Dure-Mansoor - Al-Ahzaab : 5
اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآئِهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ١ۚ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْۤا اٰبَآءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ مَوَالِیْكُمْ١ؕ وَ لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ فِیْمَاۤ اَخْطَاْتُمْ بِهٖ١ۙ وَ لٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
اُدْعُوْهُمْ : انہیں پکارو لِاٰبَآئِهِمْ : ان کے باپوں کی طرف هُوَ : یہ اَقْسَطُ : زیادہ انصاف عِنْدَ اللّٰهِ ۚ : اللہ نزدیک فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ تَعْلَمُوْٓا : تم نہ جانتے ہو اٰبَآءَهُمْ : ان کے باپوں کو فَاِخْوَانُكُمْ : تو وہ تمہارے بھائی فِي الدِّيْنِ : دین میں (دینی) وَمَوَالِيْكُمْ ۭ : اور تمہارے رفیق وَلَيْسَ : اور نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ فِيْمَآ اَخْطَاْتُمْ : اس میں جو تم سے بھول چوک ہوچکی بِهٖ ۙ : اس سے وَلٰكِنْ : اور لیکن مَّا تَعَمَّدَتْ : جو ارادے سے قُلُوْبُكُمْ ۭ : اپنے دل وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
تم انہیں ان کے باپوں کے نام سے پکارو، یہ اللہ کے نزدیک انصاف کی بات ہے سو اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور جو کچھ تم سے خطا ہوجائے اس کے بارے میں تم پر کوئی گناہ نہیں اور لیکن جس کا تمہارے دل قصدا ارادہ کرلیں اور اللہ غفور ہے رحیم
1۔ ابن ابی شیبہ والبخاری والترمذی والنسائی وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ والبیہقی نے اپنی سنن میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ زید بن حارثہ ؓ جو رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے ہم ان کو زید بن محمد پکارا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ قرآن نازل ہوا آیت ادعوہم لاباۂم ہو اقسط عنداللہ کہ ان کو ان کے باپوں کے نام کے ساتھ پکارو اور وہ زیادہ انصاف کی بت ہے اللہ کے نزدیک تو نبی ﷺ نے فرمایا تو زید بن حارث بن شراحیل ہے۔ 2۔ عبدالرزاق وابن المنذر وابن ابی حاتم والطبرانی وابن مردویہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ ابو حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بدر میں حاضر ہونے والوں میں سے تھے انہوں نے سالم کو منہ بولا بیٹا بنایا پھر اس کا نکاح کردیا اپنے بھائی کی بیٹی ہند بن الولید بن عتبہ بن ربیعہ سے اور وہ انصار میں سے ایک عورت کے غلام تھے جیسے نبی ﷺ نے زید کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا اور زمانہ جاہلیت میں جو آدمی کسی کو منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا تو لوگ اسی کا بیٹا کہہ کر پکارتے تھے اور وہ میراث میں اس کا وارث ہوتا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں نازل فرمایا آیت ادعوہم لاباء ہم ہو اقسط عند اللہ فان لم تعلموا اباء ہم فاخوانکم فی الدین وموالیکم، ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کرو یہی بات اللہ کے نزدیک بڑی انصاف کی ہے۔ پھر اگر تم نے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور دوست ہیں تو صحابہ نے ان کو ان کے آباء کی طرف منسوب کردیا اور جس کا والد معلوم نہ ہو تو وہ دین میں اس کا منہ بولا بھائی تھا۔ سہلہ بنت سہل بن عمرو نبی ﷺ کے پاس ائیں اور کہنے لگیں کہ سالم کو حذیفہ کے نام سے پکارا جاتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا آیت ادعوہم لاٰباء ہم کہ ان کو اپنے حقیقی باپوں سے پکارو۔ اور وہ میرے پاس اندر آجاتا ہے۔ اس حال میں کہ میں اکیلی ہوتی ہوں اور ہم ایک تنگ مکان میں رہتے تو نبی ﷺ نے فرمایا سالم کو اپنا دودھ پلادے تو تجھ پر حرام ہوجائے گا یعنی وہ تیرا بیٹٓ بن جائے گا اور اس سے نکاح کرنا حرام ہوگا اور پردہ بھی جاتا رہے گا۔ 3۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ زید بن حارثہ کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے ننھیال کو بنی معن میں رہتے تھے جو بنو ثول سے تھے جن کا تعلق بنو طی سے تھا۔ یہ بنو طے کے لڑکوں کے ساتھ پکڑے گئے ان کو بیچنے کے لیے عکاظ بازار میں لایا گیا حکیم بن حزام بنو خویلد اپنے کاروبار کے لیے گئے ان کی پھوپھی خدیجہ ؓ نے ان کو ایک اچھا عر بھی غلام خریدنے کا حکم فرمایا اگر وہ ہر ممکن ہوسکے۔ جب وہ بازار میں آئے تو زید ؓ کو اس میں فروخت ہوتے ہوئے پایا اس کی خوبصورتی کو انہوں نے پسند کیا اور ان کو خرید لیا ان کو خدیجہ کے پاس لے آئے اور ان سے فرمایا میں نے تیرے لیے ایک ذہین غلام خریدا ہے۔ اگر تجھ کو اچھا لگے تو اس کو لے لینا اور اگر خوش نہ لگے تو اس کو چھوڑدینا اور مجھے یہ خوش لگا ہے۔ جب خدیجہ نے اس کو دیکھا تو اس کو پسند کیا اور ان کو لے لیا جب حضرت خدیجہ نے رسول اللہ ﷺ سے نکاح فرمایا اور وہ ان کے پاس تھے نبی ﷺ نے اس کی ذات کو پسند فرمایا تو آپ نے حضرت خدیجہ سے یہ لڑکا بطور تحفہ طلب فرمایا۔ تو حضرت خدیجہ نے فرمایا کہ وہ آپ کے لیے ہے اگر آپ اس کو آزاد کردیں تو میرے یعنی اس کی میراث میرے لیے ہوگی آپ نے اس شرط کا انکار فرمایا تو انہوں نے اس کو آپ کے لیے ہبہ کردیا کہ اگر آپ چاہیں تو اس کو آزاد کردیں اور اگر چاہیں تو اس کو روک لیں راوی نے کہا کہ وہ نبی ﷺ کے پاس جوان ہوگئے۔ پھر وہ یعنی زید بن حارثہ ابو طالب آپ کے چچا کے سامان تجارت کے ساتھ شام کی طرف نکلے۔ اپنی قوم کی زمین کے پاس سے گزرے تو ان کے چچا نے ان کو پہچان لیا اور اسکی طرف آیا اور پوچھا اے لڑکے تو کون ہے ؟ انہوں نے کہا اہل مکہ کا غلام ہوں پوچھا ان کے لوگوں میں سے ہو کہا نہیں پھر پوچھا تو آزاد ہے یا غلام ہے کہا بلکہ میں غلام ہو پوچھا کس کا ؟ کہا محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب کا پوچھا تو فرمایا یا عجمی ہے کہا بلکہ عربی ہوں پوچھا تیرے اہل و عیال کن لوگوں میں سے ہے کہا قبیلہ کلب میں سے پوچھا کون سے کلب میں سے کہا بنی عبدود میں سے کہا افسوس ہے تجھ کو تو کس کا بیٹا ہے کہا حارثہ بن شرحبیل کا بیٹٓ ہوں پوچھا تو کہاں پکڑا گیا ہے کہا اپنے ماموں کے گھر سے پوچھا تیرے ماموں کون ہیں کہا قبیلہ طی والے پوچھا تیری ماں کا نام کیا ہے سعدی پھر وہ اس کو چمٹ گئے اور کہا حارثہ کا بیٹٓ اور اس کا باپ کو بلایا اور کہا اے حارثہ یہ تیرا بیٹٓ ہے حارثہ اس کے پاس آئے جب اس کی طرف دیکھا تو پہچان لیا پوچھا تیرے آقانے تیرے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ کہا مجھے اپنے اہل و عیال اور اپنی اولاد پر ترجیح دیتے ہیں اور میں نے ان سے محبت کو پایا ہے میں جو چاہتا ہوں وہ کرتا ہوں۔ حضرت زید بن حارثہ ؓ کی آپ ﷺ سے محبت ان کے ساتھ ان کے باپ ان کے چچا اور ان کے بھائی سوار ہوگئے یہاں تک کہ مکہ پہنچ گئے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی حارثہ نے کہا اے محمد ﷺ آپ اللہ کے حرم کے رہنے والے ہیں اور اس کے پڑوسی ہیں اور اس کے گھر کے پاس رہنے والے ہیں تم غلام کو آزاد کرتے ہو قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہو میرا بیٹا آپ کا غلام ہے۔ ہم پر احسان فرمائیے اور یہی اس طرف اچھا سلوک کیجیے اور فدیہ میں ہم پر مہربانی کیجیے کیونکہ آپ اپنی قوم کے سردر کے بیٹے ہیں بیشک آپ جو پسند کریں گے ہم آپ کو فدیہ دیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا میں اس سے بہتر تم کو دوں گا۔ انہوں نے کہا وہ کیا ہے فرمایا میں تم کو بتاتا ہوں اگر یہ تم کو اختیار کرتا ہے تو اس کو بغیر فدیہ یعنی بغیر مال کے لے جاؤ اور اگر وہ میرے ساتھ رہنا چاہے تو اس کو میرے پاس رہنے دو ۔ انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین چیز عطا فرمائے آپ نے بہت احسان کیا رسول اللہ ﷺ نے ان کو بلا کر فرمایا اے زید ! کیا تم ان لوگوں کو پہچانتے ہو کہا جی ہاں یہ میر باپ ہے میرا چچا ہے اور میرا بھائی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو نے مجھے پہچان لیا ہے اگر ان کو پسند کرنے والا ہے تو ان کے ساتھ چلا جا اور اگر تو مجھے پسند کرے تو میں وہ ہوں جس کو تو جانتا ہے زید نے کہا میں آپ کے مقابلے میں کبھی بھی کسی کو پسند نہیں کروں گا آپ مجھ سے والد اور چچا کی جگہ پر ہیں۔ اس کے والد اور چچا نے اس سے کہا اے زید تو مالک ہونے پر غلام ہونے کو ترجیح دے رہے ہو۔ زید نے فرمایا میں اس آدمی یعنی رسول اللہ ﷺ کو چھوڑنے والا نہیں ہوں۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اس کے حرص کو دیکھا یعنی اس کی محبت کو دیکھا تو فرمایا تم گواہ ہوجاؤ کہ یہ آزاد ہے یہ میرا بیٹا ہے جو میرا وارث ہوگا اور میں اس کا وارث ہوں یہ سن کر اس کے والد اور اس کے چچا خوش ہوگئے جب انہوں نے آپ کی بارگاہ میں اس کرامت کو دیکھا زید زمانہ جاہلیت میں برابر زید بن محمد کہلاتے رہے یہاں تک کہ قرآن نازل ہوا آیت ادعوہم لاباء ہم کہ ان کو اپنے باپوں سے پکارو۔ تو زید بن حارثہ پکارے جانے لگے۔ 4۔ ابن عساکر نے زید بن شیبہ کے طریق سے حسن بن عثمان (رح) سے روایت کیا کہ مجھے چن دفقہائے اہل علم نے بیان کیا اور انہوں نے کہا کہ عامر بن ربیعہ کو عامر بن خطاب کہا جاتا تھا اور خطاب کی طرف منسوب کیے جاتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں یہ آیت اتاری کہا جاتا ہے کہ ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی زید بن حارثہ اور سالم بن ابو حذیفہ کے آزاد کردہ غلام اور مقداد بن عمرو کے بارے میں کہ ادعوہم لاٰ باء ہم کہ ان کو ان کے باپوں کے ناموں کے ساتھ پکارو۔ 5۔ ابن جریر نے ابوبکرہ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت ادعوہم لاٰباء ہم ہو اقسط عنداللہ، فان لم تعلموا اٰباء ہم فاخوانکم فی الدین وموالیکم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کرو یہی بات اللہ کے بزدیک بڑے انصاف کی ہے پھر اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور تمہارے دوست ہیں اور میں ان لوگوں میں سے ہوں کہ جس کے باپ کا علم بھی نہیں اور میں تو تمہارا دینی بھائی ہوں۔ 