Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Dure-Mansoor - An-Naml : 32
قَالَتْ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِیْ فِیْۤ اَمْرِیْ١ۚ مَا كُنْتُ قَاطِعَةً اَمْرًا حَتّٰى تَشْهَدُوْنِ
قَالَتْ
: وہ بولی
يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا
: اے سردارو !
اَفْتُوْنِيْ
: مجھے رائے دو
فِيْٓ اَمْرِيْ
: میرے معاملے میں
مَا كُنْتُ
: میں نہیں ہوں
قَاطِعَةً
: فیصلہ کرنے والی
اَمْرًا
: کسی معاملہ میں
حَتّٰى
: جب تک
تَشْهَدُوْنِ
: تم موجود ہو
کہنے لگی اے دربار والو ! تم میرے معاملہ میں مجھے مشورہ دو میں کسی بات کا قطعی فیصلہ نہیں کرتی جب تک کہ تم میرے پاس موجود نہ ہو
ارکان سلطنت سے مشورہ 1۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے آیت ” قالت یا ایہا الملؤا افتونی فی امری “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس نے اپنی مملکت کے سرداروں کو جمع کیا اور اس معاملہ میں ان سے مشورہ کیا ان کی رائے اور اس کی رائے اس بات پر جمع ہوگئی کہ وہ سلیمان (علیہ السلام) سے جنگ کریں گے وہ (لشکر کو لے کر) چلی جب وہ سلیمان (علیہ السلام) کے ملک کے قریب پہنچے تو کہنے لگی میں ان کی طرف تحفہ بھیجوں گی اگر اس نے اس کو قبول کرلیا تو وہ بادشاہ ہے اور میں اس سے لڑوں گی اور اگر اس نے اس کو رد کردیا تو میں اس کے تابع ہوجاؤں گی کیونکہ وہ نبی ہے۔ جب اس کے قاصد سلیمان کے قریب پہنچے تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اس کی خبر پہنچ گئی آپ نے جنات کو حکم دیا کہ ان کے لیے سونے اور چاندی کے ایک ہزار محل تعمیر کرو جب اس کے قاصدوں نے سونے کے محل دیکھے تو انہوں نے کہا ہمارے ان تحائف کو لے کر وہ کیا کریں گے۔ اور ان کے محلات سونے اور چاندی کے ہیں۔ جب قاصد تحائف کے ساتھ داخل ہوئے تو سلیمان نے فرمایا کیا تم مجھ کو مال کے ساتھ کا تحفہ دیتے ہو پھر سلیمان نے فرمایا آیت ” ایکم یاتینی بعرشہا قبل ان یاتونی مسلمین “ سلیمان کے کاتب نے کہا اپنی نظر کو اوپر اٹھائیے۔ انہوں نے اپنی نظر کو اوپر اٹھایا جب اس کی طرف اپنی نظر کو لوٹایا اچانک اس کا تخت (حاضر) تھا آیت ” قال نکرو لہا عرشہا “ (یعنی اس کے لیے اس کے عرش کو بدل دو ) تو اس کے تخت سے نگینے اور دوسری چیزیں جو اس پر لگی ہوئی تھیں وہ الگ کردی گئیں۔ اس سے کہا گیا آیت ” اہکذا عرشک “ (یعنی کیا تیرا عرش اسی طرح ہے) اس نے کہا آیت ” کانہ ہو “ (گویا وہ اسی طرح ہے) حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جنات کو حکم فرمایا تو انہوں نے بلقیس کے لیے ایک شیشے کا بےجوڑ محل بنایا اور اس میں مچھلی کی شکلیں بنادیں اس سے کہا گیا محل میں داخل ہوجا تو اس نے پنڈلیوں کو کھولا اچانک اس پر بال تھے۔ اس واقعہ پر اس نے چونے کی صنعت کا حکم دیا۔ بلقیس کو بتایا گیا۔ کہ آیت ” انہ صرح ممرد من قواریر “ (یعنی وہ ایک محل ہے جو شیشے سے جڑا ہوا ہے کہنے لگی اے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں سلیمان ﷺ کے ساتھ اس اللہ کے لیے ایمان لے آئی جو رب ہے جہاں (والوں کا) (قرآن مجید میں اسی کو فرمایا) آیت ” قالت رب انی ظلمت نفسی واسلمت مع سلیمان للہ رب العلمین “۔ 2۔ ابن ابی حاتم نے زہیر بن محمد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” افتونی فی امری “ یعنی تم مشورہ دو اپنی رائے پر آیت ” ماکنت قاطعۃ امرا حتی تشہدون “ یعنی میں ارادہ کرتی ہوں کہ تم مجھے مشورہ دو ۔ 3۔ ابن ابی شیبہ وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ کہ ملکہ سبا کے ماتحت بارہ ہزار سردار تھے۔ اور ہر سردار کے ماتحت ایک لاکھ لڑنے والے تھے اور یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے کہا تھا آیت ” نحن اولوا قوۃ واولو بأس شدید “ 4۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو ذکر کیا گیا کہ اس کے مشورہ والے تین سو بارہ آدمی تھے ہر آدمی ان میں سے دس ہزار افراد کا قائد تھا۔ 5۔ ابن ابی شیبہ وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” ان الملوک اذا دخلوا قریۃ افسدوھا “ سے مراد ہے کہ جب وہ اس میں زبردستی داخل ہوتے ہیں تو ان کو برباد کردیتے ہیں۔ 5۔ ابن ابی حاتم نے زہیر بن محمد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” وجعلوا اعزۃ اہلہا اذلۃ “ سے مراد ہے کہ وہ تلوار کے ذریعہ عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔ فاتح قوم کی تباہ کاری 7۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بلقیس نے کہا آیت ” ان الملوک اذا دخلوا قریۃ افسدوہا وجعلوا اعزۃ اہلہا اذلۃ “ (یعنی جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو برباد کردیتے ہیں اور اس کے عزت والے لوگوں کو ذلیل کردیتے ہیں تو رب تبارک وتعالیٰ نے بھی فرمایا آیت ” وکذلک یفعلون “ (یعنی اس طرح وہ کرتے ہیں) 8:۔۔ ابن ابی شیبہ نے المصنف میں وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” وانی مرسلۃ الیہم بہدیۃ “ کہ میں بھیجوں گی سونے کی ایک اینٹ تحفہ کے طور پر جب قاصد آئے تو شہر کی دیواریں سونے کی بنی ہوئی تھیں انہی سے سلیمان (علیہ السلام) نے کہا تھا آیت ” اتمدونن بمال “ (یعنی تم میری مدد کرتے ہو مال کے ساتھ “ 9۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ کہنے لگی میں ان کی طرف ایک ہدیہ بھیجنے والی ہوں اگر وہ اہل دنیا سے ہوئے تو میں اس کے ذریعہ ان سے اپنے ملک کا دفاع کروں گی۔ تو ملکہبلقیس نے ان کی طرف سونے کی ایک اینٹ بھیجی ریشم اور دیباج میں لپیٹ کر سلیمان (علیہ السلام) کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے سونے کی اینٹیں بنانے کا حکم فرمایا جو بنا دی گئیں پھر ان کو جانوروں کے پاؤں کے نیچے ان کے راستوں میں ڈال دیا گیا۔ جانور ان پر پیشاب اور لید کرتے تھے جب اس کے قاصد آئے اور اینٹوں کو جانوروں کے پاؤں کے نیچے دیکھا تو جو وہ تحفہ لائے تھے وہ اپنے ہاں حقیر جاننے لگے۔ 10۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ثابت بنانی (رح) سے روایت کیا کہ ملکہ بلقیس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ریشم کے غلافوں میں سونے کی اینٹیں ہدیہ کے طور پر بھیجی تھیں۔ جب یہ بات سلیمان (علیہ السلام) کو پہنچی تو آپ نے جنات کو حکم فرمایا تو انہوں نے مٹی کی اینٹوں پر سونے کا پانی چڑھایادیا پھر حکم فرمایا کہ ان کو راستے میں ڈال دو جب وہ قاصد آئے اور انہوں نے اینٹوں کو راستوں اور ہر جگہ پر پڑا ہوادیکھا تو کہنے لگے ہم وہ چیز لائے ہیں جسے ہم ہر جگہ پڑا ہوا دیکھ رہے ہیں جس طرف نظر جاتی ہے تو وہ تھفہ جو اپنے ساتھ ہائے تھے اس کو حقیر جاننے لگے۔ 11۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” وانی مرسلۃ الیہم بہدیۃ “ سے مراد ہے کہ ایسی لونڈیا بھیجیں جن کے لباس لڑکوں جیسے تھے اور ایسے غلام بھیجے جن کے لباس لونڈیوں جیسے تھے۔ 12۔ ابن المنذر وابن ابی حاتم نے سعیدبن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ اسی غلام اور باندیاں بھیجی تھیں۔ سب کے سروں کو مونڈدیا گیا اور کہا اگر وہ لونڈیوں میں سے گلاموں کو پہچان لیں تو وہ نبی ہیں اگر وہ لونڈیوں میں سے غلاموں کو پہچان لیں تو وہ نبی ہیں اگر وہ لونڈیوں میں سے غلاموں کو نہ پہچان سکے تو وہ نبی نہیں ہیں۔ سلیمان نے وضو کا پانی منگوایا اور کہا وضو کرلو تو غلام اپنی کہنیوں سے اپنی ہتھیلیوں تک دھونے لگے اور لونڈیوں نے اپنی ہتھیلیوں سے اپنی کہنیوں تک دھونا شروع کیا (یہ دیکھ کر) فرمایا یہ لونڈیاں ہیں اور یہ غلام ہیں۔ 13۔ عبد بن حمید وابن المنذر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ سلیمان (علیہ السلام) کے لیے بلقیس کا ہدیہ دو سو گھوڑے تھے ہر گھوڑے پر ایک غلام اور باندی تھی لڑکے اور لڑکیاں ایک ہی شکل میں تھے لڑکیوں کو لڑکوں سے نہیں پہچانا جاتا تھا نہ لڑکوں کو لڑکیوں سے ہر گھوڑے پر ایک رنگ تھا جو دوسرے پر نہیں تھا ان کا اول ہدیہ سلیمان کے پاس تھا اور اور اس کا آخر بلقیس کے پاس تھا (یعنی ہدیوں کی اتنی لمبی قطار تھی) ۔ 14۔ ابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ ہدیہ کدمت کے لیے غلام باندیاں اور سونے کی اینٹیں تھیں۔ 15۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ہدیہ جواہرات تھے۔ 16۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ جب تحفہ سلیمان (علیہ السلام) کے پاس پہنچا لونڈیوں اور غلامون کی صورت میں تو آپ نے وضو کے ذریعہ ان کا امتحان لیا تو غلاموں نے کلائیوں کے ظاہری حصے کو دھویا اس کے اندرونی حصے سے پہلے اور لونڈیوں نے کلائیوں کے اندرونی حصے کو دھویا اس کے ظاہری حصے سے پہلے۔ بلقیس کی طرف سے سلیمان ﷺ کا امتحان 17۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سیر وایت کیا کہ بلقیس نے کہا تھا اگر وہ ہدیہ کو قبول کرلیں تو وہ بادشاہ ہیں تو تم اس سے لڑو اپنے ملک کا دفاع کرنے کے لیے اور اگر وہ ہدیہ کو قبول نہ کریں تو وہ نبی ہیں تمہارے لیے ان سے لڑنے کی کوئی طاقت نہیں تو اس نے ان کی طرف سے ہدیہ بھیجا غلام لونڈیوں کی شکل و صورت اور زیورات میں تھے۔ لونڈیاں غلاموں کی شکل اور لباس میں تھیں۔ اور اس نے مزید سونے کی اینٹیں اور مختلف قسم کے سوراخ نکالے گئے نگینے بھی بھیجے اور ان کی طرف ایک پیالہ بھی بھیجا اور یہ سب کچھ اس لیے بھیجا (تاکہ) اس کی حقیقت کو جان لے جب سلیمان (علیہ السلام) کے پاس تحفے پہنچے تو آپ نے جنات کو حکم دیا تو انہوں نے شہر کی اینٹوں اور دیواروں کو سونے اور چاندی کا پانی چرھادیا جب بلقیس کے قاصدوں نے یہ دیکھا تو کہنے لگے ہم کہاں لے جاتے ہیں اینٹوں کو ان لوگوں کے علاقوں میں جبکہ ان کی دیواریں سونے اور چاندی کی ہی انہوں نے سونے کی اینٹوں کو اپنے پاس روک دیا اور باقی ماندہ چیزیں سلیمان کے پاس لے کر آگئے اور ان قاصدوں نے کہا ہمارے لیے الگ کردہ غلاموں کو لونڈیوں سے سلیمان (علیہ السلام) نے ان کو وضو کرنے کا حکم دیا اور (اس طرح) غلاموں اور لونڈیوں سے الگ کردیا لونڈیوں نے اپنے ہاتھوں پر پانی انڈیلا اور غلاموں نے چلو سے پانی لیا اور قاصدوں نے کہا اس نگینوں میں ہمارے لیے دھاگہ داخل کردیں انہوں نے باریک سانپ کو بلوایا اس کے ساتھ دھاگے کو باندھ کر ان میں داخل کردیا وہ سانپ ان نگینوں میں گھومتا رہا یہاں تک کہ وہ دوسری جانب سے نکل آیا اور قاصدوں نے کہا ہمارے لیے اس پیا لے کو ایسے پانی سے بھر دیجیے جو زمین اور آسمان میں سے نہ ہو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ایک گھوڑے کو لانے کا حکم دیا اسے دوڑایا گیا یہاں تک کہ وہ ٹھہر گیا اس کے پسینے کو پونچھ کر پیالے میں ڈال دیا یہاں تک کہ وہ بھر گیا جب قاصد واپس ہوئے تو انہوں نے ملکہ سبا کو بتایا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے تحائف واپس کردیے ہیں اس نے ایک وفد ترتیب دیا اور اس نے اپنے تخت کے بارے میں حکم دیا تو اسے سات کمروں کے اندر رکھا گیا اور سب کے تالے لگا دئیے اور اس کی چابیاں خود لے لیں جب سلیمان (علیہ السلام) کو یہ بات پہنچی جو اس نے اپنے تخت کے ساتھ انتظام کیا تھا تو فرمایا آیت ” قال یا ایہا المؤا ایکم یاتینی بعرشہا قبل ان یاتونی مسلمین “ (یعنی اے سرداروں ! کون تم میں سے اس کے تخت کو لائے گا پہلے اس سے کہ وہ میرے پاس مسلمان ہو کر آئے۔ 