بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - Al-Ahzaab : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی ! اتَّقِ اللّٰهَ : آپ اللہ سے ڈرتے رہیں وَلَا تُطِعِ : اور کہا نہ مانیں الْكٰفِرِيْنَ : کافروں وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ : اور منافقوں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اے پیغمبر ! اللہ سے ڈرتے رہیے اور کافروں اور منافقوں کا کہنا مت مانیے۔ بیشک اللہ جاننے والے (اور) حکمت والے ہیں
سورة الاحزاب آیات 1 تا 8 اسرارو معارف کفار و مشرکین عرب نے انتہائی دباؤ ڈالا اور مختلف طرح سے پیشکش بھی کی کہ کم از کم مسلمانوں کو بقا کے لیے آپ ﷺ اگر اپنے رب کی عظمت بیان کرتے ہیں تو ہمارے بتوں کو یا جن کو ہم معبود مانتے ہیں ان کو باطل کہنا تو چھوڑ دیں ورنہ ہم کوئی مسلمان زندہ نہ چھوڑیں گے۔ اسی طرح کا دباؤ مدینہ منورہ کے یہودیوں کی طرف سے بھی تھا اور مشرکین عرب بھی تمام قبائل کو جمع کر کے دس ہزار کا لشکر جرار لے آئے تو ارشاد ہوا اے میرے نبی اللہ کا تقوی اختیار کیے رکھیے اور کفار و منافقین کی کوئی بات قبول مت کیجیے یعنی ہر حال اللہ کی اطاعت پہ ثابت قدم رہیے اور اسلام پر یا احکام پر سمجھوتہ ممکن نہیں ۔ مسلمان آج کے دور میں : اور آج کے دور کی سب سے بڑی مصیبت ہی یہ ہے کہ آج کا مسلمان اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کفار کی بات مانتا ہے قانون کافرانہ معیشت سودی اور حکومت بنانے کا طریقہ کافرانہ اور غیر اسلامی اور ساتھ دعوی اسلام بھی ہے جبکہ اللہ کا حکم نبی ﷺ کو مخاطب فرما کر ارشاد فرمایا گیا جس سے مراد یہ ہے کہ اس حکم سے سرتابی کی کوئی گنجائش نہیں مسلمان کو چاہیے سیدھی سیدھی اسلام کی راہ اپنائے اور اپنی امیدیں کفار سے نہ جوڑے بلکہ اللہ پر بھروسہ کرے جو ہر بات سے اور ہر حال سے ہر آن واقف اور باخبر ہے یہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ کفار کو بھی چند روز کی مہلت مل رہی ہے مگر اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ یہ اللہ کی گرفت سے بچ جائیں گے اور آپ ان احکام پر پوری طرح عمل کیجیے جن کی آپ کو وحی کی جاتی ہے کہ اللہ آپ لوگوں کے بھی ہر کام کا علم رکھتا ہے جو آپ انجام دیتے ہیں اور اسباب ظاہری کے سامنے نہ ہونے سے ہرگز مایوس نہ ہوا جائے بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھیں جب مسلمان اس کی اطاعت پر قائم رہنے کے لیے کفار کی اطاعت سے انکار کر کے انہیں للکارتے ہیں تو وہ ہر طرح سے مدد کرنے پہ قادر ہے اور اس کی شان ایسی ہے کہ اس پر بھروسہ کیا جائے اللہ نے کسی انسان کے سینے میں دو دل نہیں رکھے کہ وہ کفار سے دوستی کر کے ان سے امیدیں وابستہ رکھے اور ان کی اطاعت کرے اور اللہ پر ایمان اور اللہ سے محبت کا مدعی بھی ہو بلکہ ہر سینے میں ایک ہی دل ہے جس میں اللہ پر بھروسہ اور اللہ کی محبت ہوگی یا پھر کفر چھا رہا ہوگا۔ بیوی سے ظہار اور متبنی : آگے جاہلیت کی دو رسوم کی اصلاح مطلوب ہے جس میں بیوی سے ظہار اور متبنی بنانے کی بات ہے جن خواتین سے تم ظہار کرتے ہو یعنی یہ کہ دیا جاتا ہے کہ تو میری ماں جیسی ہے یا میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے اور اسے حرام سمجھا جاتا ہے فرمایا یہ درست نہیں تمہاری ماں صرف وہی ہے جس نے تم کو جنا اور ظہار کرنا اور بیوی کو ماں یا بہن کہنا گناہ ہے اس کا کفارہ ہے مگر بیوی مطلق حرام نہیں ہوگی کفارہ ادا کر کے حلال ہوجاتی ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے اور دوسرا رواج تھا کہ جس کسی کو منہ بولا بیٹا بنا لیتے اس پر تمام احکام وہی لاگو کرتے جو حقیقی بیٹے پر ہوتے ہیں کہ بیٹا ہی کہا بھی جاتا ہے اسی طرح اسے میراث ملتی اور جو رشتے حقیقی بیٹا ہونے کی وجہ سے قابل حرمت ہوتے ہیں ویسے ہی سمجھے جاتے چناچہ ارشاد فرمایا کہ تمہارے لے پالک بیٹے کبھی بیٹے نہیں بن جاتے نہ ان پر وہ احکام لاگو ہوتے ہیں جو حقیقی بیٹے پہ ہوتے ہیں یہ محض ایک بات ہے جو لوگ کہ دیتے ہیں اور کسی کے کہ دینے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوجاتی ۔ لے پالک کو اس کے حقیقی باپ کا بیٹا ہی کہنا چاہئیے : اللہ حق بات ارشاد فرماتے ہیں اور صحیح راستے کی طرف رہنمائی فرماتے ہیں لہذا لے پالک بیٹوں کو ان کے حقیقی باپوں کے نام سے پکارو کہ اللہ کے نذدیک یہی صحیح طریقہ ہے اور انصاف کی بات ہے لہذا یہ متبنی بنا کر اسے بیٹا کہنا اور اصلی والد سے بیخبر رکھنا درست نہیں اگر کسی نے لے پالک پال کر دل کو دھوکہ دینا ہی چاہتا ہو تو اسے اس کے باپ کی اولاد کے نام سے پکارا جائے اور اس کی ولدیت نامعلوم ہو تو وہ یا تو تمہارا دینی بھائی ہے یا پھر غلام اور نوکر ہے اس کی اس حیثیت اور حقوق کا لحاظ رکھا جائے اس حکم کے نزول سے قبل جو خطا ہوچکی اس پر گرفت نہ ہوگی لیکن اس کے بعد اگر کسی نے اپنے دل کی خواہش پوری کرنے کو ارادۃ ایسا کیا تو سخت گناہ ہے جس سے توبہ کی جائے اور اسے چھوڑ دیا جائے تو اللہ بہت بڑی بخشش کا مالک اور رحم کرنے والا ہے۔ اس میں آج کے لوگوں کو بہت غور کرنے کی ضرورت ہے جو اگر اولاد نہ ہو تو بچے گود لے لیتے ہیں۔ نبی ﷺ تو ایمان والوں سے ان کی اپنی جان سے زیادہ عزیز تر اور قریبی تعلق رکھتے ہیں کہ جان سے تو محض دنیا کی حیات حاصل ہوتی ہے اگر خیر ہے تو شر بھی ہے مگر نبی ﷺ سے جو کچھ ملا وہ خیر ہی خیر ہے اور دائمی ابدی دونوں جہانوں کے لیے ہے اسی طرح نبی (علیہ السلام) کی بیویاں سب مومنوں کی مائیں ہیں مگر وراثت کے احکام اس پر مرتب نہ ہوں گے چہ جائیکہ زبانی بیٹا کہنے پر ہوں بلکہ نسبی رشتوں اور قرابت پہ ہوں گے۔ ایذاء رسول کفر ہے : نبی (علیہ الصلوۃ والسلام) سے ہر طرح خیر ہی حاصل ہوتی ہے لہذا آپ کی اطاعت اپنی پسند پر مقدم ہوگی اور آپ کی بیویوں کی شان میں گستاخی حرام بھی ہے اور ایذاء رسول بن کر کفر ہے۔ لیکن اس پر میراث تقسیم ہوگی نہ نکاح وغیرہ کے احکام لاگو ہوں گے اسی لیے آپ ﷺ کی بیویوں سے نکاح کی حرمت کا الگ حکم دیا گیا ہے اس آیت پر اس کا مدار نہیں ہے اسی طرح مہاجرین و انصار میں جو بھائے چارہ قائم کیا گیا تھا وراثت میں اس سے قرابت داری مقدم ہے ہاں اگر کوئی ازراہ محبت اپنی طرف سے مسلمان بھائی کو کچھ دینا چاہے تو وہ ولگ بات ہے مگر نسبی رشتے کے علاوہ وراثت نہ ہوگی کہ یہ قوانین و احکام کتاب اللہ میں لکھے ہوئے ہیں۔ یعنی طے فرما دیے گئے۔ انبیاء سے عہد : بلکہ یاد کیجیے جب ازل ہی کو احکام الہی کی اطاعت کا وعدہ آپ سے لیا گیا اور آپ کی نبوت اور ختم نبوت کا اقرار نوح ، ابراہیم موسیٰ اور عیسیٰ علیہم الصلوۃ والسلام سے لیا گیا اور سب سے خوب پختہ عہد لیا گیا جس میں کسی ترمیم کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی۔ مرسل اور اولوالعزم : یہاں اولوالعزم رسولوں کا ذکر کیا گیا جو سلسلہ نبوت میں سنگ میل تھے ان اسماء گرامی میں آدم (علیہ السلام) بھی شامل ہیں کہ تین سو تیرہ رسول و مرسل اور پانچ اولوالعزم اور آپ ﷺ ان سب کے امام ہیں کہ صاحب وحی پر وحی کا اتباع اور مومن پر اپنے نبی کا اتباع واجب ہے اور اسی کی پرسش ہوگی اور کفار کے لیے بہت دردناک عذاب تیار کیا گیا ہے جو انہیں پیش آئے گا۔ ایک حد تک دنیا میں بھی اور پورے کا پورا آخرت میں۔
Top