Anwar-ul-Bayan - Al-Fath : 12
بَلْ ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّنْقَلِبَ الرَّسُوْلُ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ اِلٰۤى اَهْلِیْهِمْ اَبَدًا وَّ زُیِّنَ ذٰلِكَ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ ظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ١ۖۚ وَ كُنْتُمْ قَوْمًۢا بُوْرًا
بَلْ ظَنَنْتُمْ : بلکہ تم نے گمان کیا اَنْ لَّنْ : کہ ہرگز نہ يَّنْقَلِبَ : واپس لوٹیں گے الرَّسُوْلُ : رسول وَالْمُؤْمِنُوْنَ : اور مومن (جمع) اِلٰٓى : طرف اَهْلِيْهِمْ : اپنے اہل خانہ اَبَدًا : کبھی وَّزُيِّنَ : اور بھلی لگی ذٰلِكَ : یہ فِيْ : میں، کو قُلُوْبِكُمْ : تمہارے دلوں وَظَنَنْتُمْ : اور تم نے گمان کیا ظَنَّ السَّوْءِ ښ : بُرا گمان وَكُنْتُمْ : اور تم تھے، ہوگئے قَوْمًۢا بُوْرًا : ہلاک ہونیوالی قوم
بات یہ ہے کہ تم لوگ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ پیغمبر اور مومن اپنے اہل و عیال میں کبھی لوٹ کر آنے ہی کے نہیں اور یہی بات تمہارے دلوں کو اچھی معلوم ہوئی اور (اسی وجہ سے) تم نے برے برے خیال کئے اور (آخر کار) تم ہلاکت میں پڑگئے
(48:12) بل ظننتم : بل حرف اضراب ظننتم ماضی جمع مذکر۔ ظن (باب نصر) مصدر سے۔ تم نے خیال کیا۔ تم نے یقین جانا۔ بات صرف یہی نہیں تھی کہ تم کو تمہارے اموال و اہل و عیال نے مشغول رکھا۔ یا تم اہل مکہ سے لڑنے سے کراتے تھے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ تم یہ یقین بھی کر رکھا تھا (کہ رسول اور اس کے ہمراہی مومن کبھی لوٹ کر اپنے گھروں کو نہیں آئیں گے) ان لن ینقلب الرسول والمؤمنون الی اہلیہم ابدا : ان مصدریہ ینقلب مضارع منفی تاکید بلن۔ صیغہ واحد مذکر غائب (یہاں جمع کے لئے استعمال ہوا ہے) منصوب بوجہ عمل لن۔ انقلاب (انفعال) مصدر بمعنی لوٹنا۔ وہ ہرگز نہیں لوٹے گا۔ ابدا ہمیشہ، زمانہ مستقبل غیر محدود۔ ظرفیت کی وجہ سے منصوب ہے۔ تاکید کے لئے آیا ہے۔ زین۔ ماضی مجہول واحد مذکر غائب۔ تزیین (تفعیل) مصدر۔ وہ سنوارا گیا۔ مزین کیا گیا۔ وہ اچھا دکھایا گیا۔ تزیین سنوارنا۔ آراستہ کرنا۔ زینت دینا۔ ذلک : ای ظنہم ان لن ینقلب الرسول والمؤمنون الی اہلیہم ابدا : ان کا یہ ظن کہ رسول اور اس کے ہمراہی مومن کبھی لوٹ کر اپنے گھروں کو نہیں آئیں گے۔ وظننتم ظن السوء اور تم نے بڑے بڑے گمان کئے تھے۔ یعنی تم نے خیال کیا تھا کہ محمد ﷺ اور ان کے ساتھی مشرکوں کا لقمہ بن جائیں گے اسی طرح اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے متعلق برے برے گمان کر رکھے تھے۔ وکنتم قوما بورا موصوف و صفت مل کر کان کی خبر۔ بورا ہلاک ہونے والے۔ بائر کی جمع ہے۔ جس کے معنی ہلاک ہونے والے ہیں۔ جو شخص حیران و پریشان ہو کہ نہ کسی کا کہنا سنے نہ کسی کی طرف متوجہ ہو ایسے شخص کے لئے عرب بولتے ہیں رجل حائر بائر۔ اور ایسی قوم کو کہتے ہیں قوم حور بور۔ پس جیسے حور حائر کی جمع ہے ایسے ہی بور بائر کی جمع ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ بور مصدر ہے اور واحد اور جمع دونوں کی صفت میں بولا جاتا ہے چناچہ رجل بور اور قوم بور بولتے ہیں صاحب ضیاء القرآن حاشیہ میں فرماتے ہیں :۔ علامہ جوہری ” لفظ بور کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں : البور : الرجل الفاسد الھالک الذی لاخیر فیہ۔ یعنی بور اس شخص کو کہتے ہیں جو فاسد اور تباہ حال ہو جس میں نیکی اور بھلائی چناچہ عبداللہ بن العزبعری جب مشرف باسلام ہوئے تو بارگاہ رسالت میں عرض کیا :۔ یارسول الملیک ان لسانی راتق ما فتقت اذا نابور۔ یعنی اے مالک الملک کے رسول جب میں گمراہ اور تباہ حال تھا اس وقت میری زبان نے جو چاک کئے اب میں ان کو سینا اور رفو کرنا چاہتا ہوں “۔ یہ مؤنث کی صفت بھی واقع ہوتا ہے : کہتے ہیں امرأۃ بور تباہ حال عورت جمع کے لئے بھی قوم بور ای ہلکی۔ یعنی اجڑی ہوئی قسم۔ اس کے بعد جوہری لکھتے ہیں کہ بعض نے کہا ہے کہ بور جمع ہے اس کا واحد بائر ہے۔ مثل حائل و ھول لیکن اخفش نے اس کی تردید کی ہے۔
Top