Dure-Mansoor - Ar-Ra'd : 41
اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا١ؕ وَ اللّٰهُ یَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهٖ١ؕ وَ هُوَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَوْا : وہ نہیں دیکھتے اَنَّا نَاْتِي : کہ ہم چلے آتے ہیں الْاَرْضَ : زمین نَنْقُصُهَا : اس کو گھٹائے مِنْ : سے اَطْرَافِهَا : اس کے کنارے ۭوَاللّٰهُ : اور اللہ يَحْكُمُ : حکم فرماتا ہے لَا مُعَقِّبَ : کوئی پیچھے ڈالنے والا نہیں لِحُكْمِهٖ : اس کے حکم کو وَهُوَ : اور وہ سَرِيْعُ : جلد الْحِسَابِ : حساب لینے والا
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کو اس کے اطراف سے کم کرتے چلے آرہے ہیں اور اللہ حکم فرماتا ہے اس کے حکم کو کوئی ہٹانے والا نہیں، اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔
علماء کی موت اجل دنیا کے لئے نقصان دہ ہے : 1:۔ ابن مردویہ (رح) نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” ننقصھا من اطرافھا “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے علماء کا (اس دنیا سے) چلے جانا۔ 2:۔ عبدالرزاق وابن ابی شیبہ ونعیم بن حماد نے الفتن میں وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم والحاکم نے اور آپ نے اس کو صحیح کہا ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ننقصھا من اطرافھا “ سے مراد ہے ان کے علماء کی موت ان کے فقہا کی موت اور ان کے نیک لوگوں کا (اس دنیا) سے چلے جانا۔ 3:۔ ابن ابی شیبہ وابن جریر رحمہما اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ننقصھا من اطرافھا “ سے مراد ہے علماء کی موت۔ 4:۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس قول (آیت ) ” اولم یروا انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا “ کے بارے میں فرمایا کہ عکرمہ ؓ فرمایا کرتے تھے کہ اس سے مراد ہے لوگوں کا (اس دنیا سے) چلے جانا اور حسن فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ہے مسلمانوں کا غالب آنا مشرکین پر۔ 5:۔ ابن جریر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” اولم یروا انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا “ سے مراد ہے کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم محمد ﷺ کو فتح دے رہے ہیں ایک زمین کے بعد دوسری زمین کی۔ 6:۔ ابن جریر وابن مردویہ رحمہما اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” اولم یروا انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا “ یعنی اس سے مراد وہ زمین ہے جو اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو فتح عطا فرمائی اور یہ اس کا نقصان ہے۔ 7:۔ سعید بن منصور وابن ابی شیبہ وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے ضحاک (رح) نے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت ) ” اولم یروا انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ کے نبی ﷺ کے لئے اردگرد کا علاقہ کم ہورہا ہے اور وہ مشرک لوگ اس کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن پھر بھی عبرت حاصل نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ نے سورة انبیاء میں فرمایا (آیت ) ” ننقصھا من اطرافھا افھم الغلبون (44) ۔ (الانبیاء آیت 44) فرمایا بلکہ اللہ کے نبی ﷺ آپ کے اصحاب وہی غلبہ پا رہے ہیں۔ 8:۔ ابن ابی شیبہ وابن منذررحمہما اللہ نے عطیہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کم کرتے جارہے ہیں (زمین کو) مشرکین سے مسلمانوں کو (یعنی قبضہ کرتے جارہے ہیں) 9:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” ننقصھا من اطرافھا “ کے بارے میں فرمایا کہ ہم آپ کو فتح عطا فرما رہے ہیں اس کی اطراف پر۔ مسلمانوں کی فتح و کامرانی : 10:۔ عبد بن حمید نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” اولم یروا انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا “ سے مراد ہے انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم محمد ﷺ کے لئے زمین کو بعد زمین کے فتح کررہے ہیں۔ 11:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ننقصھا من اطرافھا “ سے مراد ہے کہ یہ نقصان ہے کہ ہم اس زمین پر رہنے والوں اور اس کی برکت کو کم کررہے ہیں۔ 12:۔ ابن منذر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ ہم کم کررہے ہیں جانوں کو اور پھلوں کو لیکن زمین وہ کم نہیں ہوتی۔ 13:۔ ابن ابی شیبہ وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ اگر زمین کم ہوجاتی تو تجھ پر تیری گھاس بھی کم ہوجاتی لیکن (اس سے مراد ہے) کہ جانیں اور پھل کم ہوجاتے ہیں۔ 14:۔ ابن جریر (رح) نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد موت ہے اگر زمین کم ہوجاتی تو کئی جگہ تو نہ پاتا کہ اس میں تو بیٹھ جائے۔ 15:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت ) ” اولم یروا انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا “ سے مراد ہے کیا نہوں نے نہیں دیکھا اس بستی کی طرف جو برباد ہوگئی یہاں تک کہ اس کی آبادی اور اس کے ایک گوشہ میں رہ گئی۔ 16:۔ ابن جریر وابن منذر رحمہما اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ننقصھا من اطرافھا “ سے مراد ہے کہ اس بستی کے ایک گوشہ کا ویران ہونا۔ 17:۔ سعید بن منصور وابن منذر رحمہا اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ننقصھا من اطرافھا “ سے مراد ہے کہ اس بستی کے ایک گوشہ کا ویران ہونا۔ 18:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” واللہ یحکم لا معقب لحکمہ “ سے مراد ہے کہ کوئی ایسا نہیں جو اس کے حکم کو ردوبدل کردے اور اس کو ردکردے جس طرح لوگ دنیا میں ایک دوسرے کے حکم کو بدل دیتے ہیں اور اس کو رد کردیتے ہیں۔ اما قولہ تعالیٰ : فللہ المکر جمعیا : 19:۔ ابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے۔ رب اعنی ولا تعن علی وانصرنی ولا ننصرعلی وام کرلی ولا تمکر علی واھدنی ویسر الھدی الی وانصرنی علی من بغی علی۔ ترجمہ : اے میرے رب میری مدد فرمائیے اور میرے خلاف مدد نہ فرمائیے اور مجھے نصرت عطا فرما اور میرے خلاف نصرت نہ فرما اور میرے لئے تدبیر فرما اور میرے خلاف تدبیر نہ بنا اور مجھ کو ہدایت دیجئے اور میری طرف ہدایت کو آسان فرما دیجئے اور میری مدد فرما اس شخص کے مقابلہ میں جو مجھ پر بغاوت کرے۔
Top