Baseerat-e-Quran - Al-Muminoon : 33
وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ الْاٰخِرَةِ وَ اَتْرَفْنٰهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۙ مَا هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ١ۙ یَاْكُلُ مِمَّا تَاْكُلُوْنَ مِنْهُ وَ یَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ۪ۙ
وَقَالَ : اور کہا الْمَلَاُ : سرداروں مِنْ قَوْمِهِ : اس کی قوم کے الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا وَكَذَّبُوْا : اور جھٹلایا بِلِقَآءِ : حاضری کو الْاٰخِرَةِ : آخرت وَاَتْرَفْنٰهُمْ : اور ہم نے انہیں عیش دیا فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی مَا ھٰذَآ : یہ نہیں اِلَّا : مگر بَشَرٌ : ایک بشر مِّثْلُكُمْ : تمہیں جیسا يَاْكُلُ : وہ کھاتا ہے مِمَّا : اس سے جو تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو مِنْهُ : اس سے وَيَشْرَبُ : اور پیتا ہے مِمَّا : اس سے جو تَشْرَبُوْنَ : تم پیتے ہو
اور اس (نوح (علیہ السلام) کی ) قوم کے ان سرداروں نے جنہوں نے کفر کیا اور آخرت کی حاضری کو جھٹلایا جن کو ہم نے دنیاوی زندگی کا عیش و آرام دے رکھا تھا کہا کہ یہ تو تم ہی جیسا بشر ہے وہ اس میں سے کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور اس میں سے پیتا ہے جو تم پیتے ہو۔
لغات القرآن آیت نمبر 33 تا 44 : لقائ (ملاقات۔ حاضری) ‘ اترفتا (ہم نے عیش و آرام کیا) ‘ ایعدکم (کیا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے) ‘ تراب (مٹی) ‘ ھیھات (بیعد ہے۔ دور ہے) ‘ حیاتنا (ہماری زندگی) ‘ نموت (ہم مرجاتے ہیں) ‘ نحیا (ہم زندہ رہتے ہیں) ‘ مبعوثین (اٹھائے جانے والے) ‘ افتری (جھوٹ باندھا) ‘ یصبحن (وہ رہ جائیں گے۔ وہ ہوجائیں گے) ‘ نادمین (شرمندہ) ‘ الصیحۃ (چنگھاڑ) ‘ غثائ (کوڑا۔ کباڑ) ‘ ماتسبق (نہیں آگے بڑھتی) ‘ اجل (مدت) ‘ تترا (مسلسل ایک کے بعد دوسرا) ‘ احادیث (باتیں) ۔ تشریح : آیت نمبر 33 تا 44 : حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی نافرمان قوم کے بھیانک انجام کے بعدان آیات میں کسی نبی یا رسول کا نام لئے بغیر بعض انبیا کی امتوں کی طرف اشارہ کر کے چند اصولی اور بنیادی باتوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ فرمایا کہ اللہ کے حکم سے ہر زمانے ہر ملک اور ہر خطے میں راہ سے بھٹک جانے والوں کی ہدایت کے لئے مسلسل اور لگاتار اپنے نبیوں اور رسولوں کو بھیجا جنہوں نے اپنی اپنی قوم سے فرمایا کہ وہ اللہ پر ایمان لائیں اسی کی عبادت و بندگی کریں کیونکہ اس کے سوا کوئی دوسرا عبادت و بندگی کے لائق نہیں ہے۔ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک یا ساتھی نہیں ہے۔ ٭ وہ اپنے فیصلے کرنے میں پورا اختیار رکھتا ہے اور اسے اس کائنات میں پوری طرح کی طاقت وقوت حاصل ہے۔ یہ انبیاء کرام پوری زندگی اسی کی جدوجہد اور کوشش کرتے رہے۔ اس کے برخلاف دوسری طرف “ مترفین ‘ تھے یعنی عیش و آرام پسند ‘ مال و دولت کی چکا چوند میں مست ‘ اولاد کی کثرت پر ناز کرنے والے ‘ اپنے آپ کو عام لوگوں سے بلندو بر تر اور بڑا سمجھنے والے لوگ تھے۔ جو اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے تھے۔ اللہ کی وحدانیت ‘ آخرت کا انکار اور بد عملی میں سب سے آگے تھے۔ جو اپنے اقتدار کی ہلتی ہوئی دیواروں کو سہارادینے کے لئے اللہ کے پاک نفوس انبیاء کرام کی یہ کہہ کر توہین کرتے تھے کہ تمہارے اور ہمارے درمیان آخر وہ کون سا فرق ہے جس کی وجہ سے ہم تمہیں اللہ کا نبی تسلیم کرلیں۔ تم ہماری طرح ہم جیسے آدمی ہو ‘ بیوی بچے رکھتے ہو ‘ کھاتے پیتے ہو اور بازاروں میں چلتے پھرتے ہو ‘ مال و دولت اور دنیاوی مرتبہ اور کوئی اعلی مقام بھی نہیں رکھتے ہو۔ اگر ہم تم جیسے لوگوں کی باتوں میں آگئے تو سوائے نقصان کے اور کیا حاصل کرسکیں گے۔ کبھی وہ مر کر دوبارہ زندہ ہونے کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ہم مرجائیں گے ‘ ہمارا وجود مٹی ہوجائے گا ‘ ہماری ہڈیاں گل سڑ جائیں گی اور ہمارے ذرات بکھر جائیں گے تو ہم دو بارہ زندہ کر کے اللہ کے سامنے حاضر کئے جائیں گے۔ وہ کہتے یہ تو ایک ایسی بات ہے جس کا عقل و فہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور بہت ہی دور کی بات ہے۔ وہ کہتے آخرت ‘ جنت اور جہنم یہ سب کہنے کی باتیں ہیں اصل یہی دنیا کی زندگی ہے ہم اسی میں پیدا ہوئے ‘ اسی میں پلے بڑے ‘ اسی میں مرکھپ جائیں گے۔ مر کر دوبارہ زندہ ہونا خواہ مخواہ کی بات ہے یہ سب گھڑی ہوئی باتیں ہیں ہم تو ان باتوں پر یقین کرنے والے ہیں ہیں۔ تمام انبیاء کرام کے ساتھ یہی ہوا کہ ان کو اور ان کی تعلیمات کو جھٹلایا گیا۔ جب ان کی تعلیم کا مذاق اڑایا گیا اور کسی نے ان کی باتوں کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم نہیں کیا تو انبیاء کرام کے منہ سے حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرح یہی نکلا کہ الہی یہ ہمیں جھٹلا رہے ہیں اور کوئی بات ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ آپ ہماری مدد کیجئے اور اس معاملے میں فیصلہ کر دیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب وہ وقت بہت زیادہ دور نہیں ہے کہ جب ان کو پکڑا جائے گا تو یہ سخت شرمنہ اور پشیمان ہوں گے۔ جب اللہ کا وہ فیصلہ آیا تو ایک سخت کڑک ‘ چمک اور زبردست آواز نے ان کو اور ان کی تہذیب اور تمدن کو تباہ و برباد کرکے کوڑا کباڑ بنا کر رکھ دیا اور ان پر اللہ کی لعنت مسلط کردی گئی۔ فرمایا کہ انبیاء کرام کے آنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اس نے لگاتار نبیوں اور رسولوں کو بھیجا اور جب بھی انہوں نے ان کو جھٹلایا اور ان کی لائی ہوئی تعلیمات کا انکار کیا تو اللہ نے ان کے برے اعمال کے سبب سے ان کی قوم کو تہس نہیس کر کے ان کی زندگیوں اور ترقیات کو ایک قصہ کہانی بنا کر رکھ دیا۔ اور ایسے لوگوں کی زندگیوں پر اللہ کی لعنت اور پھٹکار برستی رہی۔ یہ انبیاء کرام کون تھے ان کی قومیں کونسی تھیں اگر چہ ان آیات میں اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے لیکن قرآن کریم کے الفاظ سے ایسا لگتا ہے کہ ان سے مراد قوم عاد اور قوم ثمود ہے۔ قوم عاد کی طرف حضرت ہود (علیہ السلام) کو اور قوم ثمود کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) کو بھیجا گیا تھا۔ اکثر مفسرین نے ان آیات میں ذکر کی گئی قوموں سے مراد ان دونوں قوموں کو لیا ہے۔ ان آیات میں درحقیقت کفار مکہ کو آئینہ دکھایا گیا ہے اور اس طرح متوجہ کیا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ بھی اور نبیوں کی طرح آخری نبی اور آخری رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ اگر کفار مکہ نے سابقہ قوموں کی طرح ان کا مذاق اڑایا اور ان پر ایمان نہ لائے تو وہ اپنے برے انجام پر غور کرسکتے ہیں کیونکہ اللہ کا قانون اور دستور ایک ہی رہا ہے اور ہے۔ وہ نیکیوں پر چلنے والوں کو نواز تا ہے اور نجات دیتا ہے لیکن نافرمانوں اور نبیوں کو جھٹلانے والوں کو جڑ و نبی اد سے اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔
Top