بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Dure-Mansoor - Adh-Dhaariyat : 1
وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۙ
وَيْلٌ : خرابی لِّكُلِّ : واسطے، ہر هُمَزَةٍ : طعنہ زن لُّمَزَةِۨ : عیب جو
بڑی خرابی ہے ہر اس شخص کے لیے جو عیب نکالنے والا ہو طعنہ دینے والا ہو
1۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ویل لکل ہمزۃ مکہ میں نازل ہوئی۔ 2۔ ابن ابی حاتم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ان سے کہا گیا کہ یہ آیت ویل لکل ہمزۃ لمزۃ عیب چیں اور چغلخوروں کے لیے ہلاکت ہے۔ اصحاب محمد ﷺ کے بارے میں نازل ہوئی۔ ابن عمر ؓ نے فرمایا نہ ہم اس کے بارے میں فکر مند ہیں اور نہ قرآن مجید کی دس سورتوں کے بارے میں فکر مند ہیں۔ 3۔ عثمان بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ہم برابر سنتے رہے کہ آیت ویل لکل ہمزہ کسی کے لیے رکاوٹ نہیں ہے بلکہ یہ جمیل بن عامر کے بارے میں نازل ہوئی۔ رقاشی کا یہ خیال ہے۔ 4۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ آیت ویل لکل ہمزہ اخنس بن شریق کے بارے میں نازل ہوئی۔ ضرورت سے زائد بناؤ سنگار کا انجام 5۔ ابن مردویہ والبیہقی نے شعب الایمان میں راشد بن سعد المقدامی سے روایت کیا اور انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جب مجھے اوپر آسمانوں پر لے جایا گیا۔ تو میں کچھ لوگوں کے پاس سے گذرا جن کی کھالیں آگ کی قینچیوں سے کاٹی جارہی تھیں۔ میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ جبریل (علیہ السلام) نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو زیب وزینت کرتے رہتے تھے اور فرمایا پھر میں ایک بدبو دار کنوئیں کے پاس سے گذرا میں نے اس میں سے سخت قسم کی آوازیں سنیں۔ میں نے پوچھا اے جبریل ! یہ کون لوگ ہیں۔ تو انہوں نے فریا یہ تمہاری وہ عورتیں ہیں جو بناؤ سنگھار کرتی تھیں اور وہ کچھ کرتی تھیں جو ان کے لیے حلال نہیں تھا پھر میں ایسے عورتوں اور مردوں پر گذرا جو ان کے پستانوں سے معلق تھے میں پوچھا اے جبریل ( علیہ السلام) یہ کون ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا یہ طعنہ دینے والے مرد اور طعنہ دینے والے مرد اور طعنہ دینے والی عورتیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت ویل لکل ہمزۃ لمزہ ہر غیب کرنے والے طعنہ دینے والے کے لیے ہلاکت ہیں۔ 6۔ سعید بن منصور وابن ابی الدنیا فی ذم الغیبۃ وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ نے کئی طرق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے اللہ تعالیٰ کے اس قول آیت ویل لکل ہمزۃ لمزہ کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا وہ آدمی جو چغلیاں کھا کر جمعیت کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے والا اور دو بھائیوں کے درمیان اکسانے والا۔ 7۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ویل لکل ہمزۃ۔ یعنی طعن کرنے والا اور لمزہ یعنی غیبت کرنے والا۔ طعنہ زنی کرنے کی ممانعت 8۔ الفریابی وعبد بن حمید وابن ابی الدنیا فی ذم الغیبۃ وابن جریر وابن المنذر نے وابن ابی حاتم اور بیہقی نے شعب الایمان میں مجاہد (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ” الہمزہ “ یعنی لوگوں میں طعنہ زنی والا۔ واللمزہ یعنی جو لوگوں کے گوشت کھاتا ہے۔ 9۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے آیت ویل لکل ہمزۃ لمزہ کے بارے میں روایت کیا کہ جو لوگوں کے گوشت کھاتا ہے اور ان پر طعنہ زنی کرتا ہے۔ 10۔ عبد بن حمید نے ابو العالیہ (رح) سے آیت ویل لکل ہمزۃ لمزۃ کے بارے میں روایت کیا کہ جو روبرو طعنے دیتا ہے اور پیٹھ پیچھے عیب لگاتا ہے۔ 11۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے آیت ویل لکل ہمزۃ لمزہ کے بارے میں روایت کیا کہ ہلاکت ہے ہر اس شخص کے لیے جو اپنی زبان اور اپنی آنکھوں سے طعنے دیتا ہے اور عیب جوئی کرتا ہے اور لوگوں کے گوشت کھاتا ہے اور ان پر طعنہ زنی کرتا ہے۔ 12۔ البیہقی نے شعب الایمان میں ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ عیب جوئی کرنا آنکھوں کے ساتھ اور جبڑوں کے ساتھ اور ہاتھوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور طنز کرنا زبان کے ساتھ ہوتا ہے۔ 13 ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ آیت جمع مالا وعددہ جو مال کو جمع کرتا ہے اور گنتا رہتا ہے یعنی جس نے مال جمع کیا اور اس کو گن گن کر رکھا۔ 14۔ ابن حبان والحاکم وصححہ وابن مردویہ نے اور الخطیب نے اپنی تاریخ میں جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے اس طرح پڑھا آیت ایحسب ان مالہ اخلدہ سین کے کسرہ کے ساتھ وہ خیال کرتا ہے کہ اس کا مال اسے سدا رکھے گا۔ 15۔ ابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ایحسب ان مالہ اخلدہ یعنی اس کا مال اس کی عمر میں زیادتی کرے گا۔ 16۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ آیت کلا لینبذن فی الحطمہ ہرگز نہیں وہ ضرور پھینکا جائے گا یعنی وہ یقیناً پھینک دیا جائے گا۔ 17۔ ابن ابی حاتم نے حسین بن واقد (رح) سے روایت کیا کہ آیت الحطمۃ جن ہم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔ 18۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے محمد بن کعب (رح) سے روایت کیا کہ آیت التی تطلع علی الافئدہ جو دلوں تک جا پہنچتی ہے یعنی وہی آگ اس کی ہر چیز کو کھاجائے گی یہاں تک کہ اس کے دل کے پاس پہنچ کر رک جائے گی۔ جب اس کے دل کی طرف پہنچے گی تو پھر اس کی خلقت کو مکمل کردیا جائے گا۔ 19۔ ابن عساکر نے محمد بن المنکر (رح) سے آیت التی تطلع علی الافئدہ کے بارے میں روایت کیا کہ اس کو آگ کھاتی رہے گی یہاں تک کہ اس کے دل کی طرف پہنچ جائے گی اور وہ زندہ ہوگا۔ 20۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت انہا علیہم موصدۃ بیشک آگ ان پر چاروں طرف سے بند کردی جائے گی۔ آیت فی عمد ممد دہ آگ کے ستونوں میں۔ 21۔ عبد بن حمید نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فی عمد پڑھا۔ 22۔ ابن ابی حاتم نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فی عمد مددۃ پڑھا اور فرمایا یہ سیاہ رنگ کے ہیں۔ 23۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ فی عمد سے مراد دروازے ہیں۔ 24۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت فی عمد ممددہ سے مراد ہے کہ ان کو ستونوں میں داخل کر کے ان کی گردنوں میں زنجیریں ڈال دی جائیں گی۔ اور ان کے دروازے بند کردئیے جائیں گے۔ 25۔ ابن ابی حاتم نے عطیہ (رح) سے روایت کیا کہ فی عمد سے مراد ہے کہ وہ لوہے کے ستون ہیں جہنم میں۔ 26۔ عبدالرزاق وعبد بن حمیدوابن المنذر نے قتادہ (رح) سے فی عمد کے بارے میں روایت کیا کہ ہم یہ بیان کرتے تھے کہ وہ ایسے ستون ہوں گے کہ جن کے ذریعہ جہنم میں عذاب دئیے جائیں گے۔ 27۔ ابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابو صالح (رح) سے آیت فی عمد ممددۃ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ لمبی بیڑیاں ہوں گی۔ 28۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ جس نے فی عمد پڑھا تو تو ان کے نزدیک یہ آگ کے ستون ہیں اور جس فی عمد پڑھا تو ان کے نزدیک لمبی رسی مراد ہے۔ جہنم کی گھاٹی میں یا حنان ومنان کی پکار 29۔ ابن جریر وابن المنذر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی جہنم کی گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں ہوگا جو ایک ہزار سال تک یا حنان یا منان پکارے گا۔ تو رب العزت جبریل ﷺ سے فرمائیں گے میرے بندے کو آگ میں سے نکالو چناچہ وہ اس کے پاس آئے گا۔ اور اس کو بند پائے گا۔ تو وہ واپس لوٹ جائے گا اور عرض کرے گا اے میرے رب آیت انہا علیہم موصدہ کہ وہ ان پر چاروں طرف سے بند کردی جائے گی۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اے جبریل ( علیہ السلام) اس کو کھول دو ۔ اور میرے بندے کو آگ سے نکال دے۔ وہ اس کو کھولے گا اور اس کو کوئلے کی طرح نکال کر جنت کے ساحل پر ڈال دے گا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے بالوں کو، گوشت کو اور خون کو سب کو پیدا فرمادیں گے۔ 30۔ الحکیم الترمذی نے نوادر الاصول میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بیشک شفاعت قیامت کے دن ان کے لیے ہوگی جنہوں نے میری امت میں سے بڑے گناہ کیے۔ پھر اسی پر مرگئے توبہ نہیں کرسکے۔ وہ جہنم کے پہلے دروازہ میں ہوں گے ان کے چہرے کالے نہ ہوں گے اور ان کی آنکھیں نیلی نہ ہوں گی اور نہ ان کو طوق پہنایا جائے گا اور نہ ان کو شیطانوں کے ساتھ ملایا جائے گا اور نہ ان کو گرزوں کے ساتھ مارا جائے گا اور نہ ان کو جہنم کے طبقوں میں پھینکا جائے گا۔ ان میں بعض وہ ہوں گے جو ایک ساعت اس میں ٹھہریں گے اور کچھ ایک دن ٹھہریں گے پھر نکال لیے جائیں گے اور ان میں سے وہ ہوں گے جو ایک مہینہ ٹھہریں گے پھر ان کو نکال لیا جائے گا۔ اور ان میں سے وہ ہوں گے جو اس میں ایک سال تک رہیں گے پھر ان کو نکال لیا جائے گا اور ان میں سے وہ ہوں گے جو اس میں ایک سال تک رہیں گے پھر ان کو نکال لیا جائے گا۔ اور ان میں سے زیادہ دیر تک ٹھہرنے والے جو دنیا کی مثل ٹھہرے گا یعنی دنیا کے پیدا ہونے کے دن سے لے کر اس کے فنا ہونے کے دن تک اور وہ مدت سات ہزار سال ہے پھر اللہ جل شانہ جب موحدین کے نکالنے کا ارادہ فرمائیں گے تو دوسرے دین والوں کے دلوں میں ڈال دیں گے۔ تو وہ ان سے کہیں گے تم اور ہم دنیا میں اکٹھے تھے۔ تم ایمان لائے اور ہم نے کفر کیا۔ اور تم نے تصدیق کی اور ہم نے تکذیب کی تم اقرار کیا اور ہم نے انکار کیا۔ پس اس نے تم کو کوئی نفع نہیں دیا۔ ہم اور تم اس میں برابر ہیں تم عذاب دئیے جاتے جیسے ہم عذاب دئیے جاتے ہیں اور تم بھی اسی طرح ہمیشہ رہو گے جیسے ہم رہتے ہیں۔ تو اللہ اس وقت شدید غصہ ہوں گے کہ اس سے پہلے کسی چیز سے اتنا غصہ نہیں ہوئے اور نہ اس کے بعد کسی چیز پر اتنا غصہ فرمائیں گے۔ پھر اہل توحید کو جہنم سے جنت کے چشمے اور پل صراط کی طرف نکال لائے گا۔ اس کو زندگی کی نہر کہا جاتا ہے وہاں ان پر اس کے پانی کا چھڑکاؤ کیا جائے گا۔ تو وہ اس طرح زندہ ہو کر اٹھیں گے جیسے سیلاب کے کوڑے میں دانے اگتے ہیں وہاں جو سائے کے قریب ہوگا وہ سبز ہوگا اور جو دھوپ کے قریب ہوگا وہ زرد ہوگا پھر وہ جنت میں داخل ہوں گے۔ ان کے چہرو پر لکھا ہوگا عتقاء اللہ عن النار کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے آزاد کردہ ہیں مگر ایک آدمی ایسا ہوگا جو ان کے بعد ہزار سال تک جہنم رہے گا پھر وہ آواز دے گا۔ یا حنان یا منان۔ تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایک فرشتے کو بھیجیں گے تاکہ اس کو نکال لائے وہ اس کی تلاش میں جہنم کے ستر سال تک ادھر ادھر گھومتا پھرے گا۔ مگر اس کو نہ پاسکے گا۔ پھر لوٹ آئے گا اور کہے گا : یا میرے رب ! بیشک آپ نے مجھے حکم فرمایا تھا کہ تیرے فلاں بندے کو میں آگ سے نکالوں۔ میں نے ستر سال تک اس کو آگ میں تلاش کیا مگر میں اس پر قادر نہیں ہوا۔ تو اللہ عزوجل فرمائیں گے تو چلا جا اور اس اس طرح کی وادی میں ایک چٹان کے نیچے ہے اس کو نکال کر آ۔ وہ جائے گا اس کو اس میں سے نکال کر جنت میں داخل کردے گا۔ پھر جہنمی لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف التجاء کریں گے کہ وہ ان سے یہ نام مٹادے۔ اللہ تعالیٰ ان کی طرف فرشتے کو بھیجیں گے تو وہ ان کی پیشانیوں سے اسے مٹادے گا۔ پھر جنت والوں کو کہا جائے گا۔ اور ان کو جہنمیوں میں سے داخل ہوئے کہ تم دوزخ والوں کی طرف جھانکو تو وہ ان کی طرف جھانکیں گے تو کوئی آدمی اپنے باپ کو دیکھیے گا اور کوئی اپنے بھائی کو اور کوئی اپنے پڑوسی کو اور کوئی اپنے دوست کو دیکھے گا۔ اور غلام اپنے آقا کو دیکھے گا پھر اللہ عزوجل ان کی طرف فرشتے بھیجے گا۔ جن کے پاس آگ کی بڑی بڑی پلیٹیں ہوں گی آگ کے کیل ہوں گے۔ اور آگ کے ستون ہوں گے پس وہ جہنم والوں پر ان ڈھکنوں کو رکھ دیں گے اور وہ کیل ان میں لگادں گے۔ اور اوپر وہ ستون پھیلادیں گے جہنم میں کوئی سوراخ باقی نہیں رہے گا کہ اس میں کوئی روح یعنی راحت داخل ہوسکتی ہو اور نہ ان میں سے کوئی غم باہر نکل سکے گا اور جبار مطلق اپنے عرش پر ان کو بھلا دے گا۔ اور جنت والے اپنی نعمتوں میں مشغول ہوجائیں گے اور اس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے کبھی کوئی فریاد نہیں کریں گے۔ اور کلام ختم ہوجائے گا۔ اور ان کی آواز گدھے کی آوازوں کی طرح ہوجائے گی۔ پس اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت انہا علیہم موصدہ فی عمد ممدہ۔ بیشک وہ ان پر جہنم کی آگ بند کردی جائے گی اور اس کے شعلے لمبے لمبے ستونوں کی صورت میں ہوں گے۔ واللہ اعلم
Top