Tafseer-e-Baghwi - Aal-i-Imraan : 153
اِذْ تُصْعِدُوْنَ وَ لَا تَلْوٗنَ عَلٰۤى اَحَدٍ وَّ الرَّسُوْلُ یَدْعُوْكُمْ فِیْۤ اُخْرٰىكُمْ فَاَثَابَكُمْ غَمًّۢا بِغَمٍّ لِّكَیْلَا تَحْزَنُوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَ لَا مَاۤ اَصَابَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
اِذْ : جب تُصْعِدُوْنَ : تم چڑھتے تھے وَلَا تَلْوٗنَ : اور مڑ کر نہ دیکھتے تھے عَلٰٓي اَحَدٍ : کسی کو وَّالرَّسُوْلُ : اور رسول يَدْعُوْكُمْ : تمہیں پکارتے تھے فِيْٓ اُخْرٰىكُمْ : تمہارے پیچھے سے فَاَثَابَكُمْ : پھر تمہیں پہنچایا غَمًّۢا بِغَمٍّ : غم کے عوض غم لِّكَيْلَا : تاکہ نہ تَحْزَنُوْا : تم غم کرو عَلٰي : پر مَا فَاتَكُمْ : جو تم سے نکل گیا وَلَا : اور نہ مَآ : جو اَصَابَكُمْ : تمہیں پیش آئے وَاللّٰهُ : اور اللہ خَبِيْرٌ : باخبر بِمَا تَعْمَلُوْنَ : اس سے جو تم کرتے ہو
(وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے) جب تم لوگ دور بھاگے جاتے تھے اور کسی کو پیچھے پھر کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول اللہ تم کو تمہارے پیچھے کھڑے بلا رہے تھے تو خدا نے تم کو غم پر غم پہنچایا تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہی یا جو مصبیت تم پر واقع ہوئی ہے اس سے تم اندوہناک نہ ہو اور خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے
(تفسیر) 153۔: (آیت)” اذ تصعدون “۔ تحقیق اللہ تعالیٰ نے تمہیں معاف کردیا ، جب تم بھاگے جا رہے تھے شکست کھا کر ، عبدالرحمن سلمی ، حسن (رح) ، قتادہ (رح) ، ” تصعدون “ تاء کے فتحہ کے ساتھ اور عین کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے ، معروف قرات تاء کے ضمہ عین کے کسرہ کے ساتھ ہے ، اصعاد کا معنی ہے ہموار میدان میں جانا ، صعود کا معنی ہے پہاڑ پر چڑھنا اور بعض دور نکل گئے، ابو حاتم کہتے ہیں کہ ” یقال اصعدت کہا جاتا ہے جب کوئی چہرے کے سامنے ہموار میدان میں جائے ” وصعدت “ کہا جاتا ہے کہ جب وہ پہاڑ پر چڑھے ، مبرد فرماتے ہیں کہ ” اصعد “ جب وہ دور چلا گیا یہ دونوں قراتیں صحیح ہیں ، کبھی کبھار ” منھزمین “ کے لیے مصعد اور صاعد استعمال ہوتا ہے اور مفضل کہتے ہیں کہ صعد اور اصعد کا معنی بھی ایک ہے ۔ ” ولا تلوون علی احد ‘۔ شدت دہشت کی وجہ سے کوئی ایکدوسرے کی طرف مڑ کر نہیں دیکھ رہا تھا اور نہ ہی اپنی جگہ پر ثابت قدم رہا ۔ (آیت)” والرسول یدعوکم فی اخراکم “۔ وہ پچھلی صفوں سے آپ کو پکار رہے تھے کہ اللہ کے بندو میری طرف مڑ کر آئے گا اس کے کیلئے جنت ہے ” فاثابکم “ تمہیں بدلہ دیا ، یہاں ” اثابہ “ بمعنی عقاب کے ہے اثاب بمعنی ثواب کے استعمال ہوتا ہے ، (مطلب یہ ہے کہ تم نے ثواب کی امید لگائی ہوئی تھی لیکن تمہارے فعل کی وجہ سے اللہ نے تم کو سزا دی) اللہ تعالیٰ کا فرمان (آیت)” فبشرھم بعذاب الیم “۔ یہاں پر بشارت کو عذاب کی جگہ ذکر کیا ، ایسا جملہ بطور استہزاء کے ہوتا ہے ” غما بغم “ باء بمعنی علی کے ہے ، عبارت یوں ہوگی ، ” غم علی غم “ یعنی غم بالائے غم۔ (غما بغم کی مختلف تفاسیر) پہلے غم سے مراد کامیابی اور مال غنیمت کا ہاتھ سے جانے کا غم، دوسرے غم سے مراد شکست اور مسلمانوں کی شہادت ہے ، بعض نے کہا کہ پہلے غم سے مراد قتل اور زخمی ہونا ہے، دوسرے غم سے مراد محمد ﷺ کی شہادت کی خبر جس کی وجہ سے پہلا والا غم بھول گیا ، بعض نے کہا کہ پہلے غم سے مراد گھاٹی سے خالد بن ولید کا سواروں کا دستہ لے کر برآمد ہونا اور دوسرے غم سے مراد ابو سفیان کا سامنے سے نمودار ہونا۔ اس کا واقعہ یہ ہوا کہ اس دن آپ ﷺ لوگوں کو پکارتے پکارتے اس جگہ پہنچ گئے جہاں چٹان والے مسلمان جمع تھے انہوں نے جب آپ ﷺ کو دیکھا (تو نہ پہچاننے کی وجہ سے) ایک شخص نے کمان میں تیر جوڑ کر آپ ﷺ کو مارنا چاہا ، آپ ﷺ نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین رسول اللہ ﷺ کو پا کر بہت خوش ہوگئے ، اور محافظین کو پا کر رسول اللہ ﷺ کو بھی خوشی ہوئی پھر یہ لوگ فتح شدہ مال غنیمت کا اور اپنے ساتھیوں کی شہادت کا ذکر کرنے لگے اتنے میں ابوسفیان اپنے ساتھیوں کے ساتھ سامنے سے آکر گھاٹی کے دہانے پر کھڑا ہوگیا ، مسلمان اس کو دیکھ کر فکر میں پڑگئے اور ان کو خیال ہوا کہ یہ لوگ ہم پر ٹوٹ پڑیں گے اور ہمیں شہید کردیں گے ، اس خیال کے آتے ہیں پہلے خیال کو بھول گئے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ لوگ ہمارے اوپر نہیں سکیں گے (پھر آپ ﷺ یہ دعا فرمانے لگے) اے اللہ ! اگر یہ گروہ مارا گیا تو زمین پر تیری پرستش کرنے والا کوئی نہیں رہے گا پھر اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو آواز دی ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے کافروں کو پتھر مار مار کر نیچے اتار دیا اور کہا گیا کہ ان کو آپ ﷺ کے حکم کی مخالفت کی وجہ سے غم لاحق ہوگیا ، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کا بدلہ غم اور قتل سے دیا جس کو غم سے تعبیر کیا گیا ، (آیت)” لکیلا تحزنوا علی مافاتکم “۔ جو فتح شکست سے بدل گئی اور مال غنیمت ہاتھوں سے چلی گئی (آیت)” ولا ما اصابکم “۔ اور جو مصیبت تم پر قتل اور شکست کی بناء پر پڑی ، ” واللہ خبیر بما تعملون “۔
Top