Tadabbur-e-Quran - Al-Anbiyaa : 48
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ الْفُرْقَانَ وَ ضِیَآءً وَّ ذِكْرًا لِّلْمُتَّقِیْنَۙ
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا : اور البتہ ہم نے عطا کی مُوْسٰى : موسیٰ وَهٰرُوْنَ : اور ہارون الْفُرْقَانَ : فرق کرنیوالی (کتاب) وَضِيَآءً : اور روشنی وَّذِكْرًا : اور نصیحت لِّلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی کسوٹی اور روشنی اور یاد دہانی عطا فرمائی، خدا ترسوں کے لئے
آگے کا مضمون …… آیات 77-48 اوپر آیت 24 میں نبی ﷺ کی زبان سے فرمایا کہ ھذا ذکر من معی و ذکر من قبلی یعنی یہی تعلیم جو میں تمہیں دے رہا ہوں تمام انبیائے سابقین نے دی۔ اب ایک صعودی ترتیب کے ساتھ ان انبیائے عظام کا حوالہ دیا جو امتوں کے بانی ہوئے۔ آنحضرت ﷺ سے اوپر صاحب شریعت نبی و رسول حضرت موسیٰ ہوئے ہیں۔ 1 ؎ چنانچہ پہلے ان کا ذکر فرمایا اور انہی کے ضمن میں حضرت ہارون کا بھی ذکر فرمایا جو ان کے وزیر تھے۔ پھر ان سے اوپر حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر فرمایا جو امتوں کے بانی اور نبوت کے دونوں سلسلوں … بنی اسرائیل و نبی اسماعیل …… کے امام تھے اور انہی کے ضمن میں حضرت اسحق، حضرت یعقوب، اور حضرت لوط کا حوالہ دیا۔ پھر ان کے اوپر حضرت نوح کا حوالہ دیا جن کو آدم ثانی ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔ ان انبیائے عظام کا حالہ گویا پورے سلسلہ شد و ہدایت کا حوالہ ہے اور مقصودان کے حوالہ سے آنحضرت ﷺ کے مخالفین کے سامنے اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ جو دعوت ان انبیاء نے دی وہی دعوت اب تم کو دی جا رہی ہے جن خصوصیات کے حامل یہ انبیاء تھے وہی خصوصیات تمہارے پیغمبر کے اندر بھی ہیں اور ساتھ ہی یہ یاد دہانی بھی فرما دی گئی کہ جو انجام ان نبیوں کے جھٹلانے والوں کا ہوا وہی انجام لازماً تمہارا بھی ہوگا اگر تم ان کی تکذیب پر اڑے رہ گئے۔ اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمایئے۔ آیت 49-48 فرقان ضیاء اور ضیاء اور ذکر کا مفہوم فرقان حق و باطل کے درمیان امتیاز کرنے والی کسوٹی کو کہتے ہیں۔ یہاں اس سے مراد تو رات ہے۔ قرآن سے پہلے کتاب الٰہی کی حیثیت اسی کو حاصل رہی ہے اور کتاب الٰہی ہی وہ چیز ہے جو حق و باطل میں امتیاز کے لئے معیار کا کام دیتی ہے۔ چناچہ اسی وجہ سے قرآن کو بھی فرقان کہا گیا ہے۔ ضیاء کے معنی روشنی کے ہیں۔ کتاب الٰہی کے لئے ضیاء اور نور وغیرہ کے لفاظ بھیاستعمال ہوئے ہیں اس لئے کہ یہ تمام ذہنی و اخلاقی اور فکری و عملی تاریکیوں سے نکال کر ہدایت و معرفت کی شاہراہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ ذکر کے معنی یاد دہانی کے ہیں۔ یہ لفظ بھی جس طرح قرآن کے لئے جا بجا استعمال ہوا ہے اسی طرح یہاں تورات کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اس کے مختلف پہلوئوں کی طرف سورة طہ کی تفسیر میں ہم اشارہ کرچکے ہیں۔ ان صحیفوں میں چونکہ آفاق، انفس اور تاریخ کے حقائق کی یاد دہانی کی گی ہے اس وجہ سے ان کو ذکر سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ فرمایا کہ ہم نے موسیٰ اور ہارون کو حق و باطل میں امتیاز کرنے والی کتاب اور روشنی و یاد دہانی عطا فرمائی لیکن وہ کتاب نافع صرف ان خدا ترسوں کے لئے ہوئی جو ہر چیز کو آنکھوں سے دیکھ کر ماننے کے بجائے غیب میں رہتے خدا اور آخرت سے ڈرنے والے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اسی طرح یہ کتاب بھی کارگر صرف انہی پر ہوگی جن کی عقل و فطرت کا نور بجھا نہیں ہے بلکہ وہ خدا اور آخرت کا اپنے دلوں کے اندر خوف رکھتے ہیں۔ یہ مضمون سورة بقرہ کی ابتدائی آیات کے تحت تفصیل سے زیر بحث آچکا ہے اس وجہ سے یہاں ہم اشارہ پر کفات کرتے ہیں۔
Top