بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Baghwi - Al-Ahzaab : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی ! اتَّقِ اللّٰهَ : آپ اللہ سے ڈرتے رہیں وَلَا تُطِعِ : اور کہا نہ مانیں الْكٰفِرِيْنَ : کافروں وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ : اور منافقوں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اے پیغمبر خدا سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننا بیشک خدا جاننے والا اور حکمت والا ہے
یایھا النبی اتق اللہ کا شان نزول تفسیر۔ ، یایھا النبی اتق اللہ ، ان آیات کا نزول ابوسفیان بن حرب عکرمہ بن ابوجہل اور ابوالا عور عمروبن سفیان سلمی کے حق میں ہوا۔ جنگ احد کے بعد یہ تینوں شخص مدینہ میں آکرسرکردہ منافقین عبداللہ بن ابی سلول کے پاس ٹھہرے۔ حضور ﷺ نے ان کو اجازت دے دی ۔ چناچہ عبداللہ بن ابی عبد اللہ بن سعد اور طعمہ بن ابیرق خدمت گرامی میں حاضر ہوئے اور رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ آپ لات عزی اور مناۃ کا تذکرہ چھوڑ دیجئے ہمارے ان معبودوں کا ذکر برائی کے ساتھ نہ کیجئے کہ جو شخص ان کو پوجے گا یہ معبود اس کی شفاعت کریں گے ۔ اگر آپ ایسا کرلیں گے تو ہم آپ کے اور آپ کے رب کا ذکربرائی کے ساتھ نہیں کریں گے اور آپ کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے۔ اس وقت حضرت عمربن الخطاب رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھے۔ حضور اکرم ﷺ کو کافروں کی یہ بات بہت شاق گزری ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا ، یارسول اللہ ﷺ مجھے اجازت دیجئے کہ میں ان کو قتل کردوں ، آپ ﷺ نے فرمایا میں ان کو امن دے چکا ہوں پھر فرمایا نکل جاؤتم پر اللہ کی لعنت اور غضب ۔ چناچہ حضور ﷺ نے ان کو مدینہ سے نکال دینے کا حکم دے دیا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ، یایھا النبی اتق اللہ ، تقوی کو دوام سے پکڑے رکھو۔ جیسا کہ کوئی شخص دوسرے کو کہے اس حال میں کہ وہ کھڑاہو کہ تو اس جگہ پر کھڑا ہو اس جگہ پر ثابت قدم رہ۔ بعض نے کہا کہ یہاں خطاب نبی کریم ﷺ کو ہے امت بھی اس میں شامل ہے۔ (یعنی مراداس خطاب سے امت ہے) ضحاک کا قول ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ سے ڈر اور عہد کو نہ توڑ جو ہمارے اور تمہارے درمیان ہے۔ 1، ولا تطع الکافرین، اس سے مراد اہل مکہ ہے۔ یعنی ابوسفیان اور عکرمہ اور ابوالا عورمراد ہیں ۔ ، والمنا فیقن ، میں سے اس سے مراد عبداللہ بن ابی عبداللہ بن سعد اور طعمۃ ، ہیں ۔ ، ان اللہ کان علیما، اپنی مخلوق کو۔ اس کے پیدا کرنے سے پہلے ، حکیما ، اور اپنی حکمت کے مطابق ان کے لیے امور کی تدربیر کرتا ہے۔
Top