Baseerat-e-Quran - Maryam : 16
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مَرْیَمَ١ۘ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِیًّاۙ
وَاذْكُرْ : اور ذکر کرو فِى الْكِتٰبِ : کتاب میں مَرْيَمَ : مریم اِذِ انْتَبَذَتْ : جب وہ یکسو ہوگئی مِنْ اَهْلِهَا : اپنے گھروالوں سے مَكَانًا : مکان شَرْقِيًّا : مشرقی
(اے نبی ﷺ کتاب (قرآن ) میں مریم کا حال بیان کیجیے۔ جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر ایک مشرقی مکان میں گئیں
لغات القرآن آیت نمبر 16 تا 21 انتبذت الگ ہوگئی۔ حجاب پردہ۔ تمثل ڈھل گیا۔ سوی ٹھیک ٹھیک۔ تقی پرہیز گار۔ اھب میں دوں گا۔ زکی پاک باز، پاکیزہ۔ لم یمسسنی مجھے ہاتھ نہیں لگایا۔ بغنی بدکردار، بدکار، امر معاملہ، کام مقضی فیصلہ کیا گیا۔ طے شدہ۔ تشریح : آیت نمبر 16 تا 21 گزشتہ آیات میں حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے متعلق ارشاد فرمایا گیا تھا کہ ان کی زندگی قدرت کی کھلی ہوئی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کو ایک سو بیس سال کی عمر میں حضرت یحییٰ (علیہ السلام) جیسا بیٹا عطا فرمایا جب کہ ان کی بیوی بانجھ تھیں اور اس بڑھاپے میں اولاد ہونے کا دور دور تک امکان نہ تھا لیکن اللہ نے جو اس کائنات کے ذرے ذرے کا مالک ہے اور ہر طرح کی قدرتیں رکھتا ہے اس نے حضرت زکریا کی دعا کو قبول کرتے ہوئے اس ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ اسی طرح اب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ اللہ نے ان کی زندگی کو ایک نشانی بنا کر ساری دنیا کو بتا دیا کہ وہ اللہ انسانوں کی طرح ظاہری اسباب کا محتاج نہیں ہے۔ اگر وہ چاہے تو بغیر ماں باپ کے حضرت آدم اور حضرت حوا کو پیدا کرسکتا ہے اور بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا کرسکتا ہے قرآن کریم اور احادیث میں اس کی تفصیل یہ ارشاد فرمائی گئی کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کے خاندان میں عمران نام کے ایک شخص تھے جو نہایت عابد و زاہد نیک پرہیز گار تھے اور ان کی بیوی جو حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی حقیقی خالہ تھیں جن کا نام حنہ آتا ہے۔ عمران کی اور ان کی بیوی کی خواہش تھی کہ ان کے ہاں کوئی اولاد پیدا ہوجائے۔ کیونکہ ابھی تک وہ اولاد کی دولت سے محروم تھے۔ ایک مرتبہ حضرت حنہ نے یہ منت مان لی کہ اگر ان کے گھر کوئی اولاد ہوگی تو وہ اس کو بیت المقدس کے لئے وقف کردیں گی۔ اللہ نے ان کی دعا کو قبول فرما لیا اور ان کے گھر میں حضرت مریم پیدا ہوئیں حضرت حنہ اس تصور سے سخت پریشان ہوگئیں کہ ان کے گھر لڑکی پیدا ہوگئی ہے۔ وہ اس کو بیت المقدس کے لئے کیسے وقف کرینگی چونکہ منت مان لی گئی تھی اور اس زمانے میں دستور کے مطابق اس کو ہر حال میں بیت المقدس کے لئے وقف کرنا لازمی اور ایک بہت بڑی نیکی اور بھلائی سمجھا جاتا تھا۔ حسن اتفاق کہ اس وقت بیت المقدس کے بیت المقدس کے لئے کیسے وقف کریں گی چونکہ منت مان لی گئی تھی اور زمانے میں دستور کے مطابق اس کو ہر حال میں بیت المقدس کے لئے وقف کرنا لازمی اور ایک بہت بڑی نیکی اور بھلائی سمجھا جاتا تھا۔ حسن اتفاق کہ اس وقت بیت المقدس کے متولی اور نگران حضرت زکریا علیہ اسلام تھے جو حضرت مریم کے سگے خالو تھے۔ بعض لوگوں کی خواہش تھی کہ وہ حضرت مریم جیسی بچی کو اپنی پرورش میں لے کر نیکی اور سعادت حاصل کریں۔ اختلاف ہونے کی صورت میں قرعہ ڈالا گیا۔ طریقہ یہ تھا کہ ہر شخص پانی کے بہاؤ پر اپنے لکھنے کا قلم ڈالتا تھا۔ جس کا قلم پانی کے بہاؤ کے خلاف جاتا وہ کامیاب سمجھا جاتا۔ چناچہ سب نے اپنے اپنے قلم پانی میں ڈال دیئے حضرت زکریا کے علاوہ سب کے قلم پانی کے بہاؤ کے ساتھ بہہ گئے اور کئی مرتبہ قرعہ اندازی میں کامیابی کے بعد حضرت مریم کو حضرت زکریا علیہ اسلام کی پرورش میں دے دیا گیا۔ بیت المقدس میں ایک کمرہ حضرت مریم کے لئے وقف کردیا گیا تھا دن بھر وہ اس کمرے میں عبادت کرتیں اور رات کو حضرت زکریا ان کو لے کر گھر چلے جاتے تھے۔ جب حضرت مریم کی عمر مبارک بارہ تیرہ سال کی ہوئی تو وہ ہر وقت اللہ کی عبادت اور بندگی میں لگی رہتی تھیں۔ حضرت مریم بچپن ہی سے نہایت پاکیزہ صفت اور نیک تھی اور اللہ کی عبادت اور بندگی کے سوا ان کو کوئی اور کام نہ تھا۔ ایک دن جب کہ حضرت مریم اپنے حجرے میں تھیں یا بعض روایات کے مطابق وہ غسل کرچکی تھیں۔ حضرت جبرئیل خوبصورت انسانی شکل میں ان کے پاس آئے حضرت مریم ایک اجنبی مرد کو دیکھ کر گھبرا گئیں اور اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے کہنے لگیں کہا گر تمہارے دل میں ذرا بھی خوف الٰہی ہے تو یہاں سے چلے جاؤ۔ حضرت مریم کی گھبراہٹ دیکھتے ہوئے حضرت جبرائیل نے اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ تم مت گھبراؤ میں اللہ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔ میں تمہیں ایک لڑکے کی خوشخبری دینے آیا ہوں۔ حضرت مریم نے بےساختہ کہا کہ میرے ہاں بیٹا کیسے ہوگا۔ جبکہ آج تک مجھے کسی مرد نے ہاتھ تک نہیں لگایا ۔ نہ تو میرا نکاح ہوا ہے اور نہ میں برے کردار والی ہوں۔ حضرت جبرائیل نے جواب دیا کہ میں تو اللہ کا یہ پیغام لیکر آیا ہوں جس میں اللہ نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اسی طرح ہو کر رہے گا۔ اللہ کا یہ فیصلہ اس کی قدرت کا ملہ کا اظہار ہے۔ وہ تمہیں اور تمہارے بیٹے کو اپنی قدرت کا نمونہ بنا کر پیش کرنے کا فیصلہ کرچکا ہے اور اس فیصلے پر عمل کرنا اللہ کے لئے بہت آسان ہے کوئی چیز اللہ کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔ اس واقعے کی بقیہ تفصیلات اس سے آگے کی آیات میں آرہی ہیں۔
Top