6۔ ابن جریر نے قتادہ (رح) سے آیت ادعوہم لاٰباء ہم ہو اقسط عند اللہ، فان لم تعلموا اٰباء ہم فاخوانکم فی الدین وموالیکم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کرو یہی بات اللہ کے نزدیک بڑے انصاف کی ہے پھر اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور تمہارے دوست ہیں اور میں ان لوگوں میں سے ہوں کہ جس کے باپ کا علم بھی نہیں اور میں تو تمہارا دینی بھائی ہوں۔ 6۔ ابن جریر نے قتادہ (رح) سے آیت ادعوہم لاٰباء ہم ہو اقسط عنداللہ کے بارے میں روایت کیا کہ یہی بات بڑے انصاف والی ہے اللہ کے نزدیک فان لم تعلموا اٰباء ہم فاخوانکم فی الدین وموالیکم یعنی جب تو نہیں جانتا کہ اس کے باپ کے بارے میں تو وہ تمہارا دینی بھائی ہے اور دوست ہے۔ 7۔ ابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ آیت فان لم تعلموا اٰباء ہم فاخوانکم فی الدین وموالیکم سے مراد ہے کہ اگر تو اس کے باپ کو نہیں جانتا تو وہ تیرا دینی بھائی ہے اور تیرا مولی فلاں کا مولی ہے۔ 8۔ ابن ابی حاتم نے مقاتل (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر تم ان کے آباء کو نہیں جانتے کہ جن کے ناموں سے تم ان کو بلاؤ تو تم ان کی نسبت اس طرح کرو کہ وہ تمہارے دینی بھائی ہیں کہ تو یوں کہے عبداللہ، عبدالرحمن عبداللہ اور اس جیسے نام لے اور یہ کہ ان کو ان کے آقاؤں کے نام کی طرف منسوب کرو۔ 9۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے آیت فان لم تعلموا اٰباء ہم فاخوانکم فی الدین وموالیکم کے بارے میں فرمایا کہ وہ تیرا دینی بھائی ہے اور تیرا مولی یعنی غلام بن فلاں ہے۔ 10۔ ابن ابی حاتم نے سالم بن ابی الجعد رحمۃ اللہ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ادعوہم لاٰباء ہم نازل ہوئی تو صحابہ کرام سالم کے باپ کو نہیں جانتے تھے لیکن وہ ابو حذیفہ کے مولی تھے کیونکہ وہ حضرت حذیفہ کے حلیف تھے۔ 11۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ولیس علیکم جناح فیما اخطأتم بہ اور ممانعت سے پہلے تم نے جو غلطی کی اس کا تم پر کوئی گناہ نہیں یہ بات منع کرنے سے پہلے کی ہے۔ آیت ولکن ما تعمدت قلوبکم لیکن گناہ تو اس کا ہے جو تمہارے دلوں نے قصدا علیہ کیا۔ یعنی جب تم کو نہی کردی گئی یہ اس بات میں ہے۔ 12۔ ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے آیت ولیس علیکم جناح فیما اخطأتم کے بارے میں روایت کیا کہ اگر تو کسی کو اس کے غیر باپ سے بلاتا ہے جبکہ تو جانتا ہے کہ فلاں اس کا باپ ہے تو تجھ پر کوئی گناہ نہیں لیکن تو نے ارادۃ ایسا نہیں کیا تھا۔ 13۔ ابن المنذر وابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا اور وہ نبی ﷺ سے مرفوع روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ کی قسم مجھے غلطی کے بارے میں تجھ پر کوئی روایت نہیں لیکن میں جان بوجھ کر بات کرنے کی صورت میں تیرے لیے ڈرتا ہے۔ 14۔ ابن مردویہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تم پر غلطی کرنے سے نہیں ڈرتا مگر میں تم پر جان بوجھ کر گناہ کرنے سے ڈرتا ہوں۔
Top