Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 14
قُلْ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ هُوَ یُطْعِمُ وَ لَا یُطْعَمُ١ؕ قُلْ اِنِّیْۤ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ وَ لَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَغَيْرَ : کیا سوائے اللّٰهِ : اللہ اَتَّخِذُ : میں بناؤں وَلِيًّا : کارساز فَاطِرِ : بنانے والا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : زمین وَهُوَ : اور وہ يُطْعِمُ : کھلاتا ہے وَلَا يُطْعَمُ : اور وہ کھاتا نہیں قُلْ : آپ کہ دیں اِنِّىْٓ اُمِرْتُ : بیشک مجھ کو حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَكُوْنَ : میں ہوجاؤں اَوَّلَ : سب سے پہلا مَنْ : جو۔ جس اَسْلَمَ : حکم مانا وَ : اور لَا تَكُوْنَنَّ : تو ہرگز نہ ہو مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : شرک کرنے والے
آپ کہیے کہ کیا میں اللہ کے سوا جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ (سب) کو کھلاتا ہے (خود) اس کو کھلایا نہیں جاتا، کسی (اور) کو کار ساز قرار دے لوں ؟ ،20 ۔ آپ کہہ دیجیے کہ مجھے تو یہ حکم ملا ہے کہ میں سب سے پہلے اسلام قبول کروں اور (یہ کہ) تم کہیں مشرکوں میں نہ ہوجانا،21 ۔
20 ۔ (جیسا کہ بدبخت مشرکوں نے قرار دے لیا ہے) (آیت) ” فاطر السموت والارض “۔ آسمان و زمین اور ساری کائنات کو محض اپنے ارادہ سے بغیر روح، مادہ، ہیولی کے سہارے کے نیست سے ہست میں لانے والا، فاطر کا لفظ اس ساری مشرک ونیم مشرک قوموں کی تردید کررہا ہے، جو اللہ کو محض ایک صانع کی حیثیت دیتے ہیں۔ فاطر کے معنی مبدع کے ہیں اور فعل فطر ابتداء کرنے کے لئے آتا ہے، فطرای ابدع وفطرنا ای ابدعنا واوجدنا (راغب) وعن ابن عباس ؓ قال ما عرفت فاطر السموت حتی اتانی اعرابیان یختصمان فی بئر فقال احدھما انا فطرتھا ای ابتدا تھا (کبیر) ای خالقھا ومبدعھا ومبتدءھا (معالم) (آیت) ” السموت والارض “۔ آسمان و زمین کا خصوصیت سے نام لینے کی ایک وجہ تو ظاہر ہی ہے کہ بادی النظر میں کائنات کی عظیم ترین مخلوقات یہی ہیں، دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی مشرک قوموں نے انہیں دیوتا ضرور تسلیم کیا ہے۔ یہاں گویا مشرکوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ تم جنہیں معبود مان رہے ہو، اللہ ان کا بھی خالق، انہیں نیست سے ہست میں لانے والا ہے۔ (ملاحظۃ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی) (آیت) ” ھویطعم “۔ ساری مخلوق کے لیے، ساری کائنات حیات کے لیے رزق کا سامان وہی اللہ بہم پہنچاتا ہے۔ (آیت) ” ولا یطعم “۔ یہ بھی ضرب ہے عقیدہ شرک پر مشرک قوموں کے عقیدہ میں بڑے بڑے دیوتا بھی کھانے پینے کے محتاج ہیں۔ ان کے نام پر جو چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں۔ انہیں کھاپی کر وہ زندگی بسر کرتے ہیں، اور مسیحیوں نے تو اس سے بھی بڑھ کر کمال ہی کردیا کہ نعوذ باللہ اپنے معبود ” ابن اللہ “ کا گوشت اور خون خود کھانا پینا شروع کردیا، چناچہ مقدس عشائے ربانی Eucharist کے تہوار کے موقع پر ہر سال ایک بار یا تین بار اس رسم کو تازہ کرتے رہے ہیں۔ (ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی) 21 ۔ ایمان اور مقتضیات ایمان سے پیغمبر مستثنی نہیں ہوتا۔ سب سے پہلے تو اسی کو فرمان بردار بننے کا حکم ملتا ہے۔ اور پیغمبر تو اپنی امت کے لئے نمونہ اور پیشوا دونوں کا کام دیتا ہے۔ اسے تو اہل ایمان کی صف میں سب سے آگے ہونا ہی چاہیے وھو امام امتہ ومقتدھم وینبغی لکل امر ان یکون ھو العامل اولا بما امر بہ (روح) (آیت) ” اول من اسلم “۔ یہ اولیت اپنے ملک وقوم اور اپنے زمانہ کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ اول من اخلص ای من قومی و امتی عن الحسن وغیرہ (قرطبی) لان النبی ﷺ سابق امتہ فی الدین (بیضاوی) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ تکالیف شرعیہ کسی سے بھی ساقط نہیں ہوتیں، یہاں تک کہ انبیاء سے۔
Top