Dure-Mansoor - Ibrahim : 28
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : کو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے بَدَّلُوْا : بدل دیا نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت كُفْرًا : ناشکری سے وَّاَحَلُّوْا : اور اتارا قَوْمَهُمْ : اپنی قوم دَارَ الْبَوَارِ : تباہی کا گھر
کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو ناشکری سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں یعنی جہنم میں اتار دیا
1:۔ امام عبدالرزاق، سعید بن منصور، بخاری، نسائی، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور بیہقی نے دلائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الم ترالی الذین بدلوا نعمت اللہ کفرا “ سے مراد مکہ کے رہنے والے کافر ہیں۔ 2:۔ امام بخاری نے تاریخ میں، ابن جریر، ابن منذر اور ابن مردویہ نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الم ترالی الذین بدلوا نعمت اللہ کفرا “ سے قریش میں سے فاجر ترین مراد ہیں بنو مغیرہ اور بنوامیہ بنومغیرہ کا بدر کی لڑائی میں تم نے کام تمام کردیا اور بنوامیہ کو کچھ عرصہ تک مزے اڑانے کا موقعہ دے دیا گیا۔ 3:۔ امام ابن مردویہ نے روایت نقل کی کہ ابن عباس ؓ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا کہ اے امیرالمومنین اس آیت (آیت) ” الم ترالی الذین بدلوا نعمت اللہ کفرا “ سے کون لوگ مراد ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ اس سے قریش میں سے دو فاجر ترین مراد ہیں (یعنی) میرے مامووں اور میرے چچاوں لیکن میرے مامووں کو بدر کے دن اللہ تعالیٰ نے ان کی جڑ کاٹ دی لیکن میرے چچاوں کو اللہ تعالیٰ نے کچھ عرصہ مہلت دی۔ قریش کے دو فاجر قبیلے : 4:۔ امام ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، طبرانی نے الاوسط میں، ابن مردویہ اور حاکم نے چند طریق سے (حاکم نے صحیح بھی کہا) علی ابن ابی طالب ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” الم ترالی الذین بدلوا “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے قریش کے دو فاجر ترین شخص مراد ہیں بنوامیہ اور بنومغیرہ لیکن بنو مغیرہ کو اللہ تعالیٰ نے بدر کے دن ان کی جڑ کاٹ دی (لیکن) بنوامیہ والوں نے ایک مدت تک نفع اٹھایا۔ 5:۔ امام عبدالرزاق، فریابی، نسائی، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن الانباری نے مصاحف میں، ابن مردویہ حاکم، بیہقی نے دلائل میں (حاکم نے صحیح بھی کہا) ابن الکواء (رح) نے علی ؓ سے (آیت) ” الذین بدلوا نعمت اللہ کفرا “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا اس سے قریش میں سے دو فاجر مراد ہیں جن کا بدر کی لڑائی میں میں نے کام تمام کیا تھا پھر فرمایا (آیت) ” الذین ضل سعیہم فی الحیوۃ الدنیا “ (الکہف آیت 104) ان میں سے حروراء کے رہنے والے بھی (مراد) ہیں۔ 6:۔ امام ابن مردویہ نے علی ؓ سے (آیت) ” الذین بدلوا نعمت اللہ کفرا “ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس سے بنوامیہ اور بنو مخزوم مراد ہیں یہ ابوجہل کا گروہ ہے۔ 7:۔ امام ابن مردویہ نے ارطاہ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے علی ؓ کو ممبر پر کھڑے ہوئے سنا کہ (آیت) ” الذین بدلوا نعمت اللہ کفرا “ سے وہ لوگ مراد ہیں دین سے بری لوگ قریش کے علاوہ۔ 8:۔ امام ابن ابی حاتم نے ابن ابی حسین (رح) سے روایت کیا کہ علی بن ابی طالب ؓ کھڑے ہوئے اور فرمایا کیا کوئی ہے جو قرآن کے بارے میں مجھ سے سوال کرے اللہ کی قسم اگر کسی کو میں آج جانتا ہوتا کہ وہ مجھ سے قرآن کو زیادہ جاننے والا ہے اور سمندروں کے پیچھے ہوتا تو میں اس کے پاس جاتا عبداللہ بن الکواء اٹھے اور پوچھا اس (آیت) ” الذین بدلوا نعمت اللہ کفرا “ سے کون لوگ مراد ہیں وہ قریش کے مشرکین مراد ہیں ان کے پاس ایمان کی نعمت پہنچی لیکن انہوں نے اپنی قوم کے لئے ہلاکت کے گھر کو بدلا۔ 9:۔ امام ابن جریر، ابن منذر اور حاکم نے الکنی میں علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا (آیت) ” الم ترالی الذین بدلوا نعمت اللہ کفرا “ سے قریش کے کافر مراد ہیں جو بدر کے دن قتل کردیئے گئے۔ 10:۔ امام ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” الم ترالی الذین بدلوا نعمت اللہ کفرا “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے اہل بدر کے مشرک مراد ہیں۔ 11:۔ امام ابن مالک نے اپنی تفسیر میں نافع سے اور انہوں نے ابن عمر ؓ روایت کیا کہ (آیت) ” الم ترالی الذین بدلوا نعمت اللہ کفرا “ سے قریش کے وہ کفار مراد ہیں جو بدر کے دن قتل کردئیے گئے۔ 12:۔ امام ابن جریر نے عطابن یسار (رح) سے روایت کیا کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو قریش میں سے قتل کردئیے گئے بدر کے دن (آیت) ” الم ترالی الذین بدلوا نعمت اللہ کفرا “ سے مراد وہ قریش ہیں اور نعمت سے مراد محمد ﷺ ہیں۔ ابوجہل اور مقتولین بدر کی مذمت : 13:۔ امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے (آیت) ” الم ترالی الذین بدلوا نعمت اللہ کفرا “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہم بیان کرتے تھے کہ وہ اہل مکہ میں ابوجہل اور اس کے ساتھی جن کو اللہ تعالیٰ نے بدر کے دن قتل کردیا۔ 14:۔ امام ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الم ترالی الذین بدلوا نعمت اللہ کفرا “ سے جبلۃ بن ایہم مراد ہیں وہ لوگ جنہوں نے عرب میں اس کی تابعداری کی جو روم چلے گئے۔ 15:۔ امام ابن جریر اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” واحلوا قومہم دارالبوار “ سے مراد ہے کہ ان کی قوم میں سے جو ان کی تابعداری کرنے والے تھے ان کی ہلاکت کے گھر میں اتارا۔ 16:۔ امام ابن جریر اور ابن منذر نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ ” دارالبوار “ سے جہنم مراد ہے (اور) اللہ تعالیٰ نے اس کو بیان کیا اور آپ کو اس کی خبر دی اور فرمایا (آیت ) ” جھنم یصلونھا وبئس القرار “۔ 17:۔ امام عبدالرزاق، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” جھنم یصلونھا “ سے مراد ہے کہ گھر آخرت میں جہنم ہوگا۔ 18:۔ امام عبدبن حمید اور ابن منذر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وجعلوا للہ اندادا “ یعنی انہوں نے شرک کیا۔ 19:۔ امام ابن ابی حاتم نے ابورزین (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” قل تمتعوا فان مصیرکم الی النار “ سے مراد ہے کہ تم لوگ اپنی موت تک نفع اٹھاتے رہو۔ 20:۔ امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” من قبل ان یاتی یوم الا بیع فیہ ولا خلل “ کے بارے میں فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ جانتے تھے کہ دنیا میں خریدو فروخت اور دوستیاں ہیں جن کے ساتھ وہ دنیا میں ایک دوسرے سے دوستیاں قائم کرتے ہیں سو چاہیے کہ آدمی دیکھ لے کہ وہ کس سے دوستی لگا رہا ہے اور کیوں لگا رہا ہے اگر وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے تو اس کو چاہیے کہ اس کو ہمیشہ باقی رکھے اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور مقصد ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ جان لے کہ دنیا کی دوستی دشمنی میں بدل جائے گی قیامت کے دن سوائے متقی لوگوں کی دوستی کے (کہ وہ دشمنی میں نہیں بدلے گی ) ۔ 21:۔ امام ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وسخرلکم الانھر “ یعنی ہر شہر کے ساتھ تمہارے لئے دریا مسخر کردئے (یعنی تمہارے کام میں لگا دیئے) 22:۔ امام ابن جریر نے روایت نقل کی کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا (آیت) ” وسخرلکم الشمس والقمر “ سے مراد ہے کہ وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں چل رہے ہیں۔ 23:۔ امام ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ نے کتاب العظمہ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سورج چھوٹی نہر کی طرح ہے وہ چلتا ہے دن کے وقت آسمان میں (یعنی) اپنے فلک میں جب غروب ہوتا ہے تو رات کے وقت اپنے فلک میں چلا جاتا ہے زمین کے نیچے یہاں تک کہ (سورج) پھر مشرق سے طلوع ہوتا ہے اسی طرح چاند ہے۔ 24:۔ امام ابن ابی حاتم نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” واتکم من کل ما سالتموہ “ یعنی ہر وہ چیز جس کا تم نے اس سے سوال کیا وہ اس نے تم کو عطا فرما دی۔ ابن جریر اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے اسی طرح روایت کی ہے۔ 25:۔ امام ابن جریر نے حسن (رح) سے (آیت) ” واتکم من کل ما سالتموہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہر وہ چیز جس کا تم نے سوال کیا اور جس کا تم نے سوال نہیں کیا وہ تم کو عطا فرما دی۔ 26:۔ امام ابن شیبہ، ابن جریر اور بیہقی نے شعب میں طلق بن حبیب (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ کا حق اتنا بھاری ہے کہ بندے کے لئے اس کی ادائیگی ممکن نہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بہت زیادہ ہیں کہ بندے اس کو شمار کریں (یعنی شمار کرنے سے زیادہ ہیں) لیکن تم صبح کرو توبہ کرتے ہوئے اور شام کرو توبہ کرتے ہوئے۔ الحمد للہ کہنا بھی نعمت ہے : 27:۔ امام ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے بکر بن عبداللہ (رح) سے روایت کیا کہ کوئی بندہ الحمد للہ کہتا ہے تو اس پر نعمت واجب ہوجاتی ہے الحمد للہ کہنے کی وجہ سے پھر ان سے پوچھا گیا کہ اس نعمت کا کیا بدلہ ہے ؟ فرمایا اس کا بدلہ یہ ہے کہ وہ (پھر) الحمد للہ کہے تو اسے دوسری نعمت ملے گی اور اللہ کی نعمت ختم نہ ہوگی۔ 28:۔ امام ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے شعب میں سلیمان تیمی (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر انعام فرمایا اپنی شان کے مطابق اور ان کو شکر کرنے کا مکلف بنایا ان کی طاقت کے مطابق۔ 29:۔ امام ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے بکر بن عبداللہ ہزنی (رح) سے روایت کیا کہ اے آدم کے بیٹے اگر تو ان نعمتوں کی مقدار پہچاننا جاہتا ہے جو تیرے اوپر کی گئیں تو بند کرلے اپنی آنکھوں کو۔ 30:۔ امام بیہقی نے ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ جس نے اللہ کی نعمت کو نہیں پہچانا جو اس پر ہوئی مگر صرف اپنے کھانے میں اور اپنے پینے میں تو کم ہے اس کا علم اور قریب ہے اس کا عذاب۔ 31:۔ امام ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے سفیان بن عیینہرحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں پر اس سے بڑا انعام نہیں کیا کہ ان کی لا الہ الا اللہ کی پہچان دلائی اور بلاشبہ لا الہ الا اللہ ان کے لئے آخرت میں اس طرح لازم ہے جیسے دنیا میں پانی۔ 32:۔ امام ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ دوزخ والوں پر بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے اگر وہ چاہتے تو ان کو آگ سے بھی شدید عذاب دیتے تو وہ انہیں دے سکتا تھا۔ 33:۔ امام ابن الدنیا اور بیہقی نے محمد بن صالح (رح) سے روایت کیا کہ بعض علماء جب (یہ آیت) ” وان تعدوا نعمت اللہ لا تحصوھا “ تلاوت کرتے تو فرماتے وہ ذات پاک ہے جس نے نعمت کی معرفت سے تقصیر کو معرفت بنایا جیسے اس نے کسی کے لئے ادراک کو غیر ادراک سے زیادہ علم قرار نہیں دیا اور اس نے اپنی نعمت کی معرفت سے تقصیر کو شکر قرار دیا جیسا کہ اس نے اس کی عدم معرفت کے اعتراف کو شکر قرار دیا اور اسی کو ایمان قرار کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ بندے اس سے آگے تجاوز نہیں کرسکتے۔ 34:۔ امام ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے ابو ایوب قرشی جو بنو ہاشم کے آزاد کردہ غلام ہیں سے روایت کیا کہ داود (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے رب مجھ کو اس ادنی نعمت کے بارے میں بتائیے جو آپ نے مجھ پر فرمائی اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی اے داود سانس لو انہوں نے سانس لیا تو (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا یہ تجھ پر میری ادنی نعمت ہے۔ 35:۔ امام ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ ایک عابد نے پچاس سال تک اللہ کی عبادت کی اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف وحی بھیجی کہ میں نے تیری مغفرت کردی اس نے کہا اے میرے رب آپ نے میری مغفرت کیوں فرمائی (مغفرت تو گنہگار کی ہوتی ہے) اور میں نے کوئی گناہ نہیں کیا اللہ تعالیٰ نے اس کی گردن کی ایک رگ میں تکلیف ڈال دی تکلیف کی وجہ سے وہ نہ سویا اور نہ نماز پڑھی پھر اس کو (تکلیف سے) سکون حاصل ہوا تو رات کو پھر سویا رہا اس نے اس تکلیف کی شکایت کی اور کہا کہ مجھے یہ رگ کی تکلیف کیوں ہوئی فرشتے نے کہا تیرے رب فرماتے ہیں کہ تیری پچاس سال کی عبادت اس رگ کے سکون کے برابر ہے۔ 36:۔ امام ابن ابی حاتم نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ وہ یہ دعا مانگتے تھے اے اللہ ! میرے ظلم کو اور میری ناشکری کو بخش دے ایک کہنے والے نے کہا اے امیرالمومنین یہ ظلم اور یہ ناشکری کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ (اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے) (آیت) ” ان الانسان لظلوم کفار “ (یعنی انسان بےصبرا اور ناشکرا ہے )
Top