Baseerat-e-Quran - At-Tawba : 63
اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ مَنْ یُّحَادِدِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَاَنَّ لَهٗ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِیْهَا١ؕ ذٰلِكَ الْخِزْیُ الْعَظِیْمُ
اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا : کیا وہ نہیں جانتے اَنَّهٗ : کہ وہ جو مَنْ : جو يُّحَادِدِ : مقابلہ کرے گا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول فَاَنَّ : تو بیشک لَهٗ : اس کے لیے نَارَ جَهَنَّمَ : دوزخ کی آگ خَالِدًا : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : اس میں ذٰلِكَ : یہ الْخِزْيُ : رسوائی الْعَظِيْمُ : بڑی
تو اللہ او اس کے رسول ﷺ زیادہ مستحق ہیں کہ وہ راضی ہوجائیں کیا وہ نہیں جانتے کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرے گا تو اس کے لئے وہ جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور وہ بڑی رسوائی ہوگی۔
لغات القرآن آیت نمبر 64 تا 66 یحذر (ڈرتا ہے) تنبی (مطلع کر دے) استھزء وا (مذاق اڑا لو) مخرج (نکالنے والا) نخوض (ہم دل لگی کر رہے ہیں) نلعب (ہم کھیل کر رہے ہیں) لاتعتذروا (تم معذرت نہ کرو) ان نعف (اگر ہم معاف کردیں) تشریح : آیت نمبر 64 تا 66 ان آیات میں مسلسل منافقین کی بدکرداریوں کا ذکر فرمایا جا رہا ہے اسی میں یہ بھی تھا کہ منافین اپنی نجی محفلوں میں بیٹھ کر اللہ کے رسول ﷺ اور اہل ایمان لوگوں کا مذاق اڑانے، طعن وطنز کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے ۔ وہ اہل ایمان جو جہاد فی سبیل اللہ کے لئے تیار ہوتے ان کی ہر طرح ہمت شکنی کیا کرتے تھے۔ اگر کبھی یہ بات کوئی مومن سن لیتا اور پوچھتا کہ تم کیا کہہ رہے تھے تو اپنی منافقت اور گری ہوئی ذہنیت کو چھپاتے ہوئے کہتے کہ ہم تو پوں ہی کچھ مذاق میں کہہ رہے تھے ہمارا قصد کوئی برائی کا نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے ایک ہی سوال کیا اور وہ یہ کہ کیا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تمہارے نزدیک یہی حیثیت ہے کہ تم ان کے متعلق کوئی بات ہنسی مذاق میں کر جائو۔ اور سمجھتے رہو کہ کوئی بات نہیں ہے حالانکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ اس بات کے حق دار ہیں کہ ادب و احترام کا ہر پہلو محلوظ رکھا جائے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ اس لئے نہیں ہیں کہ کوئی شخص ان کو یا ان کی باتوں کو تضحیک کا نشانہ بنائے۔ فرمایا گیا کہ جن لوگوں نے بھی ایسا کیا ہے یا سوچا ہے درحققیت انہوں نے ایمان لانے کے بعد کافرانہ حرکت کی ہے جو ناقابل معافی جرم ہے۔ اب یہ تو اللہ کی شان کریمی ہے کہ وہ ان منافقین میں سے جس کو چاہے معاف کر دے اور جس کو چاہے عذاب دے کیونکہ یہ سب کے سب اللہ کے مجرم ہیں۔
Top