Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Al-Muminoon : 33
وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ الْاٰخِرَةِ وَ اَتْرَفْنٰهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۙ مَا هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ١ۙ یَاْكُلُ مِمَّا تَاْكُلُوْنَ مِنْهُ وَ یَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ۪ۙ
وَقَالَ
: اور کہا
الْمَلَاُ
: سرداروں
مِنْ قَوْمِهِ
: اس کی قوم کے
الَّذِيْنَ
: وہ جنہوں نے
كَفَرُوْا
: کفر کیا
وَكَذَّبُوْا
: اور جھٹلایا
بِلِقَآءِ
: حاضری کو
الْاٰخِرَةِ
: آخرت
وَاَتْرَفْنٰهُمْ
: اور ہم نے انہیں عیش دیا
فِي
: میں
الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا
: دنیا کی زندگی
مَا ھٰذَآ
: یہ نہیں
اِلَّا
: مگر
بَشَرٌ
: ایک بشر
مِّثْلُكُمْ
: تمہیں جیسا
يَاْكُلُ
: وہ کھاتا ہے
مِمَّا
: اس سے جو
تَاْكُلُوْنَ
: تم کھاتے ہو
مِنْهُ
: اس سے
وَيَشْرَبُ
: اور پیتا ہے
مِمَّا
: اس سے جو
تَشْرَبُوْنَ
: تم پیتے ہو
تو ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے اور آخرت کے آنے کو جھوٹا سمجھتے تھے اور دنیا کی زندگی میں ہم نے ان کو آسودگی دے رکھی تھی کہنے لگے کہ یہ تو تم ہی جیسا آدمی ہے جس قسم کا کھانا تم کھاتے ہو اسی طرح کا یہ بھی کھاتا ہے اور (پانی) جو تم پیتے ہو اسی قسم کا یہ بھی پیتا ہے
آیت نمبر 33 تا 50 ترجمہ : اور ان کی قوم کے سرداروں نے جنہوں نے کفر کیا تھا اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا تھا یعنی اس کی طرف رجوع کرنے کو اور ہم نے ان کو دنیوی زندگانی میں خوشحالی عطا کی تھی یعنی انعامات سے نوازا تھا کہنے لگے بس یہ تو تمہاری طرح ایک آدمی ہے وہی کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور وہی پیتا ہے جو تم پیتے ہو واللہ اگر تم اپنے جیسے ایک آدمی کے کہنے پر چلنے لگو تو بیشک تم سخت خسارے والے ہو، یعنی نقصان اٹھانے والے ہو کیا یہ شخص تم سے یہ کہتا ہے کہ جب تم مرجاؤ گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجاؤ گے تو تم نکالے جاؤ گے مخرجون أنّکم اولیٰ کی خبر ہے اور ثانی أنّکم پہلے أنکم کی تاکید ہے اِنَّ کے اسم اور اس کی خبر کے درمیان طویل فصل ہونے کی وجہ سے بہت ہی بعید ہے بہت ہی بعید ہے وہ بات جو تم سے کہی جاتی ہے (یعنی) قبروں سے نکالنے کی اور لام زائدہ ہے بیان کیلئے ہماری زندگی تو صرف دنیوی زندگی ہے ہم مرتے جیتے رہتے ہیں اپنے بیتوں کے جینے سے اور ہم دوبارہ زندہ کئے جانے والے نہیں ہیں یہ شخص رسول نہیں ہے یہ تو ایسا شخص ہے جو اللہ پر بہتان باندھتا ہے ہم تو ہرگز اس پر ایمان نہ لائیں گے یعنی مرنے کے بعد وہ زندہ کرنے کے بارے میں تصدیق کرنے والے نہیں ہیں، نبی نے دعاء کی اے میرے پروردگار تو ان سے میرا بدلہ لے لے اس وجہ سے کہ انہوں نے میری تکذیب کی ارشاد ہوا یہ لوگ عنقریب اپنی تکذیب و کفر پر پشیمان ہوں گے عمَّا قلیل میں ما زائدہ ہے بالآخر عدل کے تقاضہ کے مطابق چیخ نے پکڑ لیا چیخ کے عذاب اور ہلاکت نے حال یہ کیا وہ عدل کے تقاضہ کے مطابق تھا چناچہ سب کے سب مرگئے پھر ہم نے ان کو خس و خاشاک کردیا غثاءً سوکھی گھاس کو کہتے ہیں، یعنی ہم نے ان کو خس و خاشاک کی مانند