Baseerat-e-Quran - An-Naml : 87
وَ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَفَزِعَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ١ؕ وَ كُلٌّ اَتَوْهُ دٰخِرِیْنَ
وَ يَوْمَ : جس دن يُنْفَخُ : پھونک ماری جائے گی فِي الصُّوْرِ : صور میں فَفَزِعَ : تو گھبرا جائیگا مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَنْ : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں اِلَّا : سوا مَنْ : جسے شَآءَ اللّٰهُ : اللہ چاہے وَكُلٌّ : اور سب اَتَوْهُ : اس کے آگے آئیں گے دٰخِرِيْنَ : عاجز ہو کر
اور جس دن صور میں پھونک ماری جائے گی تو جو بھی زمین و آسمان میں ہوں گے وہ گھبرا اٹھیں گے سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ چاہے۔ اور سب کے سب اس کے سامنے عاجز بن کر حاضر ہوں گے
لغات القرآن : آیت نمبر 87 : 93 : ینفخ (پھونک ماری جائے گی) فزع (گھبرا گیا) داخرین (عاجزی کرنے والے) تحسب (تو گمان کرتا ہے) ‘ جامدۃ (جمع ہوجانے والی) تمر (وہ چلے گی) السحاب (بادل) صنع اللہ (اللہ کی کاری گری) کبت (اوندھا پھینک دیا گیا) ‘ ھل تجزون ( کیا تم بدلہ دیئے جائو گے) امرت ( میں حکم دیا گیا ہوں) البلدۃ (شہر) حرم ( قابل احترام بنایا) ان اتلو (یہ کہ میں تلاوت کروں گا) سیری (وہ بہت جلد دکھائے گا) ‘ تعرفون (تم پہچانتے ہو) ۔ تشریح : آیت نمبر 87 تا 93 : قرآن کریم میں متعدد مقامات پر قیامت اور اس دن کی ہولناکی کو بیان کیا گیا ہے۔ یہاں پر ایک اصولی بات ارشاد فرمائی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس دن حضرت اسرافیل (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے صور پھونکیں گے تو صور کی ہیبت ناک آواز سے زمین و آسمان میں رہنے والی مخلوق پر دہشت طاری ہوجائے گی۔ اور ہر ایک کو اس کے سامنے دب کر اور عاجزی کے ساتھ حاضر ہونا ہے۔ فرمایا کہ سب پر بد حواسی اور گھبراہٹ طاری ہوگی لیکن وہ لوگ جنہوں نے نیکیوں اور بھلائیوں میں زندگی گذاری ہوگی وہ اس گھبراہٹ اور اس دن کی پریشانی سے محفوظ رہیں گے۔ قیامت کے دن ان کی چند کیفیات کو یہاں بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد ہے۔ (1) ہر شخص کو نہایت عاجزی اور انکساری سے گردن جھکا کر اس کے سامنے حاضر ہونا پڑے گا۔ (2) وہ پہاڑ جنہیں ہم جما ہوا محسوس کرتے ہیں صور پھونکے جانے کے بعد اس طرح چلے ‘ اڑتے نظر آئیں گے جس طرح آسمان پر بادل چلتے اور اڑتے نظر آتے ہیں۔ (3) فرمایا کہ یہ ساری دنیا اور اس کی بناوٹ سب اللہ کی کاریگری ہے اس میں ہر انسان جو کچھ کرتا ہے اس کی ایک ایک حرکت اور عمل سے وہ پوری طرح واقف ہے۔ (4) جو لوگ نیکیوں اور بھلائیوں کے ساتھ آئیں گے وہ اس دن کی گھبراہٹ ‘ پریشانی اور بد حواسی سے محفوظ رہیں گے اور وہ نہایت سکون سے اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے۔ (5) لیکن وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگی گناہوں اور خطاؤں ‘ کفر اور شرک میں گذاری ہوگی وہ نہایت گھبرائے ہوئے ہوں گے اور ان کو اوندھے منہ جہنم میں جھونک دیا جائے گا اور کوئی کسی کا ساتھ نہ دے گا اور کوئی کسی کے حال کو پوچھنے والا نہ ہوگا۔ اور ان کو وہی بدلہ دیا جائے گا جس کو وہ دنیا میں کرتے رہے تھے۔ یعنی ان پر کسی طرح کا ظلم نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے اعمال کے مطابق ان کو بدلہ دیا جائے گا۔ آخر میں نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اے نبی ﷺ ! آپ کہہ دیجئے کہ مجھے میرے اللہ نے یہ حکم دیا ہے کہ میں اس شہر یعنی مکہ مکرمہ کے مالک اور پروردگار کی عبادت و بندگی کروں جس نے اس شہر کو عزت و عظمت سے نوازا ہے۔ اور مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کے فرماں بردار بندوں میں شامل رہوں۔ اور میں اس قرآن کریم کی تلاوت کرتا رہوں جو اس نے نازل کیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کا آنا برحق ہے۔ وہ بڑا ہیبت ناک دن ہوگا جہاں کوئی کسی کو نہ پوچھے گا۔ وہاں اگر کوئی چیز کام آنے والی ہے تو وہ اللہ کی رحمت اور انسان کے نیک اور بہتر اعمال ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اسکے مقدس گھر کا احترام کرنے والے اور اس کے فرماں بردار ہیں ان کو اس دن نہ صرف گھبراہٹ سے نجات عطا فرمائے گا بلکہ آخرت کی تمام بھلائیاں ان کا مقدر ہوں گی۔ آخر میں فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! آپ اس بات کا اعلان فرمادیجئے کہ جس نے ہدایت کا راستہ اختیار کیا اس نے اپنا فائدہ کیا لیکن جس نے گمراہی اختیار کرلی تو میرا کام خبردار کرنا تھا میں نے کردیا البتہ ہر انسان کو خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس کے لئے آخرت میں کام آنے والی چیز کیا ہے۔ تمام تعریفیں اور عظمتیں اللہ کے لئے ہیں وہ بہت جلد تمام سچائیوں کو کھلی آنکھوں سے دکھا دے گا۔ اور ہر شخص اس بات کو پیش نظر رکھے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اللہ اس سے بیخبر نہیں ہے وہ ہر ایک کی ہر بات کو اچھی طرح جانتا ہے۔ الحمد للہ سورة نمل کا ترجمہ و تشریح مکمل ہوئی۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
Top