Tafseer-e-Majidi - Al-Fath : 12
بَلْ ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّنْقَلِبَ الرَّسُوْلُ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ اِلٰۤى اَهْلِیْهِمْ اَبَدًا وَّ زُیِّنَ ذٰلِكَ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ ظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ١ۖۚ وَ كُنْتُمْ قَوْمًۢا بُوْرًا
بَلْ ظَنَنْتُمْ : بلکہ تم نے گمان کیا اَنْ لَّنْ : کہ ہرگز نہ يَّنْقَلِبَ : واپس لوٹیں گے الرَّسُوْلُ : رسول وَالْمُؤْمِنُوْنَ : اور مومن (جمع) اِلٰٓى : طرف اَهْلِيْهِمْ : اپنے اہل خانہ اَبَدًا : کبھی وَّزُيِّنَ : اور بھلی لگی ذٰلِكَ : یہ فِيْ : میں، کو قُلُوْبِكُمْ : تمہارے دلوں وَظَنَنْتُمْ : اور تم نے گمان کیا ظَنَّ السَّوْءِ ښ : بُرا گمان وَكُنْتُمْ : اور تم تھے، ہوگئے قَوْمًۢا بُوْرًا : ہلاک ہونیوالی قوم
اصل یہ ہے کہ تم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ رسول اور مومنین اپنے گھر والوں میں لوٹ کر کبھی نہیں آئیں گے اور یہ بات تمہارے دلوں کو خوش نما بھی معلوم ہوئی تھی، اور تم نے برے برے گمان قائم کئے اور تم برباد ہونے والے لوگ ہوگئے،14۔
14۔ یعنی اپنے ان خیالات کفریہ کی بناء پر ہر طرح مستحق عذاب وہلاکت ہوگئے۔ (آیت) ” بل قلوبکم “۔ یعنی تم اس خیال میں مگن تھے کہ اب کی سردارن مکہ ان بےسرو سامان مسلمانوں کا بالکل قلع قمع ہی کردیں گے۔ اور انہیں زندہ سلامت واپس ہی نہ آنے دیں گے۔ (آیت) ” ظننتم ..... قلوبکم “۔ خطاب منافقین کو ہے۔ (آیت) ” وظننتم ظن السوء “۔ حق تعالیٰ سے بدگمانیاں یہی تھیں کہ اب کفر وشرک کو فروغ ہوگا، اور اسلام کی بات نیچی ہوجائے گی۔
Top