Tafseer-e-Baghwi - At-Tawba : 109
اَفَمَنْ اَسَّسَ بُنْیَانَهٗ عَلٰى تَقْوٰى مِنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٍ خَیْرٌ اَمْ مَّنْ اَسَّسَ بُنْیَانَهٗ عَلٰى شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهٖ فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
اَفَمَنْ : سو کیا وہ جو اَسَّسَ : بنیاد رکھی اس نے بُنْيَانَهٗ : اپنی عمارت عَلٰي : پر تَقْوٰى : تقوی (خوف) مِنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَرِضْوَانٍ : اور خوشنودی خَيْرٌ : بہتر اَمْ : یا مَّنْ : جو۔ جس اَسَّسَ : بنیاد رکھی بُنْيَانَهٗ : اپنی عمارت عَلٰي : پر شَفَا : کنارہ جُرُفٍ : کھائی ھَارٍ : گرنے والا فَانْهَارَ : سو گر پڑی بِهٖ : اسکو لے کر فِيْ : میں نَارِ جَهَنَّمَ : دوزخ کی آگ وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
بھلا جس شخص نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اس کی رضامندی پر رکھی وہ اچھا ہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد گر جانے والی کھائی کے کنارے پر رکھی کہ وہ اس کو دوزخ کی آگ میں لے گری ؟ اور خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
تفسیر آیت نمبر 109: ” افمن اسس بنیا نہ علی تقوی من اللہ ورضوان خیر ام من اسس بنیانہ علی شفا جرف “ ابن عمر و اور حمزہ اور ابوبکر رحمہم اللہ نے راء کے سکون کے ساتھ اور باقی حضرات نے راء کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے یہ دونوں لغتیں فصیح ہیں۔ جرف ایسا کنواں جس کی منڈیر نہ ہو ” ھار “ یعنی ہائر اور بمعنی وہ گرنے والا ہے۔ ” فانھار بہ یعنی بنانے والے ساتھ گرپڑے فی نار جھنم “ مراد یہ ہے کہ اس مسجد ضرار کو تعمیر کرنا جہنم کے کنارے پر تعمیر کی طرح ہے وہ اپنے اوپر آباد لوگوں کے ساتھ جہنم میں گرجائے گا۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ ان کا نفاق ان کو جہنم میں لے جائے گا ” واللہ لا یھدی القوم الظلمین “
Top