Bayan-ul-Quran - Hud : 15
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْكَ شَیْئًا
اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِاَبِيْهِ : اپنے باپ کو يٰٓاَبَتِ : اے میرے ابا لِمَ تَعْبُدُ : تم کیوں پرستش کرتے ہو مَا لَا يَسْمَعُ : جو نہ سنے وَلَا يُبْصِرُ : اور نہ دیکھے وَلَا يُغْنِيْ : اور نہ کام آئے عَنْكَ : تمہارے شَيْئًا : کچھ
یاد کیجئے جب ابراہیم نے اپنے والد سے کہا : ابا جان ! آپ کیوں بندگی کرتے ہیں ایسی چیزوں کی جو نہ سن سکتی ہیں اور نہ دیکھ سکتی ہیں اور نہ ہی آپ کے کچھ کام آسکتی ہیں
آیت 42 اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ وَلَا یُغْنِیْ عَنْکَ شَیْءًا ” اِن آیات کے حوالے سے یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے والد کو مخاطب کرنے کا انداز انتہائی مؤدبانہ ہے : یٰٓاَبَتِ ‘ یٰٓاَ بَتِ اے میرے ابا جان ! اے میرے ابا جان ! ۔ ایک داعی اور مبلغ کے لیے یہ گویا ایک مثال ہے کہ اگر اسے دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں اپنے سے کسی بڑے یا کسی بزرگ کو مخاطب کرنا ہو تو اس کا طرز تخاطب کیسا ہونا چاہیے۔ اس لحاظ سے یہ قرآن مجید کا بہترین مقام ہے۔
Top