Tafseer-e-Saadi - Maryam : 16
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مَرْیَمَ١ۘ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِیًّاۙ
وَاذْكُرْ : اور ذکر کرو فِى الْكِتٰبِ : کتاب میں مَرْيَمَ : مریم اِذِ انْتَبَذَتْ : جب وہ یکسو ہوگئی مِنْ اَهْلِهَا : اپنے گھروالوں سے مَكَانًا : مکان شَرْقِيًّا : مشرقی
اور کتاب (قرآن) میں مریم کا بھی مذکور کرو جب وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر مشرق کی طرف چلی گئیں
آیت 16 اللہ تبارک و تعالیٰ نے زکریا اور یحییٰ (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کرنے کے بعد۔۔۔. کہ یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کی عجیب نشانیوں میں سے ہے۔۔۔. ایک اور قصہ بیان فرمایا جو اس سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ یہ ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف تدریج ہے۔ (واذکر فی الکتب) ” اور ذکر کر کتاب میں “ یعنی قرآن کریم میں (مریم) مریم (علیہ السلام) کا۔ یہ مریم علیھا السلام کی سب سے بڑی فضیلت ہے کہ کتاب عظیم میں ان کا نام مذکور ہے جس کی مشرق و مغرب کے تمام مسلمان تلاوت کرتے ہیں۔ اس کتاب عظیم میں بہترین پیرائے میں ان کا ذکر اور ان کی مدح و ثنا بیان کی گئی ہے یہ ان کے اچھے اعمال اور کوشش کامل کی جزا ہے، یعنی کتاب عظیم میں، حضرت مریم علیھا السلام کے بہترین حال کا ذکر کیجئے۔ جب (انتبذت) ” وہ جدا ہوئی “ یعنی جب مریم علیھا السلام اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر (مکانا شرقیا) مشرقی جانب ایک مکان میں گوشہ نشیں ہوگئی تھیں۔ (فاتخت من دونھم حجابا) ” پھر پکڑ لیا ان سے ورے ایک پردہ “ یعنی ایک پردہ ڈال لیا تھا جو لوگوں کی ملاقات سے مانع تھا۔ حضرت مریم علیھا السلام کا گوشہ نشیں ہونا، پردہ لٹکا کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے الگ تھلگ ہوجانا، اخلاص، خشوع و خضوع اور اللہ تعالیٰ کے لئے تذلل کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت دراصل اس ارشاد الٰہی کی تعمیل ہے۔ (واذ قالت الملء آ یمریم ان اللہ اصطفک و طھرک واصطفک علی ناسء العلمین۔ یمریم اقنتی لربک و اسجدی و ارکعی مع الرکعین) (آل عمران : 3 /24۔ 34) ” جب فرشتوں نے (جناب مریم سے) کہا اے مریم ! اللہ نے تجھے چن لیا، تجھے پاکیزگی عطا کی اور تجھے تمام جہانوں کی عورتوں پر ترجیح دے کر چن لیا۔ اے مریم ! اپنے رب کی اطاعت کر، اس کے حضور سجدہ ریز ہو اور جھکنے والوں کے ساتھ تو بھی جھک۔ “ (فارسلنا الیھا روحنا ) ” پس بھیجی ہم نے ان کی طرف اپنی روح “ یہاں روح سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں۔ (فتمثل لھا بشرا سویا) ” پس وہ ان کے سامنے پورا آدمی بن کر آیا “ یعنی ایک خوبصورت اور حسین و جمیل مرد کی شکل میں ظاہر ہوئے، جس میں کوئی عیب تھا نہ نقص، کیونکہ حضرت مریم علیھا السلام جبریل (علیہ السلام) کو ان کی اصل شکل میں دیکھنے کی متحمل نہ تھیں۔ جب مریم علیھا السلام نے جبریل (علیہ السلام) کو اس حال میں دیکھا، جبکہ وہ اپنے گھر سے علیحدہ اور لوگوں سے الگ ہو کر گوشہ نشیں ہوگئی تھیں اور عزیز ترین لوگوں، یعنی اپنے گھر والوں سے بھی پردہ کرلیا تھا۔۔۔. تو ڈر گئیں کہ وہ مرد ہے کہیں وہ ان کے بارے میں کوئی برا ارادہ نہ رکھتا ہو اور کہیں وہ ان کے ساتھ برائی سے پیش نہ آئے تو انہوں نے اس سے اللہ کی پناہ مانگی اور اس سے کہنے لگیں : (انی اعوذ بالرحمن منک) ” میں رحمن کی پناہ مانگتی ہوں تجھ سے “ یعنی میں اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتی ہوں اور اس کی رحمت کے سائے میں آتی ہوں کہ کہیں تو مجھے نقصان نہ پہنچائے۔ (ان کنت تقیا) ” اگر تم متقی ہو۔ “ یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہو اور اس کے تقویٰ کے مطابق عمل کرتے ہو تو مجھ سے کوئی تعرض نہ کرو۔ حضرت مریم علیھا السلام نے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگی اور ساتھ ساتھ اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرایا اور اسے التزام تقویٰ کا حکم دیا جبکہ وہ تنہائی کی حالت میں تھیں، جو ان تھیں اور لوگوں سے الگ تھلگ تھیں۔ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) بھی بشریت کے کامل روپ اور حیران کن حسن و جمال میں ظاہر ہوئے انہوں نے حضرت مریم علیھا السلام سے کوئی تعرض کیا نہ کوئی ان سے بری بات کہی۔۔۔. یہ تو حضرت مریم علیھا السلام کا خوف تھا اور یہ عفت کے بلند ترین درجے، شر اور اس کے اسباب سے بعد کی دلیل ہے۔ یہ عفت۔۔۔. خاص طور پر جبکہ تمام اسباب جمع ہوں اور گناہ سے کوئی مانع بھی موجود نہ ہو۔۔۔. بہترین عمل ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی ستائش کی۔ فرمایا : (ومریم ابنت عمرن التی احصنت فرجھا فنفخنا فیہ من روحنا) (التحریم : 66 /21) ” اور مریم بنت عمران، جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی، ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔ “ اور فرمایا : (والتی احصنت فرجھا فنفخنا فیھا من روحنا و جعلنھا و ابنھا آیت للعلمین) (الانبیاء 12 /19) ” اور وہ (مریم علیھا السلام) جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی، ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی، پھر اسے اور اس کے بیٹے کو تمام جہانوں کے لئے نشانی بنادیا۔ “ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت مریم علیھا السلام کی عفت کے عوض انہیں ایک بیٹا عطا کیا جو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اور اس کے رسولوں میں سے ایک رسول تھا۔ جب جبریل (علیہ السلام) نے حضرت مریم علیھا السلام کی گھبراہٹ اور ان کا خوف دیکھا تو انہوں نے کہا : (انما انا رسول ربک) ” میں تو آپ کے رب کا قاصد ہوں “ یعنی میرا کام اور میرا شغل تو آپ کے بارے میں اپنے رب کے حکم کو نافذ کرنا ہے۔ (لاھب لک غلما زکیا) ” تاکہ دے جاؤں میں آپ کو ایک لڑکا ستھرا “ یہ بیٹے اور اس کی پاکیزگی کی بہت بڑی بشارت ہے کیونکہ پاکیزگی، تمام خصائل مذمومہ سے تطہیر اور اوصاف حمیدہ سے متصف ہونے کو مستلزم ہے۔ پس حضرت مریم علیھا السلام باپ کے بغیر بیٹے کے وجود پر بہت متعجب ہوئیں اور کہنے لگیں : (انی یکون لی غلم ولم یمسسنی بشر ولم اک بغیا) ” کہاں سے ہوگا میرے لئے لڑکا اور نہیں چھوا مجھ کو آدمی نے اور میں بدکار بھی نہیں ہوں “ اور بیٹے کا وجود اس کے بغیر ممکن نہیں۔ (قال کذلک قال ربک ھو علی ھین ولنجعلہ ایآ للناس) ” جبریل نے کہا : یوں ہی ہے، آپ کے رب نے کہا، یہ مجھ پر آسان ہے، اور چاہتے ہیں ہم کہ بنائیں اس کو لوگوں کے لئے نشانی “ کہ وہ نشانی اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرے، نیز اس امر پر بھی کہ اسباب کی کوئی مستقل تاثیر نہیں، ان میں تاثیر صرف اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے ہے۔ پس وہ اپنے بندوں کو بع اسباب کے خلاف خارق عادت واقعات کا مشاہدہ کراتا ہے تاکہ وہ اسباب پر نہ ٹھہر جائیں اور مسبب الاسباب اور ان کو مقدر کرنے والی ہستی کے افعال میں غور وفکر ترک نہ کریں۔ (ورحمٓ منا) ” اور اپنی طرف سے رحمت “ تاکہ ہم اس کو خود اس کے لئے، اس کی والدہ کے لئے اور تمام لوگوں کے لئے رحمت بنائیں۔ ان کا خود اپنے لئے رحمت ہونا اس بنا پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی وحی کے لئے مختص کیا اور آپ کو اپنی عنایات سے نوازا جس طرح اس نے اولوالعزم انبیاء ومرسلین کو نوازا۔ آپ کی والدہ کے لئے آپ کا رحمت ہونا یہ ہے کہ آپ کی وجہ سے آپ کی والدہ کو فخر، ثنائے حسن اور بڑے بڑے اخروی فوائد حاصل ہوئے۔ لوگوں کے لئے آپ کا رحمت ہونا یہ ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اس نے ان کے اندر اپنا رسول مبعوث کیا جو ان پر اللہ تعالیٰ کی آیات تلاوت کرتا ہے، ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، وہ اس پر ایمان لاتے ہیں، اس کی اطاعت کرتے ہیں اور وہ دنیا و آخرت کی سعادت سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ (وکان امرا مقضیا) ” اور ہے یہ کام مقرر ہوچکا “ یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا اس حالت میں وجود میں آنا، اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے اور اس کی تقدیر کا نافذ ہونا ایک لابدی امر تھا۔ پس جبریل (علیہ السلام) نے حضرت مریم علیھا السلام کے گریبان میں پھونک ماری۔
Top