Baseerat-e-Quran - Hud : 58
وَ لَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا هُوْدًا وَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا١ۚ وَ نَجَّیْنٰهُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ
وَلَمَّا : جب جَآءَ : آیا اَمْرُنَا : ہمارا حکم نَجَّيْنَا : ہم نے بچا لیا هُوْدًا : ہود وَّالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے مَعَهٗ : اس کے ساتھ بِرَحْمَةٍ : رحمت سے مِّنَّا : اپنی وَنَجَّيْنٰهُمْ : اور ہم نے بچا لیا مِّنْ : سے عَذَابٍ : عذاب غَلِيْظٍ : سخت
اور جب ہمارا حکم پہنچ گیا تو ہم نے ھود کو اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لے آئے تھے اپنی رحمت سے ان کو ایک سخت عذاب سے بچا لیا
لغات القرآن آیت نمبر 58 تا 60 امرنا (ہمارا حکم، ہمارا فیصلہ ) غلیظ (سخت) جحدوا (انہوں نے انکار کیا) عصوا (انہوں نے انکار کیا) عصوا (انہوں نے نافرمانی کی، کہا نہ مانا) اتبعوا (وہ پیچھے لگ گئے۔ انہوں نے اتباع کی) اتبعوا (وہ پیچھے لگ گئے، انہوں نے اتباع کی) جبار (زبردست، ضدی) عنید (ہٹ دھرم لوگ) اتبعوا (پیچھے لگا دی گئی) لعنۃ (لعنت، اللہ کی رحمت سے دوری ) تشریح : آیت نمبر 58 تا 60 گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ” قوم عاد “ کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ” قوم عاد “ جو کئی ہزار کی تعداد میں تھے اور دنیاوی اعتبار سے خوش حال اور جسمانی لحاظ سے نہایت مضبوط واقع ہوئے تھے جب انہوں نے اللہ کی نافرمانی اور اپنے نبی کی اطاعت کا انکار کیا اور کفر و شرک میں انتہا تک پہنچ گئے تب اللہ نے ان پر اپنا عذاب نازل کیا اور اتنی مضبوط قوم کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ حضرت ہود اس قوم کو توحید و رسالت کی طرف متوجہ کرتے رہے مگر وہ قوم اپنی باغیانہ روش سے باز نہ آئی بالآخر اللہ کا وہ فیصلہ آگیا جو قوموں پر ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے نافذ کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم کی سورة اعراف میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ سات راتوں اور آٹھ دنوں تک آندھی کا ایسا زبردست طوفان آیا جس نے ان کی آبادیوں کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑ پھینکا، ان کے عالی شان مکانات گر گئے ، تیز ہواؤں کی وجہ سے چھتیں اڑ گئیں، درخت جڑوں سے اکھڑ گئے ایک ایسی زہریلی ہوا چلائی گئی جو کہ ان کی ناک میں داخل ہو کر ان کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتی تھی۔ اس طرح یہ قوم اپنے کفر و شرک اور بد اعمالیوں کی وجہ سے تاریخ انسانی میں ” عبرت “ کا نشان بن کر رہ گئی۔ اس کے برخلاف اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود اور ان لوگوں کو نجات عطا فرما دی جو اللہ تعالیٰ کی توحید اور رسولوں کی رسالت پر ایمان لے آئے تھے۔ اگرچہ قوم عاد میں صرف حضرت ہود ہی پیغمبر بنا کر بھیجے گئے تھے مگر چونکہ انبیاء کرام کا سلسلہ تو ابتدائے کائنات ہی سے جاری ہے اسی لئے ” رسل “ فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ ایک رسول کی اطاعت کا انکار درحقیقت تمام انبیاء کرام کا انکار ہوتا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے قوم عاد کے اہل ایمان کو نجات عطا فرما دیا ور نافرمانوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا گیا۔ ان آیات میں قرآن کریم کے مخاطب اول کفار و مشرکین مکہ کو بتایا جا رہا ہے کہ قوموں کی زندگی میں ان کا اچھا اور نیک کردار آنے والی نسلوں کے لئے باعث عبرت و نصیحت ہوا کرتا ہے۔ تاریخ انسانی گواہ ہے کہ اللہ نے صرف ان ہی لوگوں کو نجات عطا فرمائی ہے جو انبیاء کرام کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو نافرمانی اور بغاوت کا راستہ اختیار کرتے ہیں ان کو کبھی نجات نہیں ملتی اور ان کی دنیاوی طاقت و قوت ان کے کسی کام نہیں آسکتی۔ فرمایا جا رہا ہے کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ جس پیغام الٰہی کو پہنچا رہے ہیں اگر ان کی اطاعت نہ کی گئی اور کفار مکہ اپنی باغیانہ روش سے باز نہ آئے تو وہ بھی کسی عبرت ناک انجام سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ سیرت نبوی ﷺ کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے صدقے میں اب وہ عذاب تو اس امت پر نہیں آئیں گے جو گزشتہ امتوں پر آئے تھے لیکن عذاب کی وہ شکلیں ضرور سامنے آئیں گی جو کفار و مشرکین کے وجود کو نشان عبرت بنانے کے لئے کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ اور آپ پر ایمان لانے والوں کو نہ صرف نجات عطا فرمائی بلکہ دین و دنیا کی تمام بھلائیاں عطا فرما کر ان کو ساری دنیا کا مقتدا اور پیشوا بنا دیا۔
Top