Jawahir-ul-Quran - Az-Zukhruf : 9
وَ لَئِنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِیْزُ الْعَلِیْمُۙ
وَلَئِنْ سَاَلْتَهُمْ : اور البتہ اگر تم پوچھو ان سے مَّنْ : کس نے خَلَقَ السَّمٰوٰتِ : پیدا کیا آسمانوں کو وَالْاَرْضَ : اور زمین کو لَيَقُوْلُنَّ : البتہ وہ ضرور کہیں گے خَلَقَهُنَّ : پیدا کیا ان کو الْعَزِيْزُ الْعَلِيْمُ : زبردست۔ غالب، علم والے نے
اور اگر تو ان سے پوچھے کس نے بنائے آسمان5 اور زمین تو کہیں بنائے اس زبردست خبردار نے
5:۔ ” ولئن سالتہم۔ الایۃ “ یہ توحید پر پہلی عقلی دلیل ہے علی سبیل الاعتراف من الخصم۔ یعنی اللہ کی توحید اور اس کے شریک اور نائب متصرف سے منزہ ہونے پر ایک ایسی حقیقت سے استدلال کیا گیا ہے جسے مشرکین قریش تسلیم کرتے اور اس کا اعتراف کرتے تھے۔ یعنی ان سے پوچھو تو سہی کہ زمین و آسمان کا خالق اور موجد کون ہے ؟ تو صاف اقرار کریں گے کہ اللہ تعالیٰ جو سب پر غالب اور سب کچھ جاننے والا ہے وہی زمین و آسمان کا خالق ہے۔ جب تم نے تسلیم کرلیا کہ عالم علوی اور عالم سفلی کا خالق اور موجد اللہ تعالیٰ ہی ہے اور ساری کائنات کی ایجاد میں اس کا کوئی شریک اور معاون و مشیر نہیں ہے، تو معبودانِ باطلہ کو اس کائنات کے اندر تصرف و اختیار میں خدا کے شریک اور نائب ماننا تمہارے پہلے اقرار وعتراف کے خلاف ہے۔ جب ایجاد کائنات میں اس کا کوئی شریک نہیں، تو تصرف و اختیار میں اس کا نائب بھی کوئی نہیں۔ ” خلقہن العزیز الحکیم “ یہ مشرکین کے جواب کی تعبیر بالمعنی ہے یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے یہی الفاظ کہے ہیں، کیونکہ دوسری جگہ ” لیقولن اللہ “ وارد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مشرکین زمین و آسمان کی تخلیق کو اس ذات کی طرف منسوب کریں گے جو ان صفات سے متصف ہے۔
Top