Baseerat-e-Quran - Al-An'aam : 161
قُلْ اِنَّنِیْ هَدٰىنِیْ رَبِّیْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ١ۚ۬ دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا١ۚ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ
قُلْ : کہہ دیجئے اِنَّنِيْ : بیشک مجھے هَدٰىنِيْ : راہ دکھائی رَبِّيْٓ : میرا رب اِلٰي : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا دِيْنًا : دین قِيَمًا : درست مِّلَّةَ : ملت اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم حَنِيْفًا : ایک کا ہو کر رہنے والا وَ : اور مَا كَانَ : نہ تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
(اے نبی ﷺ ! ) صاف کہہ دیجئے کہ (مشرکو ! ) بیشک میرے رب نے صراط مستقیم کی طرف میری رہنمائی کردی ہے۔ (یہی وہ مستحکم نسخہ حیات ہے ملت بنانے والا نظام ہے) جسے ابراہیم (علیہ السلام) نے پورے خلوص سے مضبوط پکڑ لیا تھا۔ اور وہ ہر گز مشرکوں میں سے نہ تھے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 161 تا 164 : دینا قیما ( مضبوط و مستحکم دین) نس کی (میری قربانی) محیای ( میری زندگی) مماتی ( میری موت) امرت ( مجھے حکم دیا گیا) وازرۃ ( بوجھ) ‘ وزراخری ( دوسرے کا بوجھ) ۔ تشریح : آیت نمبر 161 تا 164 : رد شرک پر بحث کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ چند ٹھوس حقیقتوں پر سورة الانعام کو موثر ترین پیرایہ میں ختم فرما رہے ہیں۔ آیت 158 میں کہا ہے (اے نبی ﷺ صاف صاف پکار دیجئے کہ تم لوگ بھی وقت (موت ) کا انتظار کرو۔ ہم بھی انتظار کررہے ہیں۔ یہاں شرک کے خلاف چند دلائل قائم کئے ہیں اور یہ حجت تمام ہے۔ یہ دلیلیں رسول ﷺ کی زبانی ہیں۔ دعویٰ ہیں ‘ حجت ہیں۔ پہلی دلیل : صراط مستقیم کی طرف رہنمائی مجھے میرے رب کی طرف سے ( بذریعہ وحی) ملی ہے۔ قیات و گمان ‘ وہم اور ذہنی پریشانی ‘ آبائو اجداد کی اندھی تقلید ‘ خواہشات نفس ‘ مادی یا سیاسی مفاد ‘ رسم دنیا ‘ وغیرہ وغیرہ کے تحت میں نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا ہے۔ دوسری دلیل : یہ وحی مجھے میرے رب نے بھیجی ہے جو تمام کائنات کا مالک اور منتظم ہے ‘ جو غیب و حضور تمام حقیقتوں اور تمام مصلحتوں کا آقا ہے۔ لفظ ” رب “ سے اشارہ ہے کہ وہ ہستی میری مربی ہے ‘ سر پرست ہے ‘ رفیق و شفیق ہے۔ جو کچھ کیا ہے اپنے لئے نہیں بلکہ سراسر میری بہتری کے لئے کیا ہے۔ تیسری دلیل : یہ صراط مستقیم ہے۔ دین قیم ہے۔ ملت ابراہیم (علیہ السلام) ہے۔ اس کے مقابلہ میں اے مشرکو ! تمہاری پسندیدہ چیز کیا ہے ؟ چوتھی دلیل : اس دین اسلام کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پسندیدگی کی مہر حاصل ہے۔ انہوں نے خوب سوچ سمجھ کر اسے اختیار کیا تھا اور پھر تن من دھن سے ہر چہار طرف سے کٹ کر اور ہٹ کر اسی کے ہورہے تھے ویسے تو ہر پیغمبر کا دین صرف دین اسلام تھا لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نام خاص طور پر اس لئے لیا گیا ہے کہ اللہ نے انہیں تمام دنیا پر امامت کا تاج عطا کیا تھا۔ یہودو نصاریٰ مسلمان ‘ مشرکین عرب ‘ بھارت کے ہندو سب انہیں مقتدا اور محترم تسلیم کرتے ہیں۔ ہندوؤں کے سب سے بڑے دیوتا کا نام برہما ہے۔ یہ لفظ ابراہیم کا بگاڑ ہے یا سنسکرت ہے یا جغرافیائی لحاظ سے تلفظ کا فرق ہے) ۔ پانچویں دلیل : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہرگز مشرک نہ تھے بلکہ وہ خالص مسلم اور مجاہد تھے۔ ان کے زمانے میں بہت سے غیر اللہ کی پرستش ہوتی تھی۔ مثلاً بادشاہ ‘ آگ ‘ باپ ‘ بیٹا ‘ سورج ‘ چاند ‘ ساترے ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بادشاہ اور باپ سے اختلاف کیا ‘ آگ میں کودے ‘ بیٹے کی قربانی پیش کی ‘ سورج چاند ستاروں کی نفی کی اور اس طرح شرک کی ہر جڑ پر عظیم کلہاڑی سے وار کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نام اس لئے بھی لیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ساتھ خانہ کعبہ کی دو بارہ تعمیر کی جس کا حج آج تک ہورہا ہے۔ وہ حج جس میں قربانی اللہ کے نام پر آج تک پیش ہورہی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مشرکین مکہ یہودیوں اور نصاریٰ کے تعاون سے خانہ کعبہ اور حج اور مناسک حج کے نگراں بنے ہوئے تھے۔ ان سے کہا جارہا ہے کہ تم کس حق سے نگراں ہو جب کہ کعبہ کا بنانے والا اور حج قائم کرنے والا ہرگز مشرک نہ تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نام اس لئے بھی لیا گیا ہے کہ ان کے بعد جتنے پیغمبر آئے ہیں وہ ان ہی کی نسل سے آئے ہیں۔ اس لئے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کے ماننے والوں سے کہا گیا ہے کہ تم کس طرح ان کے جدامجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) (جو خود بھی پیغمبر اعظم تھے) کے خلاف شرک اختیار کرسکتے ہو۔ وہ شرک جس کے خلاف تمام زندگی انہوں نے جہاد کیا۔ اگرچہ دین اسلام کا تعارف ان آیات میں پہلے ہوچکا ہے (صراط مستقیم۔ دین قیم۔ ملت ابراہیم (علیہ السلام) ) لیکن اب آگے مزید تشریح و تفسیر پیش کی جارہی ہے۔ اسلام اپنے مسلم سے کیا مطالبہ کرتا ہے۔ قل۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔ اپنے مسلمان ہونے کا اعلان چار دانگ عالم میں ڈنکے کی چوٹ کر دیجئے۔ یہ کوئی سازش نہیں ہے۔ یہ کوئی زیر زمین مسلح تحریک نہیں ہے۔ یہ کوئی راتوں رات انقلاب نہیں ہے۔ ان۔۔۔۔ ۔۔۔۔ معاملہ مشکوک نہیں ہے۔ صدفی صد ٹھوس یقینوں پر قائم و دائم ہے۔ صلاتی۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔ میری نماز۔ میری تمام ذاتی اور اجتماعی عبادتیں۔ اس راہ استقامت میں ہیں۔ نس کی۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔ میری تمام جانی ‘ مالی اور دوسری قربانیاں اللہ کے لئے ہیں۔ نسک سے مراد حج کا ہر فعل بھی ہے۔ مناسک حج۔ مشہور الفاظ ہے۔ ومحیای ومماتی۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ دنیا اور آخرت۔ ہوش سنبھالنے سے موت تک میرا ایک ایک فعل اک اک ارادہ۔ للہ رب العلمین۔۔۔۔ ۔ سرتاپا خاص اللہ کے لئے ہے جو رب العالمین ہے۔ مسلم کا قلب ہو ‘ دماغ ہو ‘ جسم ہو کسی کو اللہ کی مرضی کے خلاف حرکت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ وبذالک امرت۔۔۔۔ ۔۔۔۔ مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے۔ میں آزاد نہیں ہوں۔ حکم کا پابندہوں۔ وانا اول المسلمین۔۔۔۔ ۔۔۔۔ سب سے پہلا مسلم ‘ سب سے پہلا مومن نبی ہوتا ہے۔ وہ مثال قائم کرتا ہے۔ وہ اپنی تبلیغ کا چلتا پھر تاز ندہ ثبوت ہوتا ہے۔ وہ طوفانوں کے بیچ میں چٹان ہوتا ہے۔ اسلام کا مطالبہ صرف یہ نہیں ہے کہ بس ایمان کا اقرار کرلیا جائے اور ایک خفیہ شریک بن جائوگے۔ بلکہ یہ ہے کہ تحریک کے آگے آگے چلو۔ قیادت کرو۔ ہر خطرے میں پیش پیش رہو۔ اپنی صلاحیتوں کو اعلیٰ ترین سطح پر لائو اور نظام اسلامی کو آگے بڑھائو۔ نبی ﷺ سے سبق سیکھو۔ اگر حضور ﷺ ” اول المسلمین “ نہ بنتے تو آج یہ تحریک ہم تک اور آپ تک نہ پہنچتی۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے کہا ہے میرا دل چاہتا ہے ہر مسلمان اس آیت کو بار بار پڑھا کرے اور اس کو وظیفہ زندگی بنالے۔ آگے یہ جو فرمایا ہے ” کوئی جزا یا سزا نہیں پائے گا مگر جیسے اعمال کما کرلے جائے گا۔ کوئی بوجھ نہیں اٹھائے گا مگر اپے ہی نیک و بد اعمال کا “ تو یہ جواب ہے ولید بن معلوم ( جو اپنے آپ کو ولید بن مغیرہ کہا کرتا تھا) اور دوسرے کفار کا جو حضور ﷺ کو یہ پیش کش کیا کرتے تھے کہ آپ اسلام چھوڑ کر ہماری قوم میں واپس آجائیں۔ ہم آپ کے گناہ اپنے اعمال نامے میں لکھوالیں گے۔ آگے چل کر یہ پیش کش کردی ہ کہ اگر اعمال نامے میں ردو بدل نہیں ہوسکتا تو نہ سہی۔ آپ کی سزا ( نعوذ باللہ) ہم بھگت لیں گے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا ہے کہ زندوں کے اعمال کی سزا مردوں کو نہیں ملے گی۔ تمام انسانوں خصوصاً کافروں کی طرف فرمان کا رخ ہے کہ بہت جلد تم سب کو قبر میں جانا ہے اور وہاں سے روز حساب کچھ دور نہیں۔ یہ تمہاری زبان درازی اور کج بحثی نہیں چلے گی۔ اسلام لائو یا مت لائو ۔ اللہ بےپرواہ ہے۔ ہاں تم اپنا اپنا حشر دیکھ لوگے۔
Top