Tafseer-e-Haqqani - Al-Qalam : 42
یَوْمَ یُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّ یُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَۙ
يَوْمَ يُكْشَفُ : جس دن کھول دیاجائے گا عَنْ سَاقٍ : پنڈلی سے وَّيُدْعَوْنَ : اور وہ بلائے جائیں گے اِلَى السُّجُوْدِ : طرف سجدوں کے فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : تو وہ استطاعت نہ رکھتے ہوں گے
جس دن پردہ کھل جائے اور وہ سجدہ کے لیے بلائے جائیں تو سجدہ نہ کرسکیں گے۔
ترکیب : یوم منصوب امابقولہ فلیاتوا واما باذکر ویدعون معطوف علی یکشف۔ فلایستطیعون جواب یوم یکشف خاشعۃ بالنصب علی انھا حال من ضمیر یدعون ابصارھم مرفوع علی انہ فاعل خاشعۃ ونسبۃ الخشوع الی الابصار بظھور اثرہ فیھا وھم سالمون الجملۃ حال من فی یدعون ومن منصوب محلا عطفا علی الضمیر المنصوب فی ذرنی۔ تفسیر : اس کے بعد قیامت کا ہولناک واقعہ بیان فرماتا ہے کہ اس روز ان کے افتراء اور خیالی ڈھکوسلوں کا یہ نتیجہ ہوگا۔ فقال یوم یکشف عن ساق ویدعون الی السجود فلایستطیعون کہ جس دن پردہ کھل جائے گا اور وہ سجدے کے لیے بلائے جائیں گے تو سجدہ نہ کرسکیں گے۔ ساق کیا ہے : ساق کے لغوی معنی پنڈلی کے ہیں پھر کیا یہ حقیقت پر محمول ہے یا کنایہ ہے ؟ اول احتمال کی طرف فرقہ مشبہ گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں اس روز دراصل خدا تعالیٰ بندوں پر تجلی کرے گا اور پوری تجلی دیکھنے کی کسی کو قدرت نہ ہوگی اس لیے صرف پنڈلی کھل جائے گی جو ادنیٰ تجلی ہوگی۔ گو وہ پنڈلی ہماری جیسی پنڈلی نہ ہو لیکن اس کی ذات کے مناسب تب سجدے کے لیے حکم ہوگا پس جو لوگ دنیا میں اس کو سجدہ نہیں کرتے تھے وہ سجدہ نہ کرسکیں گے۔ ان کی پشت تختہ کی طرف ہوجائے گی۔ یہ مضمون اکثر احادیث صحیحہ میں وارد ہے اور اہل ظاہر کا اسی طرف رجحان ہے مگر اہل حق کہتے ہیں استعارہ مراد ہے کس لیے کہ لفظ حقیقی معنی پر محمول ہو نہیں سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ اعضاء سے پاک ہے۔ پھر اس سے کیا مراد ہے ؟ اس میں چند اقوال ہیں۔ اول یہ کہ مراد شدت و کرب ہے جو قیامت کے روز ہوگا۔ چناچہ ابن عباس ؓ سے کسی نے اس کے معنی دریافت کئے، آپ نے یہی بیان فرمائے اور فرمایا جب تم کو کسی لفظ قرآنی کے معنی معلوم نہ ہوا کریں تو شعرائے عرب کے اشعار کو دیکھا کرو۔ پھر آپ نے اس معنی کی سند میں یہ شعر پڑھا : سن لنا قومک ضرب الاعناق وقامت الحرب بنا علی ساق اور اسی طرح مجاہد نے بھی اس معنی کے ثبوت میں ابوعبیدہ اور جریر وغیرہ کے چند اشعار پڑھے۔ ابن قتیبہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جب کسی کام پر زور کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو پائچے چڑھاتا ہے اور پنڈلی کھل جاتی ہے اس لیے شدت کے موقع پر کہا کرتے ہیں کشف عن ساقہ۔ دوم ابی سعید ‘ ضریر وغیرہ کا قول ہے وہ یہ کہ کشف ساق سے مراد پردہ اور اصل کھل جانا ہے۔ یہ ایک محاورہ ہے۔ اور ساق ہر شے میں اس کی اصل اور جڑ ہے کہ جس پر وہ کھڑی ہوتی ہے۔ جیسا کہ ساق الشجر و ساق الانسان۔ تب یہ معنی ہوئے کہ جس روز حقائق ا ؎ کہ جس کے تاوان میں وہ دیے جاتے ہیں۔ الاشیاء اور ان کے اصول ظاہر ہوجائیں گے یعنی قیامت کے دن کہ یہ پردہ کھل جائے گا جیسا کہ سورة ق میں فرمایا تھا، لقدکنت فی غفلۃ من ھذا فکشفنا عنک غطاءک فبصرک الیوم حدید۔ کہ ” تو اے انسان ! اس سے غفلت میں تھا سو ہم نے تیرا پردہ کھول دیا پس تیری آنکھیں آج تیز ہیں “۔ اس عالم میں پردہ حسی آنکھوں پر پڑا ہوا ہے اس پر شہوات و لذات ‘ حُبِّ دنیا کے اور بھی پردے پڑے ہوئے ہیں۔ حقیقت الامرمنکشف نہیں ہونے دیتے اس لیے ادیان و مذاہب میں اختلاف ہے۔ کوئی کچھ کوئی کچھ بےتک کہہ رہا ہے جس طرح کہ مکہ کے کفار واہی تباہی منصوبے بیان کرتے تھے۔ سِرّ : یہی قول بہت درست ہے اور سرّاس کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ایک تو ذات ہے کہ جس کا ادراک محال ہے اور وہ مستقل محض ہے۔ دوسرے صفات کمال ہیں کہ جو جدا جدا عالم میں ظاہر نہیں ہوسکتے۔ علم بغیر قدرت کے اور قدرت بغیر علم کے اور دونوں بغیر حیات کے پائے نہیں جاتے اور صفات تابع محض ہیں ذات کے ان میں بغیر ذات کے کچھ بھی استقلال نہیں۔ سوم جہات کمال کو جن کو حقائق الٰہیہ بھی کہتے ہیں اور وہ بین بین ہیں۔ نہ صفات کی طرح محض غیرمستقل ‘ نہ ذات کی طرح محض مستقل اور ان جہات کمال کو اس عالم میں انسان کے اعضاء کے ساتھ پوری مشابہت اور ایک خاص نسبت ہے کیونکہ انسان کے اعضاء ہاتھ ‘ پائوں ‘ پنڈلی ‘ منہ وغیرہ نہ اس کے صفات کی طرح محض غیرمستقل اور نہ ذات انسان کی طرح مستقل ہیں اور انسان کے کمالات کا مظاہر بھی ہیں۔ شرع شریف میں ان حقائق کی چند چیزوں کے ساتھ تفصیل واقع ہوئی ہے اور یہ چیزیں ان حقائق کی تمثیل و تشبیہ ہیں نہ عین اور وہ یہ ہیں۔ وجہ ‘ عین ‘ ید ‘ یمین اصابع حقو یعنی کمر ‘ ساق ‘ قدم (منہ آنکھ ہاتھ داہنا ہاتھ انگلیاں کمر پنڈلی قدم) اب جس طرح ساق اور قدم اور وجہ وغیرہ کو جو حقائق الٰہیہ ہیں اور ان الفاظ میں ایک استعارہ کے طور پر بیان ہوئی ہیں خود بھی پنڈلی اور پائوں اور منہ سمجھ لینا غلطی اور تشبیہ ہے جیسا کہ مشبہ و اہل ظواہر کا مذہب ہے۔ اسی طرح ان کی تاویل و انکار کرنا جیسا کہ معتزلہ کرتے ہیں محض غلطی ہے۔ اہل سنت اس افراط وتفریط دونوں سے بری ہیں اور اہل سنت کے اس عقیدے کو بخاری و مسلم وغیرہما کی وہ حدیث بھی مخالف نہیں کہ جو ابی سعید ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ قیامت کے دن اپنی ساق کھولے گا تو تمام ایماندار مرد اور عورت سجدہ کریں گے اور جو دنیا میں ریاکاری کے لیے سجدہ کرتے تھے وہ سجدہ کرنا چاہیں گے تو ان کی پیٹھ تختے کی طرح اکڑ جائے گی سجدہ نہ کرسکیں گے۔ اور صحیح مسلم میں ان سے بھی زیادہ مشرح روایت ہے کس لیے کہ ان روایات میں بھی کشف ساق سے اسی جہت کمالیہ کا ظاہر ہونا مراد ہے جس کو استعارہ کے طور پر ساق سے تعبیر کیا گیا ہے۔ الحاصل محشر میں رب العزت کی ایک تجلی خاص ہوگی جس کو کشف ساق سے تعبیر کیا ہے۔ جس کے آگے کفارومشرکین سجدہ نہ کرسکیں گے اور اس کے سوا اس نورانی تجلی کی طرف نظر بھی نہ کرسکیں گے۔ خاشعۃً ابصارھم۔ بلکہ ان کی آنکھیں نیچی ہوں گی وترھقہم ذلۃ۔ اور ان پر ذلت و رسوائی چڑھے گی کیونکہ انہوں نے غیر اللہ کی پرستش کر کے اس کے نام پاک کی توہین و تذلیل کی تھی۔ مظاہر کو پوجا تھا اور یہ سجدہ اور جمال باکمال پر نظر کیوں نہ کرسکیں گے ؟ اس لیے کہ وقد کانوایدعون الی السجود وھم سالمون۔ دنیا میں انہوں نے اس مادہ غیبیہ کو جو انسان میں خداوند عالم نے ودیعت رکھا ہے اور وہی اس کو اس کا مشتاق دیدار اور مطیع بناتا ہے نافرمانی اور سرکشی کر کے ضائع کردیا تھا۔ اس بات کو ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے کہ اس سے پہلے دنیا میں ان کو سجدے کے لیے اس وقت میں بلایا جاتا تھا کہ وہ سالم تھے ان کی فطرت اور اصلی مادہ میں کوئی نقصان نہیں آیا تھا پھر انہوں نے انکار و سرکشی کی اور رفتہ رفتہ اس کو برباد کردیا۔ آج اس تجلی کے میدان میں سب کو کھڑا کر کے تجلی نورانی کا دکھایا جائے گا تاکہ شقی و سعید کا پورا امتیاز ہوجائے۔ پھر وہ جو دنیا میں اس کے آگے جھکتے تھے۔ سر کے بل اسی کے آگے عاجزی کرتے ہوئے گرتے تھے دل بھی اسی کے آگے جھکے ہوئے تھے اور ان کے دلوں میں وہ اشتیاق و محبت کا شعلہ تھا جس کو ایمان سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ فوراً اس کے آگے سجدہ میں گر پڑیں گے انہیں کہاں تاب رہے گی اور اس کے دیدار فیض آثار سے سرفرازی حاصل کریں گے۔ اس وقت مشتاقان جمالِ کبریائی کی عجیب حالت ہوگی اور بدلوگ نہ کرسکیں گے۔ وہ جنت میں یہ جہنم میں بھیج دیے جائیں گے۔ ابراہیم تیمی کہتے ہیں یہ معنی کہ وہ اذان و تکبیر کی آوازوں سے بلائے جاتے تھے پر نہ آتے تھے۔ سعید بھی جبیر ؓ کہتے ہیں حی علی الفلاح سنتے تھے اور نہ آتے تھے۔ کعب احبار کہتے ہیں یہ آیت نازل نہیں ہوئی تھی مگر ان لوگوں کے لیے جو جماعت سے پیچھے رہتے ہیں۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں وہ کفار دنیا میں بلائے جاتے تھے اور وہ امن کی حالت میں تھے پھر آج بلائے جائیں گے اور وہ خائف ہوں گے۔ ابی مسلم اصفہانی کہتے ہیں کہ آیت میں قیامت کا معاملہ مراد نہیں کیونکہ اس روز عبادت و سجدہ نہیں وہاں تو یہیں کے اعمال کا بدلہ ملے گا بلکہ مراد یہ ہے کہ انسان کے وقت اخیر کا معاملہ ہے۔ اس وقت خدا کی طرف رجوع نہیں کرسکتا اور پہلے تو لوگ اس کو نماز و عبادت کے لیے بلاتے تھے نہیں آتا تھا اب بجز حسرت کے اور کچھ نہیں یا بڑھاپے یا مرض کا واقعہ ہے کہ جوانی اور تندرستی میں جو سلامتی کا وقت تھا خدا تعالیٰ کے آگے نہیں جھکتے تھے، لوگ بلاتے تھے نہیں آتے تھے اور نشے میں چور تھے۔ اب بڑھاپا اور بیماری آئی، خود اس کی طرف جھکنے اور عبادت و نماز ادا کرنے کی قدرت نہیں رہی۔ یہ مراد بھی ممکن ہے مگر یہ کہنا کہ آخرت میں سجدہ نہیں ٹھیک نہیں کس لیے کہ وہاں سجدہ بطور تکلیف کے نہیں مگر بطور امتحان و سرزنش کے ہوگا۔ آنحضرت ﷺ کی اس بیان میں وہ سخت تکذیب کرتے تھے اور آپ کو ٹھٹھوں میں اڑاتے تھے اور دھمکاتے بھی تھے اس سے آپ کو کمال رنج ان کی بدنصیبی اور سرکشی پر ہوتا تھا اس لیے آنحضرت ﷺ کو تسلی دیتا ہے۔ فقال فذرنی ومن یکذب بھذا الحدیث کو چھوڑ مجھے اور اسے جو اس بات کو جھٹلا رہا ہے یعنی آپ کچھ رنج و فکر نہ کریں میں آپ سمجھ لوں گا۔ سنستدرجہم من حیث لایعلمون۔ میں رفتہ رفتہ انہیں ابھی پکڑے لیتا ہوں اس طرح سے کہ انہیں خبر بھی نہ ہوگی۔ استدراج، جلدی نہ کرنا، اور اس کے اصلی معنی ہیں ایک حال سے دوسرے حال کی طرف نقل کرنا کہتے ہیں۔ استدرج فلاں فلانا ای استخرج ماعندہ قلیلا قلیلا اور اسی سے تدریج ہے۔ اللہ تعالیٰ کا استدراج بندہ کے لیے یہ ہے کہ نعمت پر نعمت، مراد پر مراد ملے جائے اور یہ بدکاری اور ناشکری اور کفر میں پڑا ہوا ہو یہاں تک کہ کشتی بھر جائے، جلد ڈوب جائے، عذاب الٰہی نازل ہوجائے، یکایک موت آجائے یا کوئی ایسی مصیبت آئے کہ سر بھی نہ اٹھا سکے، توبہ اور خدا تعالیٰ کی طرف رجوع ہونے کی مہلت بھی نہ ملے۔ یہ ہے کہ عیش و نشاط میں پڑا ہوا مگن ہے اور اپنی بدکاری کے عمدہ پھل سمجھ رہا ہے۔ ادھر مصیبت ہے کہ چپکے چپکے اس کے پاس آن لگی ہے اور اس کمبخت کو خبر بھی نہیں۔ آج کن شادمانیوں کے ساتھ فاحشہ عورتوں کو لیے مے نوشی کر رہا ہے، شام کو مرگئے کل اسی وقت گور کے تنگ اور اندھیرے گڑھے میں پڑے اعمال کو بھگت رہے ہیں۔ یہ ہے اللہ کا استدراج جس سے بندہ واقف نہیں ہوتا۔ اور یہ بھی استدراج ہے کہ انسان کی عمر گرانمایہ آناً فاناً کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ہر صبح آفتاب کی جگمگاہٹ دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ ہر رات اس کی بہار لیتا ہے مگر یہ خبر نہیں کہ یہ میرے سفر کے منازل ہیں جو بےاختیار طے ہو رہے ہیں۔ پھر یکبارگی منزل پر پہنچ گیا۔ اب آنکھ کھل گئی، رونے پیٹنے لگا مگر اب کیا ہوتا ہے۔ اسی لیے فرماتا ہے واملی لہم ان کیدی متین۔ کہ میں انہیں ڈھیل دے رہا ہوں، میرا داؤ بڑا مضبوط ہے کہ جس سے رستگاری ممکن نہیں اور کیونکر رستگاری ہو سکے جبکہ اس کا داؤ انسان کے جمیع قوائے ادراکیہ کو احاطہ کئے ہو اور بری بات کو بھلی سمجھا ہو۔ جیسا کہ کفار مکہ کہ تو ان کو علوم نافعہ بتا رہا ہے اور آب حیات پلا رہا ہے اور وہ ہیں کہ اس کے مقابلے میں سرکشی کرتے ہیں اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ آپ کی اس سے کوئی غرض دنیاوی نہیں۔ ام تسئلہم اجرا فہم من مغرم مثقلون کہ کیا آپ ان سے کوئی اجر یا مزدوری مانگتے ہیں جس کے بوجھ سے وہ دبے جاتے ہیں جس لیے آپ سے استفادہ نہیں کرتے۔ ام عندھم الغیب فیہم یکتبون اور جب آپ سے استفادہ نہیں کرتے تو پھر ان کے پاس غیب ہے یعنی انہیں امور غیبیہ ‘ احکام الٰہیہ و منافع و مضراتِ آخرت کا بطور کشف والہام علم ہے کہ جس کو وہ لکھتے ہیں یا اپنے دلوں کے ورقوں پر لکھے بیٹھے ہیں۔ پھر جب یہ دونوں باتیں نہیں تو قطعاً جان لینا چاہیے کہ وہ کیدالٰہی میں گرفتار ہیں کہ ان کو کسی طرح فکروتامل کرنے کی مہلت نہیں ملتی اور کسی طرح ان کے دلوں تک نہیں پہنچ سکتا۔
Top