Anwar-ul-Bayan - An-Naml : 47
وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑا اٰلَ فِرْعَوْنَ : فرعون والے بِالسِّنِيْنَ : قحطوں میں وَنَقْصٍ : اور نقصان مِّنَ : سے (میں) الثَّمَرٰتِ : پھل (جمع) لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَذَّكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور ہم نے قوم فرعون کو چند سال تک قحط اور ثمرات کی کمی سے آزمایا تاکہ وہ یاد رکھیں
لغات القرآن آیت نمبر (130 تا 136 ) ۔ السنین (سنتہ) ۔ کئی سال۔ قحط سالی) ۔ یطیروا (طیر) ۔ بدشگونی۔ (پرندوں سے بد شگونی لیتے تھے) ۔ طئرھم (ان کی بد قسمتی۔ بد بختی) ۔ مھما (جب بھی۔ جو بھی) ۔ الجراد (ٹڈی) ۔ القمل (چچڑیاں (چھوٹے چھوٹے جانور) ۔ الصفادع (مینڈک ) ۔ الدم (خون ) ۔ ایت مفصلت (بہت سی مسلسل نشانیاں) ۔ الرجز (عذاب ) ۔ لنرسلن (البتہ ہم ضرور بھیجیں گے ) ۔ ینکثون (وہ عہد توڑ دیتے ہیں) ۔ الیم (دریا۔ سمندر ) ۔ تشریح : آیت نمبر (130 تا 136 ) ۔ ” قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے : ” اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نو نشانیاں عطا کیں “ گذشتہ چند آیات میں ان نونشانیوں (معجزات ) کا ذکر ہے۔ (1) عصا کا اژدھا بن جانا (2) ید بیضا (3) قوم فرعون پر قحط (4) طوفان (5) ٹڈیوں کی یلغار (6) گھن کا کیڑا (7) مینڈکوں کا عذاب (8) خون کا عذاب (9) طاعون۔ اس قوم پر کئی سال تک ایسا قحط پڑا کہ وہ لوگ دانے دانے کو محتاج ہوگئے بالآخر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا فرمائی اور یہ قحط ان سے دور ہوا۔ مگر وہ پھر کفر پر اڑگئے تب اللہ نے پانی کا عذاب مسلط کیا زمین سے بھی پانی نکلنے لگا اور آسمان سے بھی طوفانی بارشیں ہونے لگیں ان کے اٹھنے بیٹھنے کی جگہ نہ رہی ساری چیزیں بھیگ گئیں۔ اناج اور غلہ خراب ہوگیا کھانا پکنا مشکل ہوگیا طوفان کی یہ سب مصیبتیں قبطیوں (قوم فرعون) پر آئیں لیکن بنی اسرائیل کے گھر کھیتی باڑی باغ وغیرہ مخفوظ رہے۔ آخر انہوں نے بہت سے وعدے کر کے پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے دعا کرائی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے مصیبت تو ٹل گئی مگر انہوں نے کسی وعدے کو پورا نہیں کیا پھر اللہ نے ان قبطیوں پر سزا کے طور پر ٹڈیوں کے دل کے دل مسلط کئے ان کے سارے کھیت اور باغ تباہ و برباد ہو کر وہ گئے کھیتوں اور باغات کی تباہی نے انہیں بوکھلا کر رکھ دیا پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس دوڑے دوڑے ہوئے آئے روئے اور گڑ گڑائے پھر بہت سے وعدے کئے قسمیں کھائیں آخر پھر پیغمبر کی دعا سے یہ آفت دور ہوئی مگر نہ تو وہ اللہ پر ایمان لائے نہ بنی اسرائیل کو ان کے ساتھ بھیجا۔ پھر عہد شکنی اور سر کشی پر اڑگئے۔ قحط ، طوفان اور ٹڈیوں کا عذاب اتنا سخت تھا کہ ان کو سنبھل جانا چاہیئے تھا مگر اس قوم کا مزاج اتنا سخت بن چکا تھا کہ ہر مصیبت کے ٹلنے پر وہ پھ سے اپنی سرکشی اور نافرمانی میں لگ جاتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذابوں کا سلسلہ قائم رہا چناچہ ایک دفع پھر ان پر گھن کے کیڑوں کا عذاب مسلط کیا گیا۔ جوں، مکھی، مچھر اور طرح طرح کے کیڑے پیدا کئے گئے جن سے کوئی چیز محفوظ نہ تھی۔ نہ وہ بیٹھ سکتے تھے، نہ کام کرسکتے تھے ہر جگہ کیڑے ہی کیڑے ہوگئے جسم میں ہر جگہ خارش سر میں جوئیں اور کھجلی پیدا ہوگئی یہ عذاب اتنا سخت تھا کہ پوری قوم بلبلا اٹھی۔ آخر ان کے حالات پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ترس آگیا۔ دعا کی اور یہ آفت ٹل گیں۔ لیکن عذاب ٹلنے کے بعد پھر وہ اسی تکبر غرور دنیا پرستی اور ہٹ دھرمی میں مبتلا ہوگئے۔۔۔۔ ۔ پھر مینڈک کا عذاب مسلط کردیا گیا ہر جگہ مینڈک، برتنوں میں بستروں پر بدن پر رات کو چھت میں سے مینڈک ٹپکتے اور یہ مینڈک بھی نہایت مکروہ شکل کے تھے جن کو دیکھ کر وحشت ہوتی تھی۔۔۔۔ ۔ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے دعا کی درخواست لے کر آگئے اور پھر سے جھوٹے وعدے، قسمیں اور ایمان لانے کی باتیں کرنے لگے مصیبت تو ایک دفع ٹل گئی مگر پھر وہی اکڑ ، وہی تکبروہی کفر و شرک نتیجہ یہ ہوا کہ جب قوم مطمئن ہوگئی تو اللہ نے ان کی نافرمانیوں کے سبب ان پر خون کا عذاب مسلط کردیا یہ بھی ہر برتن میں ہر بستر پر پانی کے برتنوں میں کپڑوں میں زمین پر خون نظر آتا۔ پوری قوم پھر گھبرا اٹھی۔ پھر نالہ و فریاد لے کر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچ گئی۔ دعا کی گئی عذاب ٹل گیا مگر وہ قوم اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئی۔ کہا جاتا ہے کہ ان مسلسل عذابوں نے ان کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی تھی مگر وہ اللہ کی طرف رجوع نہیں کرتے تھے کہا جاتا ہے کہ ایک آخری عذاب جو ان پر مسلط کیا گیا وہ طاعون کا تھا جس میں ستر ہزار قبطی ہلاک ہوگئے پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا ان کے کام آئی۔ یہ سارے عذاب آتے رہے یعنی ان کے درمیان سنبھلنے اور درست ہونے کا کافی موقعہ دیا گیا لیکن جس کو سنبھلنا نہیں ہوتا اس پر بڑی سے بڑی آفت بھی اثر نہیں کرتی اور اس کی ہٹ دھرمی اس کو ہر سعادت سے محروم رکھتی ہے۔
Top