Tafseer-e-Mazhari - An-Naml : 25
اَلَّا یَسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِیْ یُخْرِجُ الْخَبْءَ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ یَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَ
اَلَّا : کہ نہیں يَسْجُدُوْا لِلّٰهِ : وہ سجدہ کرتے اللہ کو الَّذِيْ : وہ جو يُخْرِجُ : نکالتا ہے الْخَبْءَ : چھپی ہوئی فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَيَعْلَمُ : اور جانتا ہے مَا تُخْفُوْنَ : جو تم چھپاتے ہو وَمَا : اور جو تُعْلِنُوْنَ : تم ظاہر کرتے ہو
(اور نہیں سمجھتے) کہ خدا کو آسمانوں اور زمین میں چھپی چیزوں کو ظاہر کردیتا اور تمہارے پوشیدہ اور ظاہر اعمال کو جانتا ہے کیوں سجدہ نہ کریں
الا یسجدوا للّٰہ الذی یخرج الخبء فی السموت والارض . کہ اللہ کو سجدہ نہیں کرتے (جو قادر ہے کہ) آسمانوں کی اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کو برآمد کرتا ہے۔ اَلاَّ یَسْجُدُوْا۔ اَلاَّ اصل میں اَنْ لا تھا۔ اَنْ مصدر یہ لا نافیہ حرف جر اَنْ سے پہلے محذوف ہے یعنی لِاَنْ لاَ یَسْجُدُوْا۔ مطلب یہ ہے کہ شیطان نے ان کو راہ حق سے روک دیا ہے کہ وہ اللہ کو سجدہ نہیں کرتے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لا زائد ہو اور اس کا تعلق لاَ یَہْتَدُوْنَ سے ہو یعنی وہ اللہ کو سجدہ کرنے کی راہ نہیں پاتے۔ خبأ بمعنی مخبوء (اسم مفعول) کے معنی میں ہے یعنی پوشیدہ اور اخراج سے مراد ہے اظہار۔ اکثر اہل تفسیر کہتے ہیں کہ خَبْاء السَّمٰوٰتِ بارش اور خَبْاءُ الْاَرْضِ سبزہ ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آسمان و زمین کی چھپی ہوئی چیزوں کا علم مراد ہے۔ لفظ خباء اور اخراج عام ہے۔ ستاروں کا نکالنا ‘ بارش کا برسانا ‘ زمین سے سبزہ اگانا ‘ ہر چیز کا پردہ قوت سے میدان فعلیت میں لانا ‘ ہر ممکن اور معدوم کو وجوب و وجود کا جامہ پہنانا سب اخراج خباء کے ذیل میں آتا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسا کرنے والا قادر صرف اللہ ہے جو واجب بالذات ہے لہٰذا صرف وہی سجود کا مستحق ہے۔ ویعلم ما تخفون ما تعلنون . اور وہ جانتا ہے ان باتوں کو جو تم (دلوں میں) چھپاتے ہو اور ان باتوں کو جن کو تم ظاہر کرتے ہو اس لئے ضروری ہے کہ تم ظاہر باطن میں اس کے ساتھ شرک کرنے سے پرہیز رکھو۔
Top