لغات القرآن۔
ویل۔ خرابی۔ بربادی۔ ھمزۃ۔ طعنے دینے والا۔ لمزۃ۔ عیب تلاش کرنے والا۔ عدد۔ اس نے گنا۔ اخلد۔ ہمیشہ رہے گا۔ لینبذن۔ البتہ ضرور پھینکا جائے گا۔ الموقدۃ۔ بھڑکائی گئی۔ تطلع۔ جا پہنچے گی۔ عمد۔ ستون۔ ممددۃ۔ لمبے لمبے۔
تشریح : دین اسلام میں حلال اور جائز طریقے سے مال و دولت حاصل کرنے، سرمایہ رکھنے اور سرمایہ دار کہلانے کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ بلکہ اگر مال و دولت اللہ کی رضا و خوشنودی اور اس کے بندوں کی خدمت اور مدد کے لئے ہو تو یہ ایک بہت بڑی نیکی ہے۔ البتہ دین اسلام نے اس سرمایہ پرستی کو حرام قرار دیا ہے جس کا مقصد صرف ذاتی آرام و سکون اور دوسروں کو ستانا اور بداخلاقیوں کو عام کرنا ہے۔
سرمایہ پرستی سے معاشرہ میں بدترین اخلاقی کمزوریاں پیدا ہوجاتی ہیں مثلاً اپنے علاوہ ہر ایک کو کم تر اور حقیر و ذلیل سمجھنا، ان کو طرح طرح کے طعنے دینا، ان کی کمزوریوں کو اچھالنا، سامنے اور پیٹھ پیچھے اس طرح ذکر کرنا کہ ایک غریب اور شریف آدمی بدنام ہو کر رہ جائے۔ دوسری خرابی یہ پیدا ہوتی ہے کہ آدمی کے پاس جتنا سرمایہ جمع ہوتا جاتا ہے اس میں اسی قدر مزید حاصل کرنے کا لالچ اور کنجوسی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ وہ کسی ضرورت مند کی مدد نہیں کرتا، اپنے مال کو گن گن کر رکھتا ہے۔ اس کی حفاظت کے ہزاروں جتن کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ یہ مال و دولت، اونچی بلڈنگیں اور اعلیٰ ترین سواریاں ہمیشہ اس کے پاس رہیں گی۔
حالانکہ یہ دولت دنیا کی سب سے بےوفا چیز ہے آج اس کے پاس کل دوسرے کے پاس وہ مال و دولت جو (نیکی اور بھلائی کے لئے خرچ نہ کی جائے) اس کے قبر میں بھی کام نہیں آتی سارے ٹھاٹ باٹھ موت کے ایک جھٹکے سے ختم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ جب وہ اس دنیا ہی میں کام نہ آئی تو آگے کی منزلوں میں کیا کام آئے گی ؟ البتہ اگر کسی نے مال و دولت اپنے بال بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے، انسانیت کی بھلائی اور خیر کیلئے کمایا ہے اور اللہ نے اس پر جتنے فرائض مقرر کئے ہیں ان کو بھی ادا کرتا ہے تو یہ مال و دولت اس کے اس دنیا میں بھی کام آتا ہے، قبر کی روشنی اور آخرت میں نجات کا سامان بھی بن جائے گا۔
سورۃ الھمزہ میں ایسے کنجوس سرمایہ پرستوں کے دو بڑے بڑے عیبوں کا ذکر فرمایا ہے جو ان کو تبارہ کرکے رکھ دیتے ہیں۔
1۔ ہمزہ۔ 2۔ لمزہ۔
ھمزہ کے معنی ہیں پیٹھ پیچھے کسی کے عیب اور کمزوریوں کو باتوں اور اشاروں سے بیان کرنا، غیبت اور چغل خوری کرنا، مذاق آرانا، پھبتیاں کسنا، بدنام کرنا، بےگناہ پر الزام لگانا یہ سب باتیں اللہ کو سخت ناپسند ہیں جو آخر کار اس کو جہنم تک پہنچا کر چھوڑیں گی۔
لمزہ کے معنی ہیں کسی کے منہ پر اس کو طعنے دینا، ذلیل و رسوا کرنا، برا کہنا، کسی کے جذبات و احساسات کا خیال نہ کرنا، کسی غریب اور مجبور کو اس طرح ذلیل و خوار کرنا کہ وہ خود ہی اپنی نظروں میں اور دوسروں کی نظروں میں حقیر اور بےعزت بن کر رہ جائے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ھمزہ اور لمزہ دونوں ایسے عیب ہیں جنہیں اللہ پسند نہیں کرتا۔ اس کے برخلاف مومن سرمایہ دار کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر طرح کی عیب جوئی، غیبت، چغل خوری، الزام ترازی اور کسی کے دل کو دکھانے کو گناہ سمجھتا ہے اور اپنی دولت کو دین کی سربلندی پر خرچ کرتا ہے اور خرچ کرکے کسی پر احسان بھی نہیں رکھتا۔ یہ عادت اور خصلت اللہ کو بہت پسند ہے جو دنیا اور آخرت میں اس کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مومن کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ نہ تو کسی کو طعنے دیتا ہے نہ لعنت کرتا ہے نہ فحش بکتا ہے اور نہ بےحیائی کرتا ہے۔ (ترمذی) ۔
جب نبی کریم ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا اور کفار قریش کو ان کی بری روش، رسموں اور بتوں کی عبادت و بندگی سے روکنے کی کوشش کی تو ابتداء میں آپ کا مذاق اڑایا گیا، طعنے دئیے گئے اور دین کے لئے رکاوٹ بننا شروع ہوئے پھر قریش کے سرمایہ پرستوں نے اپنی ذھنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ھمزہ اور لمزہ کا پیکر بن کر اہل ایمان کو ہر طرح ستانا شروع کیا اور پھر نبی کریم ﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام ؓ پر رعب کی سرزمین کو تنگ کردیا۔ اللہ نے کفار قریش اور قیامت تک آنے والے سرمایہ پرستوں سے فرمایا ہے کہ وہ عیب نکالنے، طعنے دینے اور مال کو گن گن کر رکھنے اور یہ سمجھنے سے باز رہیں کہ یہ مال و دولت ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گا۔ اگر انہوں نے اپنی روش کو نہ بدلا تو تو ان کو ” حطمہ “ میں پھینکا جائے گا اور وہاں ان کا مال اور ان کی دولت ان کے کسی کام نہ آسکے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تمہیں معلو ہے کہ ” حطمہ “ کیا ہے ؟ فرمایا کہ وہ ایسی آگ ہے جو کافروں کے دلوں تک جا پہنچے گی پھر اس جہنم کو اوپر سے بند کردیا جائے گا وہ کفار مشرکین لمبے لمبے ستونوں سے باندھ دئیے جائیں گے یا اس جہنم کی آگ کی لپیٹیں لمبے لمبے ستونوں کی طرح شعلے مار رہی ہوں گی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس جہنم سے محفوظ فرمائے اور سرمایہ پرستی کی لعنت سے محفوظ رکھے۔ آمین