Tafseer-e-Baghwi - Al-An'aam : 14
قُلْ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ هُوَ یُطْعِمُ وَ لَا یُطْعَمُ١ؕ قُلْ اِنِّیْۤ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ وَ لَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَغَيْرَ : کیا سوائے اللّٰهِ : اللہ اَتَّخِذُ : میں بناؤں وَلِيًّا : کارساز فَاطِرِ : بنانے والا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : زمین وَهُوَ : اور وہ يُطْعِمُ : کھلاتا ہے وَلَا يُطْعَمُ : اور وہ کھاتا نہیں قُلْ : آپ کہ دیں اِنِّىْٓ اُمِرْتُ : بیشک مجھ کو حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَكُوْنَ : میں ہوجاؤں اَوَّلَ : سب سے پہلا مَنْ : جو۔ جس اَسْلَمَ : حکم مانا وَ : اور لَا تَكُوْنَنَّ : تو ہرگز نہ ہو مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : شرک کرنے والے
کہو کیا میں خدا کو چھوڑ کر کسی اور کو مددگار بناؤں کہ (وہی تو) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی (سب کو) کھانا دیتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا۔ (یہ بھی) کہہ دو کہ مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ میں سب سے پہلے اسلام لانے والا ہوں اور یہ کہ تم (اے پیغمبر ﷺ مشرکوں میں نہ ہونا۔
آیت نمبر 17, 16, 15, 14 تفسیر :(قل اغیر اللہ اتخذ ولیا) جب نبی کریم ﷺ کو آپ کے آبائواجداد کے دین کی طرف بلایا گیا تو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اے محمد ! ( ﷺ) آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کے سوا کسی کو میں اپنا رب اور معبود اور مدد گار بنائوں ؟ (فاطرالسموت والارض) یعنی ان کا خالق اور ایجاد کرنے والا ہے۔ ( وھوا یطعم والا یطعم) یعنی وہ رزق دیتا ہے اس کو رزق نہیں دیا جاتا۔ جیسا کہ خود دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، میں ان سے کسی رزق کا ارادہ نہیں کرتا اور نہ یہ ارادہ کرتا ہوں کہ وہ مجھے کھانا کھلائیں۔ ( قل انی امرت انی اکون اول من اسلم) یعنی اس امت میں سے اور اسلام یہاں اللہ کے حکم کے آگے سرجھکانے کے معنی میں ہے ( ولا تکونن) یعنی مجھے یہ بھی کہا گیا ہے کہ تو ہرگز نہ ہو ( من المشرکین) ۔ (قل انی اخاف ان عصیت ربی) ک کہ اس کے غیر کی عبادت کروں ( عذاب یوم عظیم) یعنی قیامت کے دن کے عذاب سے۔ (من یصرف عنہ) یعنی جس سے وہ عذاب ٹال دیا گیا۔ حمزہ اور کسائی اور ابوبک نے عاصم اور یعقوب سے روایت کرکے ” یصرف “ یاء کے زبر اور راء کی زیر کے ساتھ پڑھا ہے یعنی جس سے اللہ عذاب ٹال دیتے ہیں تو اس پر رحم کیا اور باقی حضرات نے یاء کے پیش اور راء کے زبر کے ساتھ پڑھا ہے (یومئذ) یعنی قیامت کے دن ( فقد رحمہ ط وذلک الفوز المبین) یعنی واضح نجات۔ (وان یمسسک اللہ بضر فلا کاشف لہ الا ھو ط وان یمسسک بخیر فھو علی کل شیء قدیر) خیر اور نقصان میں سے۔ اللہ کے احکام کی حفاظت کرنے والے کی حفاظت اللہ تعالیٰ کرتا ہے ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا نبی کریم ﷺ کو ایک خچر کسریٰ نے ہدیہ کیا تو آپ (علیہ السلام) بالوں کی ایک رسی ڈال کر اس پر سوار ہوئے اور مجھے اپنے پیچھے سوار کیا اور تھوڑا سا چلے پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا اے لڑکے ! میں نیکہا میں حاضر ہوں اے اللہ کے رسول ! (ﷺ) آپ (علیہ السلام) نے فرمایا تو اللہ کی حفاظت کر وہ تیری حفاظت کرے گا تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت کر اللہ کو اپنے سامنے پائے گا تو اللہ کو پہچان آسودگی میں وہ تجھے پہچانے گا سختی اور تنگی میں اور جب تو سوال کرے تو صرف اللہ سے سوال کر اور جب تو مدد طلب کرے تو صرف اللہ سے مدد طلب کر اور تحقیق قلم جاری ہوچکا ان چیزوں پر جو آگے ہوں گی اگر تمام مخلوق کوشش کرے کہ تجھے نفع دے اس چیز کا جو اللہ نے تیرے لیے فیصلہ نہیں کیا تو وہ اس پر قادر نہیں ہیں اور اگر تمام مخلوق کوشش کرے کہ تجھے وہ نقصان دے جو اللہ تعالیٰ نے تجھ پر نہیں لکھا تو وہ اس پر قادر نہیں۔ اگر تو طاقت رکھتا ہے کہ تو صبر کرے یقین کے ساتھ تو ایسا کر اگر طاقت نہیں رکھتا تو صرف صبر کر کیونکہ ناپسند چیز پر صبر کرنے میں بہت بڑی بھلائی ہے اور بیشک کشادگی تکلیف کے ساتھ آتی ہے اور تنگی کے ساتھ آسانی آتی ہے۔
Top