Tafseer-e-Baghwi - Al-Fath : 12
بَلْ ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّنْقَلِبَ الرَّسُوْلُ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ اِلٰۤى اَهْلِیْهِمْ اَبَدًا وَّ زُیِّنَ ذٰلِكَ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ ظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ١ۖۚ وَ كُنْتُمْ قَوْمًۢا بُوْرًا
بَلْ ظَنَنْتُمْ : بلکہ تم نے گمان کیا اَنْ لَّنْ : کہ ہرگز نہ يَّنْقَلِبَ : واپس لوٹیں گے الرَّسُوْلُ : رسول وَالْمُؤْمِنُوْنَ : اور مومن (جمع) اِلٰٓى : طرف اَهْلِيْهِمْ : اپنے اہل خانہ اَبَدًا : کبھی وَّزُيِّنَ : اور بھلی لگی ذٰلِكَ : یہ فِيْ : میں، کو قُلُوْبِكُمْ : تمہارے دلوں وَظَنَنْتُمْ : اور تم نے گمان کیا ظَنَّ السَّوْءِ ښ : بُرا گمان وَكُنْتُمْ : اور تم تھے، ہوگئے قَوْمًۢا بُوْرًا : ہلاک ہونیوالی قوم
جو اعراب پیچھے رہ گئے وہ تم سے کہیں گے کہ ہم کو ہمارے مال اور اہل و عیال نے روک رکھا آپ ہمارے لئے (خدا سے) بخشش مانگیں یہ لوگ اپنی زبان سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہے کہہ دو کہ اگر خدا تم (لوگوں) کو نقصان پہنچانا چاہے یا تمہیں فائدہ پہنچانے کا ارادہ فرمائے تو کون ہے جو اس کے سامنے تمہارے لیے کسی بات کا کچھ اختیار رکھے ؟ (کوئی نہیں) بلکہ جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے واقف ہے
11 ۔ ” سیقول ک المخلفون من الاعراب ‘ ‘ ابن عباس ؓ اور مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ یعنی بنو غفار، مزینہ، جہینہ، اشجع اور اسلم کے بدولوگ اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب حدیبیہ کے سال مکہ کی طرف عمرہ کے ارادہ سے جانے کا ارادہ کیا تو مدینہ کے اردگرد بدو اور دیہاتی لوگوں سے بھی کوچ کا مطالبہ کیا تاکہ وہ آپ (علیہ السلام) کے ساتھ نکلیں قریش سے بچائو کے لئے کہ وہ کہیں جنگ کا ارادہ نہ کرلیں یا آپ علیہ اسلام کو بیت اللہ سے روک دیں تو آپ (علیہ السلام) نے عمرہ کا احرام باندھا اور اپنے ساتھ ہدی کو ہانکا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ آپ (علیہ السلام) جنگ کا ارادہ نہیں رکھتے تو اس سفر سے بہت سے بدو لوگ بوجھل ہوگئے اور پیچھے رہ گئے اور مصروفیات کے عذر بیان کیے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں آیت نازل کی ” سیقول لک المخلفون من الاعراب “ یعنی وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے آپ (علیہ السلام) کی صحبت سے پیچھے کردیا۔ پس جب آپ (علیہ السلام) اپنے سفر سے ان کی طرف لوٹیں گے تو آپ (علیہ السلام) ان کے پیچھے رہ جانے پر عتاب کریں گے۔ ” شغلتنا اموالنا “ یعنی عورتوں اور اولاد نے یعنی ہمارے لئے کوئی ایسا شخص نہ تھا پیچھے ان کے پاس رہتا۔ ” فاستغفرلنا “ کہ ہم آپ (علیہ السلام) سے پیچھے رہ گئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی تکذیب کی ان کے عذر بیان کرنے میں۔ پس فرمایا ” یقولون بالسنتھم مالیس فی قلوبھم “ استغفار کے معاملہ سے کیوں کہ ان کو پرواہ نہیں کہ نبی کریم ﷺ ان کے لئے استغفار کریں یا نہ کریں۔ ” قل فمن یملک لکم من اللہ شیئا ان اراد بکم ضرا “۔ ” اوارد بکم نفعا “ حمزہ اور کسائی (رح) نے ” ضرا “ ضاد کے پیش کے ساتھ پڑھا ہے اور دیگر حضرات نے اس کے زبر کے ساتھ۔ اس لئے کہ اس کے مقابلہ میں نفع کا ذکر ہے اور نفع ” ضر “ کی ضد ہے۔ یہ اس وجہ سے کہا کہ ان کا گمان تھا کہ ان کا نبی کریم ﷺ کے ساتھ نہ جانا ان سے نقصان کو دور کردے گا اور ان کے لئے جلدی نفع لائے گا ان کے نفس اور اموال کی سلامتی کا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو خبر دی کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں اس میں سے کسی چیز کا ارادہ کرتے تو کوئی اس کے دور کرنے پر قادر نہیں ہے۔ ” بل کان اللہ بما تعملون خبیرا “۔
Top