18۔ ابن ابی حاتم نے زہیر بن محمد رحمۃ اللہ سے روایت کیا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے ہدہد سے فرمایا آیت ’ ارجع الیہم فلناتینہم بجنود لا قبل لہم بہا “ یعنی انسانوں میں میں سے اور جنوں میں سے (ایسا لشکر لائیں گے کہ وہ لوگ ان سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھیں گے) 19۔ ابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابو صالح (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” لاقبل لہم بہا “ یعنی ان کے لیے ان سے لڑنے کی طاقت نہ ہوگی۔ بلقیس کا تکت حاضر کرنا 20۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ سلیمان (علیہ السلام) کو یہ بات پہنچی کہ وہ اس کے پاس آرہی ہے۔ اور سلیمان (علیہ السلام) کو اس کے تکت کے بارے میں بتلایا گیا تھا جس نے آپ کو تعجب میں ڈال دیا اور اس کا تخت سونے کا تھا اس کے پائے موتیوں اور جواہرات سے تھے جو دیباج اور ریشم سے چھپایا گیا تھا اور اس پر سات دروازے بنے ہوئے تھے اور سلیمان (علیہ السلام) نے ناپسند کیا کہ وہ اس کو لے لیں اس کے اسلام لانے کے بعد اور اللہ کبھی سلیمان (علیہ السلام) نے جان لیا تھا کہ قوم جب مسلمان ہوجائے تو ان کے مال ان کے خونوں کے ساتھ حرام ہوجاتے ہیں تو آپ نے پسند کیا اس بات کو کہ یہ تخت اسلام سے پہلے لایا جاء یچنانچہ آپ نے فرمایا آیت ” ایکم یاتینی بعرشہا قبل ان یاتونی مسلمین “ یعنی کون تم میں سے اس کے تکت کو لائے گا پہلے سے کہ وہ مسلمان ہو کر میرے پاس آجائے۔ 21۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر ووابن ابی حاتم مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ایکم یاتینی بعرشہا “ سے مراد ہے کہ وہ ایک پلنگ آراستہ ومزین تخت میں۔ 22۔ ابن المنذر نے علی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” قبل ن یاتونی مسلمین “ میں مسلمین سے مراد ہے اطاعت کرنے والے۔ 23۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” قال عفریت من الجن “ سے مراد ہے سرکش جن آیت ” قبل ان تقوم من مقامک “ یعنی اپنی بیٹھنے کی جگہ سے (اٹھنے سے پہلے) 24۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابو صالح (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” قال عفریت من الجن “ میں عفریت سے مراد ہے عظیم گویا کہ پہاڑ تھا۔ 25۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے شعیب جبائی (رح) سے روایت کیا کہ عفریت کا نام کوزن تھا۔ 26۔ ابن ابی حاتم نے یزید بن رومان (رح) سے روایت کیا کہ عفریت کا نام کو زی تھا۔ 27۔ ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” قال عفریت من الجن “ سے مراد صخرجنی ہے آیت ” وانی علیہ لقوی امین “ (یعنی اس تخت کے) اٹھانے کی طاقت رکھتا ہے آیت ” امین “ یعنی جو اس کے پاس بطور امانت کے رکھا جائے اس میں وہ امین ہے۔ 28۔ ابن ابی شیبہ وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” قبل ان تقوم من مقامک “ سے مراد ہے اپنی مجلس سے اٹھنے سے پہلے۔ 29۔ ابن ابی حاتم نے زہیر بن محمد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” قبل ان تقوم من مقامک “ سے مراد ہے اپنی اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے۔ جس میں آپ فیصلہ کے لیے بیٹھتے تھے اور سلیمان (علیہ السلام) جب فیصلہ کرنے کے لیے بیٹھتے تھے پھر کھڑے نہ ہوتے تھے سورج کے زوال سے پہلے۔ 30۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” وانی علیہ لقوی امین “ سے مراد ہے اس کے جوہر پر۔ 31۔ ابن ابی شیبہ وابن المنذر نے مجاہدرحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ آیت ” انا اٰتیک بہ قبل ان تقوم من مقامک “ (یعنی عفریت نے کہا میں اس کو لے آؤں گا آپ کی مجلس میں کھڑے ہونے سے بھی پہلے) تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا میں اس سے بھی جلدی کا ارادہ کرتا ہوں آیت ” قال الذی عندہ علم من الکتاب انا اٰتیک بہ قبل ان یرتد الیک طرفک “ فرمایا کہ یہ ایک صاحب علم نے کہا کہ میں آنکھ جھپکنے میں لے آؤں گا تو تخت زمین سرنگ میں سے نکل آیا۔ 32۔ عبد بن حمید نے حماد بن سلمہ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابی بن کعب کے مصحف میں یوں پڑھا آیت “ وانی علیہ لقوی امین “ یعنی میں ارادہ رکھتا ہوں کہ میں اس سے بھی جلدی کروں گا۔ 33۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” قال الذی عندہ علم من الکتاب “ سے آصف بن برخیا مراد ہے جو سلیمان (علیہ السلام) کا کاتب تھا۔ 34:۔۔ ابن ابی حاتم نے یزید بن رومان (رح) سے روایت کیا کہ وہ آصف بن برخیا تھا جو صدیق تھا اور اسم اعظم کو جانتا تھا۔ 35۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ اس کا نام اسطوم تھا 36۔ ابن ابی حاتم نے ابن لہیعہ (رح) سے روایت کیا کہ وہ خضر (علیہ السلام) تھے۔ 37۔ ابن ابی حاتم نے زہیر بن محمد (رح) سے روایت کیا کہ وہ انسانوں میں سے ایک آدمی تھا جس کو ذوالنور کہا جاتا تھا۔ 38۔ ابن عساکر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ وہ آصف بن برخیا بن شعیا بن منکیل تھا اور اس کی ماں کا نام بباطورا تھا جو بنی اسرائیل سے تھی۔ 39۔ ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” قال الذی عندہ علم من الکتب “ کہ اس کا نام تملیخا تھا۔ 40۔ ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” قال الذی عندہ علم من الکتب “ سے مراد ہے اسم اعظم ہے کہ جب اس کے واسطہ سے دعا کی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے اور وہ ہے یا ذالجلال والاکرم۔ 41۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” قال الذی عندہ علم من الکتب “ سے مراد ہے آیک آدمی بنی اسرائیل میں سے تھا جو اسم اعظم جانتا تھا کہ جس کے ذریعہ دعا کی جائے تو قبول کی جائے۔ 42۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جرری وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” قبل ان یرتد الیک طرفک “ ، سے مراد ہے کہ لگا تار دیکھنا یہاں تک کہ نظر تیری طرف لوٹ آئے ذلیل ہو کر۔ 43۔ ابو عبید وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ابن مسعود ؓ کی قراءت میں ہے آیت ” قال الذی عندہ علم من الکتب انا اتیک بہ قبل ان یرتد الیک طرفک “۔ پھر کہا کہ عالم نے گفتگو کی تو وہ تخت زمین کے نیچے ایک سرنگ میں داخل ہوگیا یہاں تک کہ وہ ان کی طرف باہر نکال دیا۔ 44۔ ابن ابی شیبہ وابن المنذر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” قبل ان یرتد الیک طرفک “ سے مراد ہے کہ آصف نے سلیمان (علیہ السلام) سے کہا آپ آسمان کی طرف دیکھیے آپ نے آنکھ نہ جھپکی یہاں تک کہ وہ اس تخت کو لے آیا اور اس کو ان کے سامنے رکھ دیا۔ 45۔ عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس (رح) سے اسی طرح روایت کیا۔ 46۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ اس آدمی کی یہ دعا تھی جس کے پاس کتاب کا علم تھا اے ہمارے معبود اور ہر چیز کے معبود جو ایک ہی معبود ہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اس کے تخت کو میرے پاس لے آ کہا کہ اس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے اس تخت کی مثال رکھ دی۔ ملکہ سباء کا تخت دربار سلیمانی میں 47۔ ابن ابی شیبہ وابن المنذر وابن عساکر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ملکہ سباء کا تخت زمین اور آسمان کے درمیان نہیں چلا لیکن اس کے ساتھ زمین پھاڑ دی گئی اور وہ زمین کے نیچے چل پڑا یہاں تک کہ سلیمان کے سامنے ظاہر ہوگیا۔ 48۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر نے ابن باسط (رح) سے روایت کیا کہ اس نے اسم اعظم کے وسیلہ سے دعا مانگی تو زمین میں ایک سرنگ بن گئی اور وہ تخت اس سرنگ میں داخل ہو یا یہاں تک کہ سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے چشمہ کی طرح ابل پڑا۔ 49۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید ررحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ اس نے اللہ کے ناموں میں سے ایک نام کے ساتھ دعا کی تو بلقیس کا تکت اس کی آنکھوں کے سامنے اوپر کو اٹھ گیا اور وہ اس نام کو نہیں جانتے تھے اس کے نام کو سلیمان پر پوشیدہ رکھا گیا اور جو آپ کو عطا کیا گیا وہ اس سے بہت بڑا تھا۔ 50۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” قال الذی عندہ علم من الکتب انا اتیک بہ قبل ان یرتد الیک طرفک “ سے مراد ہے کہ بنی اسرائیل میں سے ایک آدمی تھا جو اسم اعظم کو جانتا تھا کہ جس کے ذریعہ دعا کی جائے تو اللہ تعالیٰ قبول فرماتے ہیں اور جب اس کے ذریعہ سوال کیا جائے تو عطا کیا جاتا ہے او ارتداد طرف کا مطلب ہے کہ آدمی انپی نظر سے وہاں تک دیکھے جہاں تک اس کی نظر جاسکتی ہے پھر وہ اپنی نظر کو اٹھائے اس نے دعا کی جب سلیمان (علیہ السلام) نے اس تخت کو اپنے سامنے پڑا ہو ادیکھا تو گھبرائے اور فرمایا کیا میرے علاوہ ایسا شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں مجھ سے زیادہ قدر ومنزلت والا ہے۔ 51۔ ابن جریر وابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ آتی ” ہذا من فضل ربی، لیبلونیء اشکر “ جب تخت کو لایا گیا اس وقت فرمایا (یہ میرے رب کے فضل سے ہے کہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں آیت ‘’ ام اکفر “ (یا نشکری کرتا ہوں) جب میں نے دیکھا کہ جو دنیا میں مجھ سے رتبہ میں کم ہے اور علم میں بڑھ کر ہے (اس پر اللہ تعالیٰ کی ناشکری کروں) 52۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” قال نکروا لہا عرشہا “ یعنی اس میں زیادتی کرو یا کمی کرو آیت ” ننظر اتہتدی “ یعنی ہم دیکھیں گے اس کی عقل تو اس عورت کو ثابت عقل والا پایا۔ 53۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” قال نکروا لہ اعرشہا “ سے مراد ہے کہ اس کے لیے اس کے تخت کو بدل دو کہ اس کے نیچے والے حصہ کو اوپر والا حصہ بنادو اور اس کا اگلا حصہ پچھلا والا حصہ بنادو۔ اور اس میں کچھ اضافہ اور کمی کردو جب ملکہ بلقیس پہنچی۔ آتی ” قیل اہکذا عرشک “ یعنی اس سے کہا گیا کہ تیرا تخت اسی طرح ہے) کہنے لگی آیت ” کانہ ہو “ گویا کہ وہ وہی ہے جبکہ بلقیس نے اس موجود تخت کو اس تخت سے تشبیہ دی جو وہ پیچھے چھوڑ آئی تھی اور اب اسے اپنے سامنے پایا۔ 54۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ جب وہ داخل ہوئی جبکہ اس کے تکت کو بدل دیا گیا تھا اس تخت کے زیورات اور فرش کو دوسری جگہ رکھ دیا گیا تھا تاکہ وہ تخت اس پر خلط ملط ہوجائے کہا گیا آیت ” اہکذا عرشک “ کیا تیر اتخت اس طرح سے ہے۔ وہ ہاں کہنے سے ڈری لوگ اسے کہتے کہ اس کے زیورات اور پردے تو ایسے نہیں تھے وہ یہ کہنے سے ڈری کہ یہ وہ نہیں ہے۔ اس سے کہا گیا بلکہ وہ وہی ہے لیکن ہم نے اس کو تبدیل کردیا تو وہ کہنے لگی گویا کہ وہ وہی ہے۔ 55۔ ابن ابی حاتم نے زہیر بن محمد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” واوتینا العلم من قبلہا “ سلیمان (علیہ السلام) کہا کرتے تھے کہ ہم کو اللہ کی معرفت اور اس کی توحید عطا کی گئی۔ 56۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” واوتینا العلم من قبلہا “ یہ سلیمان (علیہ السلام) کہا کرتے تھے آیت ” وصدھا ماکانت تعبد من دون اللہ “ سے مراد ہے اس (بلقیس) کو حق کی طرف ہدایت پانے سے اللہ کی قضا نے روکے رکھا بتوں نے نہیں آیت ” قیل لہا ادخلی الصرح “ سے مراد پانی کا ایک تالاب تھا جس پر سلیمان نے شیشے کا فرش لگوایا تھا اور بلقیس کے جسم پر بال تھے اور اس کے قدم گدھوں کے کھر کی طرح سے تھے اور اس کی ماں جنی تھی۔ 57۔ ابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابو صالح (رح) سے روایت کیا کہ وہ صرح شیشے کا تھا اور اس میں مچھلی کی تصویریں تھی جب ملکہ بلقیس نے اس کو دیکھا اور اس سے کہا گیا کہ اس تالاب میں داخل ہوجاؤ تو اس نے اپنی پنڈلیوں کو کھولا اور گمان کیا کہ وہ پانی ہے ” المراد “ سے مراد ہے طویل۔ ملکہ سباء کی شکل وصورت 58۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ ملکہ بلقیس کی شکل و صورت کی تعریف کی گئی تھی تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس بات کو پسند کیا تھا کہ اس کی پنڈلیوں کی طرف دیکھیں اس سے کہا گیا آیت ” ادخلی الصرح “ اس میں داخل ہوجاؤ جب اس نے دیکھا تو اس نے گمان کیا کہ وہ پانی ہے تو اپنی پنڈلیوں کو کھول دیا۔ انہوں نے اس کی پنڈلیوں کی طرف دیکھا کہ ان دونوں پر بہت بال ہیں تو ملکہ بلقیس ان کی آنکھوں سے گرگئی اور اس کو ناپسند کیا جنوں نے ان سے کہا کہ ہم تیرے لیے ایک ایسی چیز تیار کرتے ہیں کہ جس سے یہ باتل دور ہوجائیں گے جنوں کچھ چوناتیار کیا اس کو بالوں پر بہایا تو بال دور ہوگئے اور سلیمان نے اس سے نکاح کرلیا۔ 59۔ ابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ بلقیس نے کہا آیت ” رب انی ظلمت نفسی “ یعنی میں نے گمان کیا کہ یہ پانی ہے۔ اور سلیمان (علیہ السلام) نے اس کے قتل کا ارادہ کیا ہے اور کہنے لگی اللہ کی قسم اس نے مجھے اس میں داخل ہونے کا حکم دے کر مجھے قتل کرنے کا ارادہ کیا ہے میں اس میں ضرور داخل ہوں گی جب ملکہ بلقیس نے دیکھا کہ وہ شیشہ ہے تو پہچان لیا کہ میں نے ظلم کیا جو میں نے سلیمان (علیہ السلام) کے بارے میں گمان کیا اس لیے اس کا قول ہے آیت ” ظلمت نفسی “ کہ میں نے اپنے اوپر ظلم کیا اور یہ ایک خفیہ تدبیر تھی سلیمان (علیہ السلام) کی طرف سے اس کے لیے جنات نے آپس میں گفتگو کی اور انہوں نے کہا کہ تم سلیمان (علیہ السلام) کی طرف سے کوئی خفیہ تدبیر پاؤ گے۔ انہوں نے اس عورت سے نکاح کرلیا تو جمع ہجائے وحی اور فطانت کی خطابت تو تم اس کو ہرگز دھوکہ نہ دے سکو گے۔ آپ کے سامنے کوئی بات کرو انہوں نے کہا آپ کے لیے ہم پر اخلاص لازم ہے کہ اس کے دونوں قدم گدھے کے کھروں جیسے ہیں اور یہ چیز اس وقت ظاہر ہوئی جب شیشہ کے تالاب کو اس پر مشتبہ کردیا گیا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کی عورتوں کی طرف پیغام بھیجا کہ جب وہ اپنی پنڈلیوں کو ننگا کریں تو اسے دیکھیں کہ اس کے قدم کیسے ہیں ؟ تو انہوں نے کیا دیکھا کہ اس کی پنڈلیاں لوگوں کی پنڈلیوں سے بہت زیادہ خوبصورت تھیں جو بالوں والی تھیں۔ اس کے قدم انسان والے قدم تھے بنی اسرائیل کی عورتوں نے سلیمان (علیہ السلام) کو خوشخبری دی حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے بالوں کو ناپسند کیا تو انہوں نے جنوں کو حکم دیا تو انہوں نے چونا بنایا اور یہ سب سے پہلے بال صفا پوڈر تھا۔ تخت سلیمانی پر سفر کا طریقہ 60۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سلیمان علیہ السلا جب سفر کا ارادہ فرماتے تھے تو اپنے تخت پر بیٹھتے ان کے دائیں اور بائیں کرسیاں رکھی جاتیں پھر آپ پہلے انسانوں کو پھ رجنوں کو بیٹھنے کا حکم فرماتے تھے تو اپنے تخت پر بیٹھتے ان کے دائیں اور بائیں کرسیاں رکھی جاتیں پھر آپ پہلے انسانوں کو پھ رجنوں کو بیٹھنے کا حکم فرماتے پھر جنوں کے بعد شیطانوں کو حکم فرماتے پھر پرندوں کو حکم فرماتے جو ان پر سایہ کرتے اور ہوا کو حکم دیتے تو وہ ان کو اٹھایتی اور اپنے تخت پر موجود ہوتے تو لوگ کرسیوں پر ہوتے پرندے سایہ کیے ہوئے تھے ہوا ان کو اڑا کرلے جاتی صبح ایک شہر اور رات دوسرے شہر میں ہوتی۔ اس میں بڑی نرمی ہوتیجہاں بھی لے جانے کا ارادہ فرماتے ہو ان کو لے جاتی نہ بہت تیز اور نہ بہت نرم ہوتی بلکہ اس کے درمیان درمیان ہوتی اور سلیمان (علیہ السلام) تمام پرندوں میں سے ایک پرندہ چن لیتے تھے اور اس پرندے کو پرندوں پر سردار مقرر کردیتے تھے جب کسی پرندے کے بارے میں سوال کرتے تو اس کے سردار سے پوچھتے۔ اس انداز میں سلیمان علیہ اسللام چل رہے تھے اچانک ایک جنگل پر اترے اور پوچھا یہاں سے پانی کتنی دور ہے ؟ انسانوں نے کہا ہم نہیں جانتے پھر شیاطین سے سوال فرمایا ہدہد کو میرے پاس لے آؤ مگر وہ نہ ملا تو سلیمان (علیہ السلام) غصہ ہوئے ان سے فرمایا آیت ” لاعذبنہ عذاباشدید او لاذبحنہ او لیاتینی بسلطن مبین۔ یعنی میرے اس سفر میں اپنے غائب ہونے کا واضح عذر بیان کرے (ورنہ میں اسے سخت عذاب دوں گا یا اسے ذبح کردوں گا۔ راوی نے کہا ہدہد بلقیس کے محل کے پاس سے گزری اس نے اس کے محل کے بیچے ایک باغ دیکھا اس کی سرسبزری کی طرف مائل ہوا جو اس میں اتر گیا اچانک اس باغ میں ایک او ہدہد تھا سلیمان کے ہدہد نے اس سے کہا کہ تو سلیمان (علیہ السلام) سے کیوں دور ہے اور تو یہاں کیا کر رہا ہے ؟ بلقیس کے ہدہد نے کہا سلیمان کون ہے ؟ اس نے کہا اللہ تعالیٰ نے ایک آدمی بھیجا ہے جس کو سلیمان کہا جاتا ہے وہ اللہ کا رسول ہے ان کے لیے جنات کو انسانوں کو ہوا کو اور پرندوں کو مسخر کردیا گیا۔ (یعنی اس کے تابع کردیا گیا ہے) بلقیس کے ہدہد نے اس سے کہا تو کیا کہتا ہے اس نے کہا میں تیرے لیے وہی کہتا ہوں جو تو سنتا ہے بلقیس کے ہدہد نے کہا یہ عجیب بات ہے اور اس سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس قوم کی اکثریت پر ایک عورت حکومت کرتی ہے آیت ” واوتیت من کل شیء ولہا عرش عظیم۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے شکر کا یہ طریقہ بنایا ہے کہ وہ سجدہ کرتے ہیں سورج کو اللہ کو چھوڑ کر راوی نے کہا کہ ہدہد کو سلیمان (علیہ السلام) یاد آئے وہ وہاں سے اڑا جب لشکر کے قریب پہنچا تو دوسرے پرندوں نے پکڑ لی اور اس سے کہا اللہ کے رسول نے تم کو دھمکی دی ہے اور اس کو بتایا جو کچھ آپ نے کہا تھا اور پرندے کے لیے سلیمان کا عذاب یہ تھا اس کے پروں کو اکھیڑ لیتے پھر اس کو دھوپ میں ڈال دیتے پھر وہ کبھی نہ اڑسکتا اور زمین کے کیڑوں اور جانوری کی گرفت میں رہتا یا پھر اس کو ذبح کردیتے اور کبھی اس کی نسل نہ رہتی ہدہد نے کہا اللہ کے نبی نے استثناء نہیں کیا ؟ دوسرے پرندوں نے کہا اس سے استثنا تو کیا ہے سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا تھا یا وہ میرے پاس کوئی واضح عذر لے آئے جب ہدہد سلیمان کے پاس آیا تو پوچھا مجھ سے غائب ہونے کی کیا وجہ ہے ہدہد نے کہا آیت ” فقال احطت بما لم تحط بہ وجئتک من سبا بنبا یقین، انی وجدت امرأۃ تملکہم واوتیت من کل شیء ولہا عرش عظیم “ فرمایا تو نے عذر پیش کردیا ہے۔ آتی ” سننظر اصدقت ام کنت من الکذبین، اذہب بکتبی ہذا فالقہ الیہم “ اور یہ خط لکھا بسم اللہ الرحمن الرحیم بلقیس کی طرف آیت ” الا تعلوا علی واتونی مسلمین “ جیسے ہدہد نے اس کی طرف خط ڈالا۔ اس کے دل میں یہ بات ہی ڈال دی گئی کہ یہ ایک معزز خط ہے اور یہ خط سلیمان (علیہ السلام) کی طرف سے ہے آیت ” الا تعلوا علی واتونی مسلمین “ یعنی میرے سامنے غرور نہ کروا اور اطاعت گزار ہو کر میرے پاس آؤ۔ آتی ” قالوا نحن اولو قوۃ “ (یعنی ہم قوت والے ہیں) بلقیس نے کہا آیت ” ان الملوک اذا دخلوا قریۃ افسدوہا “ بہدیۃ فنظرۃ بم یرجع “ (یعنی بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو خراب کردیتے ہیں اور میں ان کی طرف ہدیہ بھیجوں گی۔ جب سلیمان کے پاس ہدیہ آیا تو فرمایا آیت ” اتمدونن بمال ارجع الیہم “ یعنی کیا تم میری مدد کرتے ہو مال کے ساتھ ان کی طرف واپس لوٹ جاؤ جب اس کے قاصد بلقیس کی طرف واپس لوٹے تو وہ گھبراتے ہوئے نکلی۔ اس کے تھ ایک ہزار سردار تھے۔ اور ہر سردار کے ساتھ ایک لاکھ جنگجو سپاہی تھے راوی نے کہا کہ سلیمان (علیہ السلام) بڑی ہیبت والے آدمی تھے آپ کس بات کا آغاز نہیں کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اس کا ان سے سوال کیا جاتا ایک دن وہ نکلے اور اپنے تخت پر بیٹھے کہ گرد و غبار کو دیکھا جو اس سے قریب تھا پوچھا یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا یارسول اللہ یہ ملکہ بلقیس ہے آپ نے پوچھا کیا وہ اس جگہ ہمارے ہاں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے۔ ابن عباس نے فرمایا کہ جب سلیمان (علیہ السلام) نے غبار دیکھا تھا تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور ملکہ سبا اور اس کے ساتھیوں کے درمیان فاصلہ تھا جتنا فاصلہ کوفہ اور حیرہ کے درمیان ہے۔ سلیمان (علیہ السلام) اپنے لشکر کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا تم میں سے کون اس کا تخت لے آئے ان کے مسلمان ہو کر آنے سے پہلے کہا کہ سلیمان (علیہ السلام) اور اس کے تکت کے درمیان جب غبار کی طرف دیکھا تھا دو ماہ کی مسافت تھی۔ آیت ” قال عفریت من الجن انا اتیک بہ قبل ان تقوم من مقامک “ یعنی جنات میں سے عفریت نے کہا کہ میں آپ کے اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے لے آؤں گا راوی نے کہا کہ سلیمان (علیہ السلام) کی ایک مجلس تھی کہ اس میں لوگ بیٹھے تھے جیسے امراء بیٹھتے تھے۔ پھر اس سے اٹھتے تھے سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا میں اس سے جلدی کا ارادہ کرتا ہوں اس آدمی نے کہا جس کے پاس کتاب کا علم تھا میں اپنے رب کی کتاب میں دیکھتا ہوں پھر میں تو آپ کے پاس لے آؤں گا۔ آپ کا پلک جھپکنے سے پہلے سلیمان (علیہ السلام) نے اس کی طرف دیکھا جب اس نے اپنی بات کو ختم کیا تو سلیمان (علیہ السلام) نے نظر اٹھائی تو اس کا تکت سلیمان (علیہ السلام) کے قدموں کے نیچے چشمہ کی طرح نکل آیا اس کرسی کے نیچے جس پر قدم رکھتے تھے پھر آپ تکت کی طرف اوپر چڑھے جب سلیمان نے ملکہ بلقیس کے تکت کو اپنے سامنے پڑا ہوا پایا آیت ” قال ہذا من فضل ربی، لیبلونیء اشکر “ فرمایا میں اللہ کا شکر کروں کہ یہ میرے پاس میری پلک جھپکنے سے پہلے لے آیا۔ آتی ” ام اکفر “ یا ناشکری کروں کہ اللہ عالیٰ نے اسے زیادہ قدرت والا بنایا ہے جو مرتبہ میں مجھ سے کم ہے۔ آیت ” قال نکروا لہا عرشہا فلما جاء ت “ کہ وہ سلیمان کی طرف آگئی آیت ” قیل اہکذا عرشک، قالت کانہ ہو “۔ پھر اس نے کہا اے سلیمان میں ارادہ کرتی ہوں کہ میں تجھ سے ایک چیز کے بارے میں پوچھوں مجھے اس کی خبر دیجیے فرمایا سوال کر کہا مجھے اس جاری پانی کے بارے میں بتائیے جو نہ زمین کا ہے اور نہ آسمان کا ہے۔ راوی نے کہا جب سلیمان کے پاس جب کوئی ایسی چیز آتی جس کو آپ نہ جانتے ہو تو انسانوں سے اس کے بارے میں سوال کرتے تھے اگر انسانوں کے پاس اس کا علم ہوتا تو بہتر ورنہ جنات سے سوال کرتے۔ اگر جنات کے پاس علم نہ ہوتا تو شیاطین سے سوال کرتے شیاطین نے ان سے کہا یارسول اللہ یہ بہت آسان ہے۔ گھوڑے کو دوڑاؤ اس کے پسینے سے برتن بھرلو۔ سلیمان (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا گھوڑے کا پسینہ کہنے لگی آپ نے سچ فرمایا کہنے لگی مجھے بتائیے رب کے رنگ کے بارے میں۔ ابن عباس نے فرمایا سلیمان (علیہ السلام) اپنے تخت سے کود پڑے اور اور سجدہ میں گرپڑے ملکہ بلقیس آپ کے پاس سے اٹھ گئی اور سلیمان (علیہ السلام) کے لشکر بکھر گئے اور ان کے پاس اللہ کا قاصد آیا اور کہا اے سلیمان تیرا رب تجھے ارشاد فرماتا ہے۔ کہ تیرا کیا حال ہے ؟ سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا اے میرے رب تو زیادہ جاننے والا ہے جو اس نے کہا پھر فرمایا اللہ تعالیٰ تجھ کو حکم دیتا ہے کہ تو اپنے تخت کی طف لوٹ جا اور اس پر بیٹھ جا تو ملکہ بلقیس اور اس کے موجود لشکروں کی طرف پیغام بھیج اور اپنے تمام لشکروں کی طرف پیغام بھیج کہ وہ تیرے پاس حاضر ہوجائیں اور تو اس سے اور اس کے لشکروں سے وہ سوال کر جو اس نے آپ سے کیا تھا۔ سلیمان (علیہ السلام) نے ایسا ہی کیا جب سے بلشکر اس کے پاس حاضر ہوگئے تو سلیمان (علیہ السلام) نے بلقیس سے کہا تو نے مجھ سے کیا پوچھا تھا بلقیس نے کہا میں آپ سے ایسے جاری پانی کے بارے میں پوچھا تھا جو نہ زمین سے ہوا اور نہ آسمان سے، سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا میں نے تجھے بتایا تھا کہ وہ گھوڑے کا پسینہ ہے اس نے کہا سچ فرمایا پھ رسلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا تو نے مجھ سے اور کیا سوال کیا تھا ملکہ بلقیس نے کہا میں نے آپ سے اور کوئی سوال نہیں کیا تھا اس بارے میں (جو میں سوال کرچکی) سلیمان (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا کہ میں کس وجہ تخت سے زمین پر جا بیٹھا ؟ اس نے کہا کہ مجھے اس کا کوئی علم نہیں پھر حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے لشکروں سے پوچھاتو انہوں نے بھی اس طرح کی بات کی پھر حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے انسانوں اور جنوں اور پرندوں کے لشکروں سے پوچاھ اور ہر اس چیز جو اس کے پاس حاضر تھی سب نے یہا یارسول اللہ ملکہ بلقیس نے تو صرف آپ سے جاری پانی کے بارے میں پوچاھ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا وہ تو ہوچکا قاصد نے ان سے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے لیے فرماتے ہیں کہ آپ مکان کی طرف لوٹ جائیے بیشک میں تیری طرف سے ان کو کافی ہوں سلیمان (علیہ السلام) نے شیاطین سے فرمایا میرے لیے ایک محل بناؤ کہ اس میں بلقیس میرے پاس آئے گی شیاطین نے ایک دوسرے سے گفتگو کی اور انہوں نے سلیمان (علیہ السلام) سے عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے ہر چیز کو مسخر کردیا ہے اور بلقیس ملک سبا کی ملکہ ہے سلیمان (علیہ السلام) اس سے نکاح کریں گے وہ آپ کے لیے ایک لڑکا جنے گی۔ اور ہم ہمیشہ ہمیشہ اس کے غلام رہیں گے ملکہ بلقیس کی پنڈلیوں پر بال تھے شیاطین نے کہا سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ایک ایسی ہی عمارت بنا دو گویا کہ وہ پانی ہو سلیمان (علیہ السلام) اس طرح اس کی پنڈلیاں دیکھ لیں تو اس سے نکاح نہیں کریں گے تو انہوں نے ان کے لیے شیشے کا ایک محل بنایا شیاطین نے شیشے کے مختلف طبقات بنادیے اور طبقات کے نیچے ان جانوروں کی شکلیں بنادیں جو سمندر میں ہوتے ہیں جسے مچھلیاں اور دوسرے جانور پھر اس کو اوپر سے بند کردیا۔ پھر انہوں نے سلیمان (علیہ السلام) کہا محل میں داخل ہوجائیں اور محل کی ایک جانب کرسی لگادی جب سلیمان (علیہ السلام) محل میں تشریف لائے تو کرسی لائی گئی آپ اس پر بیٹھ گئے پھر فرمایا میرے پاس بلکہ بلقیس کو لاؤ، بلقیس سے کہا گیا کہ محل میں داخل ہوجاؤ جب وہ داخل ہونے لگی تو اس سنے مچھلی اور دوسرے ان جانوروں کی تصویریں دیکھیں جو پانی میں ہوتے ہیں آیت ” حسبتہ لجہۃ وکشفت عن ساقیہا “ (تو گہرا پانی خیال کرتے ہوئے اپنی پنڈلیوں کو کھولا تاکہ داخل ہوجائے اور اس کی پنڈلیوں کے بال لپیٹے ہوئے تھے اس کی پنڈلیوں پر جب سلیمان (علیہ السلام) نے ان کو دیکھا تو اسے بلایا اور اس سے اپنے چہرہ کو پھیرلیا آیت ” انہ صرح ممرد من قواریر “ (کہا گیا کہ وہ محل ہے جو شیشے سے جڑا گیا) ۔ اس نے اپنے کپڑے کو نیچے کیا اور کہا آیت ” رب انی ظلمت نفسی واسلمت مع سلیمن للہ رب العالمین “ (یعنی اے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور میں سلیمان کے ساتھ اللہ پر ایمان لے آئیں جو رب ہے جہان والوں کا۔ سلیمان (علیہ السلام) نے انسانوں کو بلایا اور فرمایا کہ کتنی بدصورتی ہے کو چیز اس کو کتم کرسکتی ہے انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ استرے سے فرمایا استرا تو کاٹ دے گا عورت کی پنڈلیوں کو پھر شیاطین کو بلایا اور ان کو اسی طرح فرمایا انہوں نے عذر پیش کیا پھر انہوں نے ان کے لیے بال صفا پوڈر بنایا۔ ابن عباس نے فرمایا یہ پہلا دن تھا کہ جس میں نورہ (یعنی بال صاف پوڈر کو دیکھا گیا) راوی نے کہا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے اس سے نکاح کا ارادہ کیا ابن ابی حاتم نے کہا کہ ابوبکر بن ابی شیبہ نے فرمایا کہ یہ حدیث کتنی اچھی ہے۔ 