Baseerat-e-Quran - Al-Anbiyaa : 48
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ الْفُرْقَانَ وَ ضِیَآءً وَّ ذِكْرًا لِّلْمُتَّقِیْنَۙ
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا : اور البتہ ہم نے عطا کی مُوْسٰى : موسیٰ وَهٰرُوْنَ : اور ہارون الْفُرْقَانَ : فرق کرنیوالی (کتاب) وَضِيَآءً : اور روشنی وَّذِكْرًا : اور نصیحت لِّلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
یقینا ہم نے موسیٰ اور ہارون کو ایک حق اور باطل کے درمیان فیصلے کرنے والی چیز، روشنی اور نصیحت تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لئے عطا کی تھی۔
لغات القرآن آیت نمبر 48 تا 50 اتینا ہم نے دیا۔ الفرقان حق و باطل میں فرق کرنے والا۔ ضیاء روشنی۔ ذکر نصیحت نامہ۔ یخشون وہ ڈرتے ہیں۔ الغیث بن دیکھی حقیقتیں۔ مبارک برکت والا۔ منکرون انکار کرنے والے۔ تشریح : آیت نمبر 48 تا 50 یوں تو قرآن کریم کی ہر سورت میں بہت سے انبیاء کرام کا ذکر مبارک ہے۔ چونکہ اس سورت میں سترہ پیغمبروں کا تذکرہ فرمایا گیا ہے اس لئے نبی کریم ﷺ نے اللہ کے حکم سے اس سورت کا نام ” الانبیائ “ رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں سترہ انبیاء کرام کا ذکر خیر کر کے چند باتوں کی طرف متوجہ فرمایا ہے۔ (1) جتنے پیغمبروں کو بھیجا گیا ہے ان کی تعلیمات، مقصد اور مشن ایک ہی تھا جس کی تکمیل نبی کریم ﷺ پر فرمائی گیء ہے۔ جس بات کو تمام انبیاء کرام کہتے آئے ہیں اسی بات کو آپ بھی ارشاد فرما رہے ہیں۔ (2) اللہ نے سارے پیغمبروں کو اپنا کالم عطا فرمایا براہ راست یا بالواسطہ یعنی رسولوں پر کتابوں کو نازل کیا گیا اور نبیوں نے رسولوں کی لائی ہوئی کتابوں اور پیغام کو اپنی اپنی امتوں تک پہنچایا۔ (3) سارے پیغمبروں نے ایک ہی بات فرمائی اور وہ یہ کہ صرف ایک اللہ کی عبادت اور بندگی کی جائے اور اللہ کے سوا کسی کو ” الہ “ اور معبود تسلیم نہ کیا جائے۔ (4) اللہ کا یہ پیغام لانے والے نہایت پاکیزہ اور معصوم بشر ہوتے ہیں۔ ان کا بشر ہونا ہی ان کی سب سے اعلیٰ اور بہتر شان ہے اور بشر کامل ہوتے ہیں کوئی نرالی اور انوکھی مخلوق نہیں ہوتے۔ ان کی زندگی تمام انسانوں کے لئے مشعل راہ ہوتی ہے۔ (5) وہ پیغمبر اللہ کے دین کو ہر شخص تک پہنچانے کی جدوجہد فرماتے ہیں اور ہر باطل سے ٹکرا جاتے ہیں حق اور صداقت کی اس آواز کو پہنچانے میں ان کو شدید مصائب اور پریشانیوں سے واسطہ پڑتا ہے مگر وہ نہایت تحمل اور برداشت سے اپنی امت کی خیر خواہی میں لگے رہتے ہیں۔ (6) اللہ کا دین پہنچانے میں ان کو شدید مصائب سے واسطہ پڑتا ہے لیکن آخر کار ان کو بھرپور کامیابی عطا کی جاتی ہے یہ کامیابی ان کو اور ان کے ماننے والوں کو دنیا اور آخرت میں سرخرو کرتی ہے۔ مذکورہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ نے ان کو ایک ایسی کتاب عطا فرمائی تھی جو فرقان ضیاء اور خوف الٰہی رکھنے والوں کے لئے ذکر اور یاد دہانی تھی۔ جو لوگ بھی اللہ سے ڈرنے والے، غیب پر ایمان اور آخرت پر یقین رکھنے والے اور قیامت کے ہولناک دن کا خوف رکھنے والے ہیں ان کے لئے رہبر و رہنما کتاب تھی اسی طرح اللہ نے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر قرآن کریم ” ذکر مبارک “ کے طور پر نازل فرمایا ہے جس کا انکار بدقسمت لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کے ذریعہ ساری دنیا کو اور خاص طور پر کفار مکہ کو آگاہ کیا ہے کہ جس طرح اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کامیاب فرمایا اور فرعون اور فرعونیوں کو ناکام اور نامراد بنایا اس طرح حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اور آپ کے جانثاروں کو بھی کامیابی حاصل ہوگی اور ان پر ایمان نہ لانے والوں کو شدید شکست اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے توریت کی تین صفات بیان فرمائی ہے۔ (1) فرقان (2) ضیاء (3) اور ذکر۔ فرقان کے معنی ہے وہ چیز جس سے حق اور باطل میں امتیاز کیا جاسکتا ہے یعنی ایک ایسی کسوٹی جس پر پرکھ کر یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ اس میں کتنا کھرا اور کتنا کھوٹا ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ فرقان سے مراد اللہ کی مدد ہے کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ پیدائش سے آخر تک اللہ کا خصوصی معاملہ اور مدد رہی ہے۔ ضیاء روشنی اور نور کو کہتے ہیں یعنی یہ کتاب دین کے راستہ چلنے والے کے لئے ایک ایسی روشنی ہے جو اس کو منزل مراد تک پہنچانے والی ہے۔ ذکر یاد دہانی یعنی خواہشات اور دنیا کے مال و دولت کے لالچ میں پڑ کر آخرت کو بھول جانے والوں کے لئے یاد دہانی اور ذکر ہے۔ تاکہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کر کے اللہ کی طرف پلٹ آئیں۔ فرقان، ضیاء اور ذکریہ تین صفتیں اللہ کے ہر اس کلام کی ہے جو اللہ نے انسانوں کی ہدایت کے لئے بھیجی ہے۔ چونکہ توریت، زبور اور انیجل میں اس قدر تبدیلیاں لائی جا چکی ہیں اور لوگوں نے اپنے اغراض کے لئے تحریف کر ڈالی ہے اس لئے اب ان کتابوں کے لئے کسوٹی نور اور ذکر مبارک قرآن کریم ہے۔ جو تعلیمات اور احکامات بائبل میں قرآن کریم کے مطابق ہیں وہی صحیح ہیں جو قرآن کے خلاف ہیں وہ سب چیزیں اور باتیں باطل ہیں اور اللہ کا کلام نہیں ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا کرم ہے کہ اس نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے قرآن کریم جیسی کتاب کو نازل کیا ہے۔ اگر قرآن کریم نہ ہوتا تو ساری دنیا کے انسان ہمیشہ بھٹکتے رہتے۔ ان کو راستہ اور روشنی ، نصیب نہ ہوتی اب ساری دنیا مل کر بھی اس سچائی کا انکار کرنے کی جرأت نہیں کرسکتی کہ قیامت تک صرف قرآن کریم ہی فرقان، روشنی اور ذکر مبارک ہے۔
Top