Tafseer-e-Baghwi - At-Tawba : 110
لَا یَزَالُ بُنْیَانُهُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَةً فِیْ قُلُوْبِهِمْ اِلَّاۤ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
لَا يَزَالُ : ہمیشہ رہے گی بُنْيَانُھُمُ : ان کی عمارت الَّذِيْ : جو کہ بَنَوْا : بنیاد رکھی رِيْبَةً : شک فِيْ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل اِلَّآ : مگر اَنْ تَقَطَّعَ : یہ کہ ٹکڑے ہوجائیں قُلُوْبُھُمْ : ان کے دل وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں (موجب) خلجان رہے گی (اور ان کو متردد رکھے گی) مگر یہ کہ انکے دل پاش پاش ہوجائیں اور خدا جاننے والا حکمت والا ہے۔
تفسیر آیت نمبر 110:” لا یزال بنیا نھم الذی بنواریبۃ شک اور نفاق کے طور پر فی قلوبھم “ وہ خیال کرتے تھے کہ وہ اس مسجد کو بنا کر نیک کام کررہے ہیں جیسے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کو بچھڑے کی بڑ ی محبت تھی۔ یہ تفسیر ابن عباس ؓ نے بیان کی ہے اور کلبی (رح) فرماتے ہیں کہ حسرت اور ندامت ہے کیونکہ وہ اس کی تعمیر پر نادم تھے اور سدی (رح) فرماتے ہیں کہ ان کی تعمیر کا گرنا شک اور غصہ کا سبب ہے ان کے دلوں میں۔” الآ ان تقطع قلوبھم “ یعنی ان کے دل پھٹ جائیں اور وہ مرجائیں۔ اور ابن عامر ‘ ابو جعفر ‘ حفص اور حمزہ رحمہما اللہ نے ” تقطع “ تاء کے زبر کے ساتھ پڑھا ہے یعنی ” تقطع “ تو دو تاء میں سے ایک کو حذف کیا گیا ہے تخفیف کی غرض سے اور دیگر حضرات نے ” تقطع “ تاء کے پیش کے ساتھ تقطیع سے پڑھا ہے اور صرف یعقوب (رح) نے ” الی ان “ لام کی تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے غایت ہونے کی بناء پر اور دیگر حضرات نے ” الا ان “ لام کی شد کے ساتھ استثناء کی بناء پر پڑھا ہے اور یعقوب کی قرأت پر ضحاک اور قتادہ رحمہما اللہ کی تفسیر دلالت کرتی ہے کہ وہ ہمیشہ اس سے شک اور شرمندگی میں رہیں گے یہاں تک کہ جب وہ مریں گے تو اس وقت ان کو یقین آجائے گا۔” واللہ علیم حکیم “
Top