Asrar-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 37
لِیُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِیْ یَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِ وَ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰذِبِیْنَ
لِيُبَيِّنَ : تاکہ ظاہر کردے لَهُمُ : ان کے لیے الَّذِيْ : جو يَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے ہیں فِيْهِ : اس میں وَلِيَعْلَمَ : اور تاکہ جان لیں الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : جن لوگوں نے کفر کای (کافر) اَنَّهُمْ : کہ وہ كَانُوْا كٰذِبِيْنَ : جھوٹے تھے
اس لئے ( مردوں کو اٹھائے گا) کہ ان پر ظاہر کر دے وہ چیز جس میں وہ لوگ اختلاف کرتے تھے اور اس لئے کہ کافر لوگ جان لیں کہ بیشک ہو جھوٹے تھے
اس آیت میں فرمایا کہ کیا وجہ ہے جو ایسا نہیں ہو سکتا ضرور بضرور قیامت ہوگی۔ اللہ پاک نے وعدہ کرلیا ہے اور اس کا وعدہ بلکل حق اور سچا ہوتا ہے۔ اس دنیا کے فنا ہوجانے کے بعد پھر اللہ تعالیٰ اپنی ساری مخلوق کو زندہ کرے گا۔ کفار کا یہ اعتراض یہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا ممکن نہیں ہے بلکل غلط ہے۔ کیونکہ جس نے پہلے بغیر نمونہ کے ہر شے کی ایجاد کی اس میں کیا قدرت نہیں ہے کہ اس شے کے فنا ہوجانے کے بعد پھر اس کو دوبارہ وجود میں لائے، یلہ بات تو بلکل آسان ہے۔ پھر فرمایا کہ اس کی قدرت اور اس کے اختیار کچھ ایسے ویسے نہیں ہیں اس کا تو ارادہ کرنا ہی کافی ہوتا ہے جب وہ کسی شے کے بنانے کا ارادہ کرتا ہے تو صرف ایک کن کے حکم سے وہ شے ظہور میں آجاتی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ حشر کا انکار انسان کے حوصلہ سے باہر اور بڑی ہٹ دھرمی اور تمام دنیا کو بلا نتیجہ پیدا کرنے کا الزام اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگانا ہے۔
Top