61 الفریابی سعید بن منصور وابن ابی شیبہ فی المصنف وابن جریر وابن ابی حاتم نے عبداللہ بن شداد ؓ سے روایت کیا کہ سلیمان (علیہ السلام) جب سفر کا ارادہ فرماتے تھے تو ان کی کرسی کو رکھا جاتا تھا انسانوں اور جنات میں سے جو ساتھ لے جانا چاہتے تھے وہ بھی آجاتے تھے پھر وہ ہوا کو حکم فرماتے تھے تو وہ ان کو اٹھالیتی تھی پھر پرندوں کو حکم فرماتے تو وہ ان پر سایہ کرتے تھے اس درمیان کے وہ رہے تھے ان کو پیاس لگی تو فرمایا تمہاری کیا رائے ہے کہ پانی کتنا دور ہے ؟ انہوں نے کہا ہم نہیں جانتے انہوں نے ہدہد کو یاد کیا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ہاں اسے وہ مقام حاصل تھا جو پرندوں میں سے کسی کو نہ تھا فرمایا آیت ” مالی الا اری الہدہد ام کان من الغائبین، لاعذبنہ عذابا شدید “ حضرت سلیمان علیہ (علیہ السلام) پرندوں کو یہ سز ادیتے کہ ان کے پر اکھاڑ دیتے پھر ان کو دھوپ میں ڈال دیتے۔ آیت ” او لاذبحنہ او لیاتینی بسلطن مبین “ (یعنی وہ کوئی واضح عذر لے آئے) ۔ جب ہدہد آیا تو پرندے اسے ملے اور اس سے کہا سلیمان (علیہ السلام) نے تجھ کو دھمکی دی ہے ہدہد نے پوچھا آپ نے دھمکی میں استثنا کیا تھا۔ پرندوں نے کہا جی ہاں کہ آپ نے فرمایا تھا مگر یہ کہ لے آئے میرے پاس واضح عذر تو ہدہد آپ کے پاس ملکہ سبا کی خبر لے آیا سلیمان (علیہ السلام) نے اس کے ساتھ یہ خط روانہ کیا آیت ” بسم اللہ الرحمن الرحیم، الا تعلوا علی واتونی مسلمین۔ (یعنی میرے سامنے عذر نہ کرو اور اطاعت گزار ہو کر میرے پاس آجاؤ ملکہ بلقیس چل پڑی۔ جب وہ ایک فرسخ کے فاصلے پر تھی سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا آیت ” ایکم یاتینی بعرشہا قبل ان یاتونی مسلمین۔ قال عفریت من الجن انا اتیک بہ قبل ان تقوم من مقامک “ ( یعنی کون تم میں سے اس کے تکت کو لائے گا پہلے اس سے کہ وہ میرے پاس مسلمان ہو کر آجئے جنات میں سے ایک عفریت نے کہا کہ میں اس کو آپ کے پاس آپ کی اپنی جگہ سے اٹھ جانے سے پہلے لے آؤں گا۔ سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا میں اس سے بھی جلدی کا ارادہ رکھتا ہوں پھر اس شخص نے کہا جس کے پاس کتاب میں سے علم تھا آیت ” انا اٰتیک بہ قبل ان یرتد الیک طرفک “ میں اس کو پلک جھپکنے سے بھی پہلے لے آؤں گا وہ تخت کو لے آیا زمین کی سرنگ میں سے یعنی زمین میں رستہ چلتے ہوئے سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا اس کی شکل و صورت کو تبدیل کردو جب بلقیس آئی آیت ” قیل اہکذا عرشک “ (یعنی اس سے کہا گیا کیا اسی طرح تیرا تخت ہے (اس نے اس تیز رفتاری کو عجیب جانا اور تخت کو بھی دیکھ لیا۔ آیت ” قالت کانہ ہو، قیل لہا ادخلی الصرح، فلما رأتہ حسبیتہ “ یعنی سب نے کہا گیوا کہ یہ وہی ہے، پھر اس سے کہا گیا محل میں داخل ہوجا جب اس نے دیکھا تو اس کو خیال کیا گہرا پانی آیت ” وکشفت عن ساقیہا “ یعنی اپنی پنڈلی کو کھولا۔ تو دیکھا کہ اس کی پنڈلیوں پر بال ہیں۔ سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا یہ بال کیسے جائیں گے۔ ایک جن نے کہا میں ان کو دور کردوں گا۔ اور اس کے لیے ایک بال صفا پوڈر بنایا اور یہ سب سے پہلے پوڈر تیر کا گیا۔ زائد بالوں کی صفائی ضروری ہے 62۔ ابن عساکر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ جب سلیمان (علیہ السلام) نے بلقیس سے شادی کی تو اس نے کہا مجھے لوہے نے آج تک نہی چھوا یعنی کسی لوہے سے میں نے بال صاف نہیں کیے، سلیمان (علیہ السلام) نے شیاطین سے فرمایا لوہے کے علاوہ کونسی چیز بال دور کرسکتی ہے تو انہوں نے ان کے لیے بال صفا پوڈر تیار کیا سب سے پہلے اس جن نے (یعنی پوڈرکو) سلیمان (علیہ السلام) کے شیاطین نے تیار کیا تھا۔ 63۔ البخاری فی تاریخہ والبیہقی نے ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب سے پہلے سلیمان (علیہ السلام) کے لیے حمامات بنائے گئے تھے۔ 64۔ الطبرانی وابن عدی فی الدلائل والبیہقی فی الشعب ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلے سلیمان (علیہ السلام) حمام میں داخل ہوئے جب آپ نے حمام کی گرمی کو پایا تو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے پناہ مانگی۔ 65۔ ابو نعیم فی الحلیہ مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جب ملکہ سبا، سلیمان علیہ السلا کے پاس آئی تو اس نے بہت زیادہ لکڑیوں کو دیکھا تو اس نے سلیمان (علیہ السلام) کے غلام سے کہا تیرا آقا جانتا ہے کہ اس کے دھوئیں کا کیا وزن ہے ؟ اس نے کہا میں بھی جانتا ہوں میرا آقا کیسے نہیں جانتا ہوگا۔ بلقیس نے پوچھا اس کا وزن کتنا ہے غلام نے کہا لکڑی کا وزن کیا جاتا ہے پھر اس کو جلایا جاتا ہے پھر راکھ کا وز کیا جاتا ہے۔ تو لکڑی کے وزن سے جتنا کم ہوجائے وہ دھویں کا وزن ہے۔ 66۔ البیہقی فی الزہد اوزاعی (رح) سے روایت کیا کہ تدمر کے برجوں میں سے ایک برج کو توڑا گیا اس میں انہوں نے ایک حسین عورت کو پایا اس کی آنکھیں سیاہ اور جس مضبوط تھا اس کی اطراف یوں لپٹی ہوئی تھیں جیسے کتاب کی جلد۔ اس پر ایک پگڑی تھی اس کی لمبائی اسی ہاتھ ہے۔ پگری کے ایک کنارے پر سونے سے لکھا ہوا تھا آیت ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ میں ملکہ سبا بلقیس ہوں جو سلیمان بن داوٗد کی بیوی بنے۔ سبا کی مالک بنی کافر ہونے کی حالت میں اور مومن ہونے کی حالت میں مجھ سے پہلے نہ کوئی مالک بنی اور نہ میرے بعد میرا انجام موت کی صورت میں ہوا اپنی خواہشوں کو کم کرو اے دنیا کے طلب کرنے والو۔ 67۔ ابن عساکر نے سلمہ بن عبداللہ ربعی رھمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ جب بلقیس مسلمان ہوگئیں تو اس سے سلیمان (علیہ السلام) نے شادی کرلی اور اس کا مہر بعبلب مقرر ہوا۔
Top