Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 50
وَ قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیٰتٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ
وَقَالُوْا : اور وہ بولے لَوْلَآ : کیوں نہ اُنْزِلَ : نازل کی گئی عَلَيْهِ : اس پر اٰيٰتٌ : نشانیاں مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ : اس کے رب سے قُلْ : آپ فرمادیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں الْاٰيٰتُ : نشانیاں عِنْدَ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے پاس وَاِنَّمَآ اَنَا : اور اس کے سوا نہیں کہ میں نَذِيْرٌ : ڈرانے والا مُّبِيْنٌ : صاف صاف
اور کہتے ہیں کہ ان (پیغمبر) پر کوئی نشان ان کے پروردگار کی طرف سے کوئی نہیں اترے،62۔ آپ کہہ دیجئے کہ نشان تو بس اللہ کے قبضہ میں ہیں،63۔ اور میں تو بس ایک صاف صاف ڈرانے والا ہوں،64۔
62۔ (ہماری خواہش و فرمائش کے مطابق) نشان سے مراد خارق عادت ہے۔ مشرک اور مشرک مزاج قوموں کو ہمیشہ گرویدگی عجائب وخوارق ہی سے رہی ہے۔ اسی بناء پر رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور پیام کو بالکل نظر انداز کرکے فرمائشیں بار بار ہوتی تھیں کہ فلاں اور فلاں معجزہ دکھاؤ ! گویا پیغمبر بھی ایک طرح کا بازیگر ہوتا ہے ! 63۔ رسول اللہ ﷺ کی زبان سے قرآن میں یہ بار بار کہلایا گیا ہے کہ واقعات و حوادث تکوینی تمامتر اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ چناچہ خوارق ومعجزات بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ میں جس طرح کسی واقعہ مطابق عادت کی تکوین میں بےبس محض ہوں اسی طرح واقعات خارق عادت میں بھی۔ (آیت) ” انما “۔ کلمہ حصر ہے۔ یعنی میرا کسی عمل تکوینی سے قطعا کوئی بھی تعلق نہیں۔ 64۔ یعنی میری صداقت کی جانچ کرنا ہو تو میری تعلیمات کو دیکھو پرکھو اور جو دین میں لایا ہوں، اس کی تحقیق کرو۔
Top