداز تھا آپ ﷺ نے رد فرما دیا اور جہاں محض تعلقات میں بہتری کا ذریعہ تھا قبول فرما لیا۔ تحائف کی طویل فہرست لکھی گئی ہے سونے کی اینٹیں جواہرات غلام اور کنیزیں تو ظاہر ہے ایک بہت بڑی خوشحال حکومت کا ایک بہت بڑے شاہنشاہ کے حضور تحفہ بہت قیمتی ہوگا۔ ساتھ کچھ سوالات بھی تھے۔ حضرت ابن عباس کے مطابق ہدہد میں یہ خصوصیت ہے کہ زیر زمین پانی کی گذرگاہوں کو بھانپ لیتا ہے اور لشکر جہاں پہنچا تھا وہاں بظاہر پانی نہ تھا اب اس کی ضرورت پڑی کہ جگہ کی نشاندہی کرے اور جنات پل بھر میں کھود نکالیں تو وہ غائب جبکہ لشکر میں سے بعض کا پیاس سے مرنے کا اندیشہ تھا تو اس کی غیر حاضری پر بھی سزائے موت تک کا امکان بیان ہوا لہذا امور سلطنت میں خدام اور رعایا کی خبرگیری نیز ذمہ دار لوگوں پر انتظامی امور می دیانتداری کا اور پابندی سے کرنے کا اہتمام ضروری ہے یہاں عجیب بات نقل فرماتے کہ ہدہد زیر زمین تو دیکھ لیتا ہے مگر زمین پر ڈالے گئے جال میں بہت جلد پھنس جاتا ہے وہ نہیں دیکھ پاتا سبحان اللہ سب قدرت اللہ ہی کے لیے ہے اور مخلوق بہرحال محتاج۔ سو ہدہد بہت جلد حاضر ہوگیا اور عرض کرنے لگا کہ حضور غلام ایک بہت ایک بہت اہم خبر لایا ہے کہ دوران پرواز ایک شاداب ملک دیکھ کر ادھر چلا گیا اور وہاں جا کر ایسی عجیب حالت دیکھی جس کی آپ کو ابھی اطلاع نہیں کہ علم غیب تو خاصہ باری تعالیٰ ہے اور انبیاء کو اطلاع دی جاتی ہے لہذا جس بات کی خبر اللہ کی طرف سے نہ پہنچے اس کا پتہ نہیں ہوسکتا یہاں اللہ نے ہدہد کو ذریعہ بنا دیا۔ اور وہ خبر یہ تھی کہ میں سباء سے جو یمن کا بہت بڑا شہر تھا یہ اطلاع لایا ہوں اور پورے وثوق سے عرض کر رہا ہوں کہ وہاں اس قوم پر ایک خاتون کی حکومت ہے جس کے پاس حکومت وسلطتنت کے تمام لوازم موجود ہیں اور وہ ایک بہت بڑے اور عظیم الشان تخت پر جلوہ افروز ہوتی ہے۔ اللہ کریم نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اطلاع کردی آپ نے دربار سے باہر دور تک سونے چاندی کا فرش لگوادیا اور انسان حیوان پرندے جنات درجہ بدرجہ دو رویہ کھڑے کردئیے اور عالیشان دربار سجایا۔ جب وہ قاصد پہنچے تو اپنے تحفے خود انہیں بےقیمت نظر آنے لگے آپ نے فرمایا تو تم مجھے مال و دولت بطور رشوت دینا چاہتے ہو حالانکہ اللہ نے بیشمار مال و دولت اپنے احسان سے عطا فرمایا ہے۔ اپنے تحفے واپس لے جاؤ اور یہ دیکھ لو کہ میرے لشکروں کا اندازہ کیا ہے یہ تم پر چڑھائی کریں گے تو تمہیں مقابلہ کی تاب نہ ہوگی اور تمہارے حکمران ذلیل و خوار ہو کر ملک بدر کردیے جائیں گے چناچہ قاصد مبہوت ہو کر واپس پہنچے اور سوالوں کے جواب بھی لائے۔ دنیاوی شان و شوکت اور فوجی طاقت کا تذکرہ بھی کیا تو ملکہ بلقیس نے اطاعت کرنے اور خود حاضر ہونے کا ارادہ کرلیا۔ مفسرین کرام کے مطابق اس کے ہمراہ بارہ ہزار سردار تھے جن کے تحت ایک لاکھ سپاہ تھی۔ ادھر جب حضرت کو اطلاع ہوئی تو آپ نے اہل دربار سے فرمایا کہ تم میں سے کون ہے جو اس کا وہ مشہور تخت اس کے یہاں پہنچنے سے پہلے حاضر کردے۔ تخت جو اندر ہی بنایا گیا تھا قلعوں کے اندر محلات کے کمرہ خاص میں تھا وہاں سے نکلنا ہی محال تھا چہ جائیکہ کوئی پہریداروں کے سامنے اسے لے کر چل دے اور حضرت کا یہ فرمانا کہ تم میں سے کون لائے گا ظاہر کرتا ہے کہ یہ کام تو آپ کے خدام بھی کرسکتے تھے اور خدام کی کرامت بھی آپ ہی کا معجزہ تھا یعنی آپ نے دنیاوی شوکت کے ساتھ اظہار معجزہ کو ملانا چاہا کہ محض بادشاہ نہ سمجھیں یہ بھی جان لیں کہ اللہ کے نبی بھی ہیں نبی کا معجزہ ایسا فعل ہوتا ہے جو عقلی دلائل کو عاجز کردیتا ہے صادر نبی کے ہاتھ پر ہوتا ہے مگر فعل اللہ کا ہوتا ہے ایسے ہی نبی کے ماننے والوں سے جب کوئی ایسی بات صادر ہوتی ہے جو عقل کی رسائی سے باہر ہو تو کرامت کہلاتی ہے اور ولی کی کرامت بھی نبی کا معجزہ ہوتی ہے کہ اس کی اطاعت و نسبت سے حاصل ہوتی ہے۔ تیسری قسم تصرف کی ہے یہ بھی کرامت کی ایک قسم ہے کہ کرامت میں ارادے کو دخل نہیں ہوتا مگر جہاں ارادہ کیا جائے اور وہ کام ہوجائے اسے تصرف کہا جاتا ہے جو یہاں ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے حکم پر ایک بہت بڑے جن نے عرض کیا کہ آپ کا دربار ختم ہونے سے پہلے میں وہ تخت خدمت عالیہ میں حاضر کرسکتا ہوں اگرچہ بہت مشکل کام اور بھاری تخت محل کے اندر اور پہروں میں ہے مگر اللہ نے مجھے اتنی قوت دی ہے کہ لاسکوں اور کروڑوں کے قیمتی جواہرات سے مرصع ہے مگر پوری امانتداری سے لا حاضر کروں گا تب ایک ایسے شخص نے جس کے پاس کتاب اللہ کا علم تھا عرض کیا حضور بندہ پلک جھپکنے میں آپ کی خدمت میں حاضر کرسکتا ہے۔ کتاب اللہ کا علم : کتاب اللہ کا علم کیا ہے حق یہ ہے کہ کتاب میں محض الفاظ و معانی ہی نہیں ہوتے بلکہ ہر حرف اور ہر لفظ میں انوارات و تجلیات اور کیفیات ہوتی ہیں جو سب نبی کے دل پر وارد ہوتی ہیں اور اس کی حقیقت متبعین کو سینہ بسینہ نصیب ہوتی ہیں انہی کیفیات کے حامل ولی اللہ کہلاتے ہیں اور ایسے علما ہی انبیاء کے وارث ہوتے ہیں ورنہ محض الفاظ و معانی سے کھیلنے والے عموماً کتاب اللہ کو بھی صرف ذریعہ معاش ہی بنا پاتے ہیں اور بس۔ ان کیفیات کے حامل لوگوں میں تصرف کی قوت بھی حسب استعداد ہوتی ہے جس کا اظہار مختلف مواقع پہ ہوتا رہتا ہے۔ قلبی طور پر اس کی تحقیق پر جو حضرت (رح) کے حکم پر کی گئی تھی یہ سمجھ آئی تھی کہ اس شخص نے جو آپ کا صحابی اور درباری تھا اور مفسرین نے جس کا نام آصف بن برخیا لکھا ہے اپنے قلب کے انوارات تخت پر القا فرما کر ایک بار اللہ کہا تو تخت سامنے پڑا تھا۔ جب آپ نے سامنے پڑا دیکھا تو فرمایا یہ میرے پروردگار کا بہت بڑا احسان ہے کہ مجھے ایسے کامل خادم عطا فرمائے اور اس قدر شوکت بخشی یہ بھی ایک امتحان کا انداز ہے کہ اس عظمت میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا کہیں اس سے محروم تو نہیں ہورہا اور جو کوئی اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اپنے فائدے کو کرتا ہے اور اگر کوئی ناشکری بھی کرے تو اللہ کو اس کی پرواہ نہیں وہ اپنا نقصان کرتا ہے اللہ ان سب باتوں سے بالاتر اور بےنیاز ہے اور بہت کریم ہے کہ بندوں کو کتنے عظیم کمالات عطا فرماتا ہے۔ پھر آپ نے حکم دیا کہ تخت میں کچھ تبدیلیاں کردی جائیں جیسے جواہرات کی جگہ وغیرہ بدل جائے اور پتہ نہ چلے کہ کچھ تبدیل کیا گیا ہے کہ دیکھیں یہ خاتون کتنی ذہین ہے۔ چناچہ جب ملکہ حاضر ہوئی تو پوچھا گیا کہ کیا آپ کا تخت بھی ایسا ہی ہے تو کہنے لگی لگتا تو یہ ہے کہ یہ وہی تخت ہے اور اتنے بڑے معجزے کی ہمیں اب ضرورت تو نہ تھی ہم جان چکے تھے کہ آپ اللہ کے نبی ہیں اور ہم اطاعت گزار بن کر حاضر ہوئے ہیں۔ رسومات کا اثر بد : ارشاد ہوتا ہے کہ دانشمند خاتون تھی مگر پہلے ایمان اس لیے نہ لاسکی کہ قوم کی رسومات میں گرفتار ہو کر حق سے دور تھی چونکہ قوم کافر تھی اس نے بھی ان کی رسومات میں آنکھ کھولی تو اس کا اثر بد یہ تھا کہ ذہین ہونے کے باوجود اندھیرے میں تھی شمس نبوت کو دیکھا تو آنکھیں روشن ہوگئیں۔ چنانچہ محل کے اندر چلنے کو کہا گیا تو سارا محل شیشوں سے جڑا ہوا تھا راہ میں حوض تھے جن میں مچھلیاں بھی تھیں مگر اوپر شیشے کا فرش تھا جو نظر نہ آتا تھا جب گزرنے لگی تو پنڈلیوں سے کپڑے کو اوپر کھینچا تو بتایا گیا اس حوض پر شیشہ جڑا ہوا ہے آپ آرام سے گزر جائیں تو کہنے لگی ایک محل کے اندر کا راستہ بھولنے والے بھلا اکیلے راہ ہدایت کو کیسے پاسکتے ہیں ہم جو خود کو حق پر سمجھتے رہے تو اپنے آپ پر ظلم کیا اور اے پروردگار اب فرما دے کہ میں سلیمان (علیہ السلام) کے ساتھ تیری توحید پہ ایمان لاتی ہوں تو ہی سب جہانوں کا پالنے والا ہے۔ یہاں قرآن حکیم بات ختم کردیتا ہے مختلف روایات ملتی ہیں کہ حضرت نے اس سے شادی کی اور حکومت پہ بحال رکھا محل بنوا کر دئیے اور مہینے میں چند روز وہاں گزارتے تھے مگر ان روایات کی صحت ایسی نہیں کہ صحیح کہا جاسکے اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے اور اگر ایسا ہو بھی تو عورت کی حکمرانی پہ دلیل نہیں بن سکتی کہ پھر بادشاہ نہ تھی بادشاہ کا نمائندہ تھی نیز ہمیں حکم شریعت محمدی علی صاحبہا الصلوۃ والسلام سے حاصل کرنا ہے۔ اور بلقیس پر اللہ کا یہ احسان ہوا کہ پوری قوم کے ایمان لانے کا سبب بن گئی۔
Top