کردیا خشک ہونے میں سو رحمت سے دوری ہو ظالم یعنی تکذیب کرنے والی قوموں کیلئے پھر ان کے بعد دوسری قوموں کو پیدا کیا اور کوئی امت اپنے وقت مقررہ سے نہ تو آگے بڑھ سکتی ہے اور نہ پیچھے رہ سکتی ہے بایں طور کہ اپنے وقت مقررہ سے پہلے مرجائے یا اس سے مؤخر ہوجائے (یستاخروں) میں ضمیر کو معنی کی رعایت کی وجہ سے مذکر لائے ہیں، مؤنث لانے کے بعد پھر ہم نے یکے بعد دیگرے اپنے رسول بھیجے تَتٰرًا تنوین اور بغیر تنوین دونوں ہیں یعنی ایک کے بعد دوسرا دو کے درمیان طویل زمانہ تھا جب کبھی کسی امت کے پاس اس کا رسول آیا انہوں نے اس رسول کی تکذیب کی تو ہم نے ہلاکت میں ایک کو ایک کے پیچھے لگا دیا اور ہم نے ان کو داستان بنادیا خدا کی مار ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے پھر ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو احکام اور کھلی دلیل دے کر کھلی دلیلیں وہ یدبیضاء اور عصائے موسیٰ اور دیگر نشانیاں ہیں فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجا تو انہوں نے ان آیات اور اللہ پر ایمان لانے کے بارے میں تکبر کیا اور وہ بنی اسرائیل پر ظلم کے ذریعہ غلبہ حاصل کرنے والے لوگ تھے چناچہ وہ کہنے لگے کیا ہم اپنے جیسے دو انسانوں پر ایمان لے آئیں حالانکہ ان کی قوم ہمارے زیر حکم زیر فرمان اور سرنگوں ہیں چناچہ وہ لوگ ان دونوں کی تکذیب ہی کرتے رہے آخر کار ہلاک کر دئیے گئے اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب تورات عطا فرمائی تاکہ وہ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل اس کے ذریعہ گمراہی کے راستہ سے ہدایت کے راستہ کی طرف آئیں اور توریت فرعون اور اس کی قوم کے ہلاک ہونے کے بعد یکبارگی عطا کی گئی اور ہم نے ابن مریم عیسیٰ کو اور ان کی والدہ کو نشانی بنادیا آیتیں نہیں کہا، اس لئے کہ دونوں میں نشانی ایک ہی ہے اور وہ بغیر مرد کے ان کی پیدائش ہے اور ہم نے ان دونوں کو ایک ایسی بلند زمین پر لیجا کر پناہ دی جو رہنے کے قابل تھی رَبُوَۃَ اونچی جگہ کو کہتے ہیں اور وہ بیت المقدس یاد مشق یا فلسطین ہے یہ (تین) قول ہیں، ذات قرار کا مطلب ہے ہموار تاکہ اس پر اس کے باشندے وہ سکیں، اور چشمہ والی یعنی ظاہری سطح پر جاری پانی والی ہیں، جس کو آنکھیں دیکھ سکیں۔ تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد اَلْمَلأُ اسم جمع ہے، الأمْلَاءُ جمع ہے سرداروں کی جماعت، قوم شرفاء کی جماعت۔ قولہ : وَاللہِ لَئِنْ اَطَعْتُمْ یہاں قسم اور شرط کا اجتماع ہے جہاں یہ دونوں جمع ہوجاتے ہیں تو اول کا جواب لایا جاتا ہے اور چانی کے جواب کو اول کے جواب پر قیاس کرکے حذف کردیتے ہیں اِنّکم اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ جواب قسم ہے نہ کہ جواب شرط نہ ہونے کا قرینہ یہ بھی ہے کہ یہاں انکم اذًا لَّخٰسرون جملہ اسمیہ ہے اگر یہ جواب شرط ہوتا تو اس پر فا کا داخل ہونا ضروری تھا، اس سے بھی معلوم ہوا کہ یہ جواب قسم ہے جواب شرط نہیں ہے۔ قولہ : اِنّکُمْ اِذًا ای اِنْ اَطَعْتُمُوْہٗ لَخٰسِرونَ ، کُمْ اِنَّ کا اسم ہے اور خاسرون اس کی خبر ہے لام ابتدائیہ ہے اور اِذًا اِنْ کے اسم اور اس کی خبر کے درمیان مضمون شرط کی تاکید کیلئے ہے، اور اِذًا کی تنوین جملہ شرطیہ محذوف کے عوض میں ہے جیسا یومئِذٍ میں، مفسر علام نے اسی کی طرف اشارہ کرنے کیلئے ای اِنْ اَطَعْتُمُوہ کا اضافہ کیا ہے اس وقت اس کو جواب کی ضرورت نہ ہوتی اس لئے کہ یہ ماقبل کی تاکید لفظی کے لئے ذکر کیا گیا ہے اور اعادۃ الشئ بمرادفہٖ کے قبیل سے ہے (جمل) قولہ : اَیَعِدُکُمْ یہ جملہ مستانفہ ماقبل کے مضمون کی تاکید کیلئے لایا گیا ہے۔ قولہ : مخرجون أنَّ اولیٰ کی خبر ہے إذا متم مخرجون کا ظرف ہے اور أنکم کا عمل نہیں ہے اس لئے کہ وہ پہلے أنکم کی تاکید لفظی ہے قولہ : ھَیْھَاتَ ھَیْھَاتَ اسم فعل بمعنی ماضی، یہ کلمہ اکثر مکرر استعمال ہوتا ہے ثانی اول کی تاکید ہے چونکہ اس میں اختلاف ہے کہ ھیھاتَ اسم فعل بمعنی ماضی ہے یا بمعنی مصدر ہے اسی اختلاف کی طرف اشارہ کرنے کیلئے مفسر علام نے بُعْدَا پر دونوں اعراب لگائے ہیں۔ سوال : ھَیْھَاتَ کو اسم فعل کیوں کہتے ہیں ؟ یہ تو اجتماع بین الضدین معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ جو اسم ہوگا وہ فعل نہیں ہوسکتا، اور جو فعل ہوگا وہ اسم نہیں ہوسکتا۔ جواب : چونکہ یہ لفظ کے اعتبار سے اسم ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی گردان نہیں ہوتی، اس وجہ سے اس کو اسم کہتے ہیں اور اپنے معنی و مدلول کے اعتبار سے یہ فعل ہے اس لئے اس کو فعل کہتے ہیں، دونوں حیثیتوں کی رعایت کرتے ہوئے اس کا نام اسم فعل رکھ دیا گیا ہے، اور چونکہ ھَیْھَاتَ بمعنی مصدر بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے مفسرعلام نے اسم فعل ماض کہہ کہ پہلے معنی کی طرف اشارہ کیا ہے اور بمعنی مصدرٍ کہہ کر دوسرے معنی کی طرف اشارہ کیا ہے اور انہی دونوں معنی وضاحت کیلئے بعداً پر دونوں اعراب لگائے ہیں، فعل ماضی کا اعراب بھی لگایا ہے اور مصدر کا بھی۔ خلاصہ کلام : ھَیْھَاتَ اسم فعل ہے بَعُدَ فعل ماضی کے معنی میں اس کے فاعل میں دو صورتیں ہیں اول یہ کہ اس کا فاعل اس میں مضمر ہو اور تقدیر عبارت یہ ہو بَعُدَ التصدیق او الصحۃ او الوقوع لما توعدون نحو ذٰلک اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس کا فاعل ما ہو اور لام زائدہ ہو بیان استبعاد کے لئے۔ گویا کہ کہا گیا یہ استبعاد کس چیز کا ہے ؟ جواب دیا لما توعدون جس کا تم سے وعدہ کیا گیا یعنی بعث بعد الموت اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ ھَیْھَاتَ ، البُعْد بمعنی مصدر مبتدا اور لما توعدون اس کی خبر، مگر بعض حضرات نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، پہلی صورت میں ھَیْھَاتَ کا کوئی محل اعراب نہیں ہوگا۔ قولہ : مِنَ الاخراج منَ القبور مَا توعدون میں ما کا بیان ہے۔ قولہ : بِحَیَاتِ اَبْنَائِنَا یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ مشرکین کا نَمُوْتُ وَنَحْیَا کہنا یہ تو بعث بعد الموت کے منکر ہیں، مفسر علام نے بحیات ابنائنا کہہ کر جواب دیدیا کہ مشرکین کے قول نموت و نحیا کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم مرجاتے ہیں تو ہماری اولاد زندہ رہتی ہے، اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ بعث بعد الموت کا نہیں ہے، بعض حضرات نے یہ جواب بھی دیا ہے کہ آیت میں تقدیم و تاخیر ہے ای نَحْیَا و نموتُ ۔ قولہ : عَمَّا قلیل بعض حضرات نے کہا ہے ما زائدہ ہے ای عن قلیل من الزمان اور بعض مجرور کس سے متعلق ہے ؟ اس میں تین قول ہیں (اول) لیَصْبَحُنَّ کے متعلق ہے (دوسرا) نادمین کے متعلق ہے (تیسرا) محذوف سے متعلق ہے ای عما قلیل ننصرہٗ ماقبل یعنی انصرنی کی دلالت کی وجہ سے حذف کردیا گیا ہے۔ قولہ : صَیْحۃ العذاب میں اضافت بیانیہ ہے ای صیحۃ العذاب والھلاک صیحہ سے مراد عذاب ہے نہ کہ حضرت جبرئیل کی چنگھاڑ، اس لئے کہ قوم عاد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی چنگھاڑ سے ہلاک نہیں ہوئی تھی۔ قولہ : کائنۃً مفسر علام نے کائنۃ محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ بالحق کائنۃً کے متعلق ہو کر صیحۃ سے حال ہے۔ قولہ : فبعدًا اس کے فعل کو حذف کرکے مصدر کو اس کے قائم مقام کردیا گیا ہے اس کے فعل ناصب کو حذف کرنا واجب ہے ای فبعدُوْا بُعْدًا یہ کلمہ مشرکین کیلئے بد دعاء کے قائم مقام ہے۔ قولہ : ذُکِّرَ الضمیرُ الخ یعنی یستاخرون میں ضمیر کو مذکر لایا گیا ہے حالانکہ اَجَلَھا کے اندر ضمیر مؤنث لائے ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ ھا ضمیر اُمَّۃٍ کی طرف راجع ہے اور امت سے قوم مراد ہے جو کہ مذکر ہے اسی وجہ سے یستاخرون میں ضمیر کو مذکر لائے ہیں۔ قولہ : تَتْرًا مصدر محذوف سے حال یا صفت ہے، ای ارسالاً تَتْرًا، تَتْرًا اصل میں وَتْرًا تھا، واؤ کو تا سے بدل دیا وتر متابعت مع المہلت کو کہتے ہیں۔ قولہ : احادیث یہ احدوثۃ کی جمع ہے ما یتحدّثہ الناس یعنی وہ قصے کہانیاں جن کو لوگ وقت گذاری اور تفریح طبع کیلئے کہتے سنتے ہیں۔ قولہ : من امتہ من فاعل پر زائدہ ہے اُمّۃٍ تسبق کا فاعل ہے۔ قولہ : بتحقیق الھمزتین (اول صورت) دونوں ہمزوں کو محقق پڑھیں (دوسری صورت) پہلے ہمزہ کو محقق اور دوسرے کو مسھَّل پڑھیں، یعنی ہمزہ اور واؤ کے درمیان پڑھیں۔ قولہ : جملۃً واحدۃً اس کا تعلق اوتیھا سے بھی ہوسکتا ہے اس وقت مطلب یہ ہوگا فرعون کے ہلاک ہونے کے بعد توریت جملۃً واحدۃً یکبارگی) دیدی گئی اور یہ بھی احتمال ہے کہ ہلاکت فرعون اور اس کی قوم سے متعلق ہو اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ فرعون اور اس کی قوم کو بالکلیہ ہلاک کرنے کے بعد توریت عطا کی گئی۔ تفسیر و تشریح اس سے پہلی آیات میں حضرت نوح (علیہ السلام) کا قصہ بسلسلہ ہدایت ذکر کیا گیا تھا، آگے دوسرے پیغمبروں اور ان کی امتوں کا کچھ حال اجمالاً نام متعین کئے بغیر ذکر کیا گیا ہے، آثار و علامات سے حضرات مفسرین نے فرمایا کہ مرادان امتوں سے عاد یا ثمود یا دونوں ہیں، عاد کی طرف حضرت ہود (علیہ السلام) کو بھیجا گیا تھا اور ثمود کے پیغمبر حضرت صالح (علیہ السلام) تھے، اس قصہ میں ان قوموں کا ہلاک ہونا ایک صیحۃ یعنی غیبی سخت آواز کے ذریعہ بیان فرمایا ہے اور صیحہ کے ذریعہ ہلاک ہونا دوسری آیت میں قوم ثمود کا بیان ہوا ہے اس سے بعض حضرات نے فرمایا کہ ان آیات میں قرناً آخرین سے ثمود مراد ہیں مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صیحۃ کا لفظ اس جگہ مطلق عذاب کے معنی میں ہو جیسا کہ تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان اشارہ کیا گیا ہے، اس طریقہ سے اس کا تعلق عاد کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ انھی۔۔۔ (الآیہ) مشرکین کا اعتقاد تھا کہ دنیاوی زندگی کے علاوہ اور کوئی زندگی نہیں ہے، بس دنیا کی زندگی اور اس کا عیش و آرام ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، دوبارہ ان کو زندہ ہونا نہیں ہے، ہر قوم جس نے پیغمبروں کی تکذیب کی ٹھیک اپنے وعدہ پر ہلاک کردی گئی جس قوم کی جو میعاد تھی اس سے آگے یا پیچھے نہیں ہوئی۔ ثم ارسلنا رسلنا تترا پھر ہم یکے بعد دیگرے رسول بھیجتے رہے اور مکذبین کو بھی ایک کے پیچھے ایک جو چلتا کرتے رہے، چناچہ بہت سی قومیں اس طرح تباہ و برباد کردی گئیں، جن کے قصے کہانیوں کے سوا کوئی چیز باقی نہیں رہی آج ان کی داستانیں محض عبرت کیلئے پڑھی اور سنی جاتی ہیں فَقَالُوْا أنُؤمِنُ لِبَشَرَیْنِ (الآیہ) مطلب یہ کہ موسیٰ ان کی قوم تو غلام اور خدمت گار ہیں تو ہم انہیں میں کے دو افراد کر اپنا سردار کس طرح بنالیں، فرعون اور فرعونیوں کی ہلاکت کے بعد ہم نے ان کو تورات عطا کی تاکہ لوگ اس پر چل کر جنت اور رضاء الٰہی کی منزل تک پہنچ سکیں وَآوَینٰھُمَا اِلیٰ رَبوَۃٍ ربوۃ اونچی جگہ کو کہتے ہیں مفسر علام نے اس میں تین احتمال ذکر کئے ہیں بیت المقدس، دمشق، فلسطین، ممکن ہے کہ یہ وہی ٹیلہ ہو کہ جہاں وضع حمل کے وقت حضرت مریم تشریف رکھتی تھیں چناچہ سورة مریم میں فناداھا من تحتھا (الآیہ) دلالت کرتی ہے کہ وہ بلند جگہ تھی، نیچے چشمہ یا نہر بہہ رہی تھی، لیکن عموماً مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بچپن کا واقعہ ہے ہیرودس نامی ایک ظالم بادشاہ کو نجومیوں کے ذریعہ یہ معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ کو سرداری ملے گی جس کی وجہ سے بچپن ہی میں ان کا دشمن ہوگیا تھا اور قتل کے درپے تھا، حضرت مریم الہام ربانی سے ان کو لیکر مصر چلی گئیں اور اس ظالم بادشاہ کے مرنے کے بعد پھر شام واپس آئیں چناچہ انجیل متیٰ میں بھی یہ واقعہ مذکور ہے اور مصر کا اونچا ہونا باعتبار دریائے نیل کے ہے ورنہ غرق ہوجاتا، اور ماء معین دریائے نیل ہے، بعض نے ربوہ سے مراد شام یا فلسطین لیا ہے، بہرحال اہل اسلام میں سے کسی نے ربوہ سے کشمیر مراد نہیں لیا، اور نہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قبر کشمیر میں بتائی، البتہ ہمارے زمانے کے بعض زائغین نے ربوہ سے کشمیر مراد لیا ہے، اور وہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قبر بتائی ہے، جس کا تاریخی حیثیت سے کوئی ثبوت نہیں ہے، محلہ خان یا رشری نگر میں جو قبر ” یوزاسف “ کے نام سے مشہور ہے اور جس کی بابت تاریخی اعظمی کے مصنف نے محض عام افواہ نقل کی ہے کہ لوگ اس کو کسی نبی کی قبر بتاتے ہیں وہ کوئی شہزادہ تھا جو دوسرے ملک سے یہاں آیا تھا، اس کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قبر بتانا انتہاء درجہ کی حماقت اور سفاہت ہے، ایسی اٹکل پچو اور بےسروپا باتوں سے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی حیات کو باطل ٹھہرانا خبط اور جنون کے سوا کچھ نہیں، اگر اس قبر کی تحقیق مطلوب ہو کہ ” یوزاسف “ کون تھا تو جناب منشی حبیب اللہ صاحب امرتسری کا رسالہ دیکھیں جو خاص اسی موضوع پر نہایت ہی تحقیق سے لکھا گیا ہے، جس میں اس مہمل خیال کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں۔ (فوائد عثمانی ملخصاً )
Top