Anwar-ul-Bayan - An-Naml : 32
قَالَتْ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِیْ فِیْۤ اَمْرِیْ١ۚ مَا كُنْتُ قَاطِعَةً اَمْرًا حَتّٰى تَشْهَدُوْنِ
قَالَتْ : وہ بولی يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا : اے سردارو ! اَفْتُوْنِيْ : مجھے رائے دو فِيْٓ اَمْرِيْ : میرے معاملے میں مَا كُنْتُ : میں نہیں ہوں قَاطِعَةً : فیصلہ کرنے والی اَمْرًا : کسی معاملہ میں حَتّٰى : جب تک تَشْهَدُوْنِ : تم موجود ہو
(خط سنا کر) کہنے لگی کہ اہل دربار میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو جب تک تم حاضر نہ ہو (اور اصلاح نہ دو ) میں کسی کام کو فیصل کرنے والی نہیں
(27:32) افتونی : افتوا امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے ن وقایہ ی ضمیر واحد متکلم ۔ افتاء (افعال) مصدر۔ فتی مادہ۔ کسی مشکل مسئلہ کے جواب کو فیتا و فتوی کہا جاتا ہے۔ استفتاء (استفعال) کے معنی فتویٰ طلب کرنے اور افتاء کے معنی فتویٰ دینے کے ہیں۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے یستفتونک فی النساء قل اللہ یفتیکم فیہم (4:127) اے پیغمبر ! لوگ تم سے (یتیم) عورتوں کے بارے میں فتویٰ طلب کرتے ہیں کہہ دو کہ خدا تم کو ان کے معاملہ میں فتوی دیتا ہے۔ افتونی فی امری میرے اس معاملہ میں مجھے مشورہ دو ۔ قاطعۃ۔ اسم فاعل واحد مؤنث۔ ما کنت کی خبر ہے قطع کے لفظی معنی کاٹنے کے ہیں۔ خواہ محسوس طور ہو یا عقلی طور پر ہو اول کی مثال والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما جزاء بما کسبا (5:38) چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ ڈالو ان کی کرتوتوں کے عوض۔ دوسرے کی مثال آیت ہذا ہے۔ ہر رائے اور امر کو چھوڑ کر ایک رائے مقرر کرلینا اور ہر عمل کو چھوڑ کر صرف ایک ہی آخری حکم نافذ کرنا یہ قطع امر ہے۔ ما کنت قاطعۃ امرا میں کسی معاملہ کا آخری فیصلہ نہیں کرتی۔ حتی تشھدون۔ مضارع جمع مذکر حاضر جب تک تم شاہد نہ ہو۔ تم حاضر نہ ہو شھود حاضر ہونا۔ موجود ہونا۔ شھادۃ (گواہی دینا) مصدر۔ یہاں مطلب ہے کہ جب تک کہ تم شریک (مشورہ) نہ ہو۔
Top