بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - Al-Qasas : 1
طٰسٓمّٓ
طٰسٓمّٓ : طا۔ سین۔ میم
طٰسٓم ٓ
سورة القصص آیات 1 تا 13 اسرار و معارف طسم۔ وہ آیات ایسی کتاب کی ہیں جو حقائق کو کھول کھول کر بیان کرتی ہے۔ اور یہاں آپ کو موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا واقعی اور اس کی حقیقت کا بیان سنایا جائے ا کہ مومنین کو اس سے مزید عبرت حاصل ہو۔ قرآن اگرچہ مخاطب تو ساری انسانیت کو کرتا ہے مگر اس سے فائدہ وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جنہیں ایمان نصیب ہوتا ہے۔ بے شک فرعون اپنی سرزمین میں بہت طاقتور شاہنشاہ تھا اور اس نے لوگوں کو گروہوں میں بانٹ رکھا تھا۔ لفظ شیعہ : یہ پہلے بھی گزر چکا کہ شیعہ کا لفظی تر جمہ گروہ ، پارٹی یا جماعت ہے مگر قرآن کریم نے ہمیشہ گمراہ لوگوں کے ٹولہ پر اس کا اطلاق کیا ہے۔ جیسے اس جگہ کہ فرعون نے لوگوں کے گروہ بنا رکھے تھے اور ایک گروہ یعنی قبطی تو بڑے معززین رہے تھے جبکہ دوسرے سبطی یا بنی اسرائیل کو بہت ذلیل و خوار کر رکھا تھا حتی کہ نہ صرف یہ کہ ان سے بیگار لی جاتی بلکہ ان کے بیٹوں تک کو ذبح کردیا جاتا اور بیٹیوں کو زندہ رکھا جاتا کہ فرعون کو نجومیوں نے اطلاع دی تھی کہ اس قوم میں ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جو تیری حکومت ختم کردے گا تو اس نے بچے قتل کرنے کا حکم دے دیا وہ بہت بڑا فسادی تھا۔ جب اللہ چاہتا ہے تو کمزور طاقتور پہ غالب آتے ہیں : پھر اللہ نے چاہا کہ کمزوروں پر احسان کرے اور ان متکبروں سے اقتدار چھین کر کمزوروں کو سردار اور حاکم بنا دے اور انہیں ان کی حکومت ، شان و شوکت اور مال و دولت کا وارث بنا دے اور انہیں اقتدار عطا کر کے فرعون اس کے وزیر ہامان اور فرعون کے لاؤ لشکر کو وہی بات کر کے دکھا دیں جس سے بچنے کے کیے یہ بچوں کو قتل کر رہے ہیں اور بہت خوفزدہ ہیں ہر حال میں اسے روکنا چاہتے ہیں۔ کلام باری : چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا فرما کر ان کی والدہ کو حکم دیا یہاں لفظ وحی لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے کہ ان سے بات کی اور ثابت ہے کہ ولی اللہ کو کلام باری کا شرف نصیب ہوسکتا ہے اور وہ خود اس کے لیے دلیل بھی ہے ہاں نبی سے جو کلام ہوتا ہے وہ ساری امت کے لیے دلیل ہوتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ سے فرمایا کہ انہیں دودھ پلاؤ اور پاس رکھو جب تک کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا پھر اگر فرعون کے سپاہیوں سے خطرہ ہو تو اسے صندوق میں ڈال کر دریا میں ڈال دینا اور یہ ڈر نہ رکھنا کہ کہیں دریا میں ہی ہلاک نہ ہوجائے یا بچھڑ تو بحرحال جائے گا ایسا کچھ نہ ہوگا بلکہ ہم اسے واپس تمہاری گود میں دیں گے اور یہ زندہ بھی رہے گا اور اسے اپنا رسول بنائیں گے۔ اللہ کی شان دیکھئے کہ دریا میں بہتا ہوا وہ صندوق فرعون کے اہل خانہ نے پکڑ لیا کہ دریا سے نہر کاٹ ک محلات سے گزاری گئی تھی پانی بہا کر ادھر لے گیا فرعون کی اہلیہ کی نظر پڑی تو اٹھوا لیا وہ یہ نہ جان سکی کہ یہ تو فرعونی سلطنت کی تباہی کا سبب اور سب سے بڑا دشمن بنے گا بیشک فرعون ہامان اور ان کے لاؤ لشکر غلطی پر تھے بھلا قدرت باری سے مقابلہ کیسا فرعون نے دیکھا تو قتل کا ارادہ کرلیا کہ یقینا کسی اسرائیلی عورت نے قتل کے خوف سے پھینکا ہوگا مگر اس کی اہلیہ جو کہ بےاولاد تھی کہنے لگی کہ اللہ نے ہمیں یہ چاند سا بچہ عطا کیا ہے میری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگا اور بڑا ہو کر ہماری خدمت کریگا ہم اسی کو بیٹا بنا لیں گے۔ لیکن وہ اس بات کو نہ جان سکے کہ یہ بڑا ہو کر کیا بننے والا ہے۔ ربط اللہ : ادھرصبح جب موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ بہت بےقرار اٹھی اور اس قدر دل گھبرا رہا تھا کہ اگر ہمارا رابطہ اسکے قلب سے نہ ہوتا تو وہ چیخ چیخ کر بتاتی کہ لوگو میں نے لخت جگر کو سپرد دریا کردیا اور اپنی گوداجاڑ لی۔ یہاں یہ ثابت ہے کہ اہل اللہ کو ذات باری سے قلبی ربط نصیب ہوتا ہے جس کی برک سے وہ بڑی بڑی مشکلات سے گزر جاتے ہیں۔ ایسے ہی ام موسیٰ کے قلب کو رط نصیب ہوا کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی اور واپس ملنے پر یقین سے قائم رہیں۔ اس نے بیٹی سے کہ دیا تھا کہ کنار دریا چلتی جاؤ اور صندوق پر نظر رکھو جبکہ فرعونی اس بات سے بیخبر تھے۔ اب فرعون کی اہلیہ نے بچے کو دودھ پلانے کے لیے خواتین کو طلب کیا تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کسی کا بھی دودھ پینے سے روک دیا۔ یہ قدرتی تدبیر تھی کہ اب انہیں بہت فکر ہوئی تو موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن نے بتایا کہ ایک خاتون سے میں واقف ہوں وہ بہت نیک دل اور مہربان خاتون ہے اگر چاہو تو اس کا پتہ دوں وہ بچے کی خبر گیری بھی بہت اچھی طرح سے کرے گی چناچہ انہیں بلایا گیا اور موسیٰ (علیہ السلام) نے دودھ پینا شروع کردیا یوں انہیں بیٹا بھی مل گیا کہ آنکھیں ٹھنڈی کریں اور گود آباد رکھیں اور فرعونیوں سے پرورش کی اجرت الگ اور آئندہ بھی فکرمند نہ ہوں اور خوب یقین کرلیں کہ اللہ کا وعدہ حق ہے جس پر بہت سے لوگوں کو یقین نصیب نہیں ہوتا۔
Top