Ahkam-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 141
قُلْ اِنَّنِیْ هَدٰىنِیْ رَبِّیْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ١ۚ۬ دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا١ۚ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ
قُلْ : کہہ دیجئے اِنَّنِيْ : بیشک مجھے هَدٰىنِيْ : راہ دکھائی رَبِّيْٓ : میرا رب اِلٰي : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا دِيْنًا : دین قِيَمًا : درست مِّلَّةَ : ملت اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم حَنِيْفًا : ایک کا ہو کر رہنے والا وَ : اور مَا كَانَ : نہ تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
کہہ دو کہ میرے پروردگار نے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے۔ (یعنی) دین صحیح مذہب ابراہیم کا جو ایک (خدا) ہی کی طرف کے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔
ملت ابراہیمی قول باری ہے ( قل اننی مدانی ربی الیٰ صراط مستقیم دینا قیما ملۃ ابراھیم حنیفا۔ اے محمد ﷺ ! کہو میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھایا ہے بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ جسے یکسو ہو کر اس نے اختیار کیا تھا) قول باری ( دینا قیما) کے معنی ” دین مستقیم “ ( سیدھا راستہ کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے حضر ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ قرار دیا۔ حنیف اس شخص کو کہتے ہیں جو پورے اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتا ہو۔ یہ قول حسن سے مروی ہے۔ ایک قول کے مطابق اس کے اصل معنی میل یعنی ملان کے ہیں عربی میں ” رجل احنف “ اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے قدموں میں پیدائشی طور پر آگے کی طرف جھکائو ہو یعنی ہر قدم دوسرے سے آگے کی طرف جھکا ہوا ہو۔ یہ پیدائشی طور پر ہو کسی عارضے کی بنا پر نہ ہو۔ اس لیے اس شخص کو حنیف کے نام سے موسوم کیا گیا جو مائل الی الاسلام ہو۔ اس لیے کہ اسمیں پیچھے کی طرف ہٹنا نہیں ہوتا۔ ایک قول ہے کہ اس کے اصل معنی استقامت کے ہیں۔ مائل القدم کو احنف تفائول یعنی نیم فال کے طور پر کہا جاتا ہے جس طرح سانپ کے ڈسے ہوئے کو تفائول کے طور پر سلیم یعنی سلامتی والا کہا جاتا ہے۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت کی جو باتیں منسوخ نہیں ہوئیں وہ ہمارے نبی ﷺ کی شریعت کا حصہ بن گئی ہیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ حضور ﷺ کا دین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ ہے۔
Top