Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 5
اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآئِهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ١ۚ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْۤا اٰبَآءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ مَوَالِیْكُمْ١ؕ وَ لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ فِیْمَاۤ اَخْطَاْتُمْ بِهٖ١ۙ وَ لٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
اُدْعُوْهُمْ : انہیں پکارو لِاٰبَآئِهِمْ : ان کے باپوں کی طرف هُوَ : یہ اَقْسَطُ : زیادہ انصاف عِنْدَ اللّٰهِ ۚ : اللہ نزدیک فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ تَعْلَمُوْٓا : تم نہ جانتے ہو اٰبَآءَهُمْ : ان کے باپوں کو فَاِخْوَانُكُمْ : تو وہ تمہارے بھائی فِي الدِّيْنِ : دین میں (دینی) وَمَوَالِيْكُمْ ۭ : اور تمہارے رفیق وَلَيْسَ : اور نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ فِيْمَآ اَخْطَاْتُمْ : اس میں جو تم سے بھول چوک ہوچکی بِهٖ ۙ : اس سے وَلٰكِنْ : اور لیکن مَّا تَعَمَّدَتْ : جو ارادے سے قُلُوْبُكُمْ ۭ : اپنے دل وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
(مومنو ! ) لے پالکوں کو ان کے (اصلی) باپوں کے نام سے پکارا کرو کہ خدا کے نزدیک یہی بات درست ہے اگر تم کو ان کے باپوں کے نام معلوم نہ ہوں تو دین میں تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور جو بات تم سے غلطی سے ہوگئی ہو اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں لیکن جو قصد دلی سے کرو (اس پر مواخذہ ہے) اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
اس میں چھ مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1۔ آیت ادعوھم لابائھم یہ آیت حضرت زید بن حارثہ کے حق میں نازل ہوئی جس طرح پہلے وضاحت گزرچکی ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ کا قول ہے : ہم حضرت زید بن حارثہ ؓ کو زید بن محمد پکارا کرتے تھے۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ متبنی بنانا دور جاہلیت اور دور اسلام کا معمول تھا۔ اس کے ذریعہ باہم وارث بنا جاتا اور باہم ایک دوسرے کی مدد کی جاتی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس ارشاد کے ساتھ اس عمل کو منسوخ کردیا : آیت ادعوھم لابائھم ھو اقسط عنداللہ یعنی انصاف والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متبنی بنانے کا حکم ختم کردیا یہ لفظ بولنے سے منع کردیا اور اپنے اس ارشاد کے ساتھ اس کی طرف رہنمائی کی کہ اولی اور موزوں یہ ہے کہ مرد اسکے نصبی باپ کی طرف منصوب کیا جائے۔ یہ کہا جاتا ہے : دور جاہلیت میں جب کسی آدمی کو اس کی بہادری اور ظرافت اچھی لگتی تو وہ آدمی اسے اپنے ساتھ ملا لیتا اور اپنی میراث میں سے مذکر اولاد کے برابر اس کا حصہ مقرر کردیتا۔ اس لڑکے کو اس آدمی کی طرف منسوب کیا جاتا اور کہا جاتا : فلاں بن فلاں۔ نحاس نے کہا : یہ آیت اس متبنی بنانے کے حکم کو منسوخ کرنے والی ہے جو ان کہ ہاں پہلے سے رواج تھا۔ اس میں سنت کو آیت سے منسوخ کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ تو حکم دیا گیا کہ جس کو بھی بلائو اسے اس کے معروف باپ کی نسبت سے بلائو۔ اگر اس کا باپ معروف نہ ہو تو اس کو اس کی ولا (ستارہ) کی طرف منسوب کرو اگر اس کی ولا بھی معروف نہ ہو تو اسے کوئی بلائے تو یوں بلائے : یا اخی یعنی اے میرے اسلامی بھائی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : آیت انما المومنون اخوۃ (الحجرات : 10) مسئلہ نمبر 2۔ اگر کسی آدمی نے اسے ایسے باپ کی طرف منسوب کردیا جس کا وہ متبنی تھا اگر تو یہ غلطی سے ہوا یعنی بغیر ارادہ کے اس کی زبان پر آگیا تو اس پر کوئی گناہ اور کوئی مواخذہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : آیت ولیس علیکم جناح فی ما اخطاء تم بہ ولکن ما تعمدت قلوبکم اسی طرح اگر تو کسی آدمی کو بلاتا ہے اور اس کی نسبت اس کے اپنے باپ کی طرف کرنے کی بجائے کسی اور کی طرف کرتا ہے جب کہ تو خیال کرتا ہے یہ اس کا باپ ہے تو تجھ پر کوئی حرج نہیں۔ ، یہ قتادہ کا قول ہے۔ یہ حکم اس پر جاری نہیں ہوگا جس کا متبنی ہونے کے اعتبار سے نام زیادہ مشہور ہوگیا ہو جس طرح حضرت مقداد بن عمرو، ان پر متبنی ہونے کے اعتبار سے نام غالب آگیا تھا۔ یہ حضرت مقداد بن اسود کے نام سے مشہور و معروف تھے کیونکہ اسود بن یغوث نے دور جاہلیت میں انہیں متبنی بنایا تھا اور اسی وجہ سے معروف و مشہور تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی مقداد نے کہا : میں ابن عمرو ہوں۔ اس کے باوجود اس پر اطلاق باقی رہا۔ جو علماء گزرچکے ہیں ان میں سے کسی سے یہ نہیں سنا گیا کہ اس پر اس نام کا اطلاق کرنے والے کو گناہ گار قرار دیا گیا ہو اگرچہ وہ جان بوجھ کر نام لے۔ اسی طرح حضرت سالم مولی ابی حذیفہ وہ مولی ابوحذیفہ کے نام سے پکارے جاتے ان کے علاوہ بھی کئی افراد ہیں جن کو متبنی بنایا گیا اور انہیں اپنے باپ کے علاوہ کی طرف منسوب کیا گیا، اس میں مشہور ہوئے اور وہ نام ان پر غالب آیا، لیکن حضرت زید بن حارثہ کا معاملہ مختلف ہے کیونکہ انہیں اب زید بن محمد کہنا جائز نہیں اور اگر کسی نے جان بوجھ کر ایسا کیا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والا ہوگا۔ آیت ولکن ماتعمدت قلوبکم تو پھر تم پر گناہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ اسی وجہ سے بعد میں فرمایا : آیت وکان اللہ غفورا الرحیما غفور یعنی جان بوجھ کر اس عمل کے کرنے والے کو بخشنے والا ہے اور رحیما خطا کے اثم کو ختم کرنے والا ہے۔ مسئلہ نمبر 3۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اللہ تعالیٰ کا فرمان آیت ولیس علیکم جناح فی ما اخطاء تم یہ مجمل ہے یعنی تم نے جو غلطی کی ہے اس میں تم پر کوئی حرج نہیں۔ ، یہ عطاء اور کثیر علماء کا فتوی تھا۔ اسی تعبیر کی بنا پر کہا گیا : جب کوئی آدمی قسم اٹھائے کہ وہ اپنے مقروض کا پیچھا نہیں چھوڑے گا یہاں تک کہ وہ اس سے اپنا پورا پورا حق لے لے، تو اس نے اس سے وہ دینار لے لیے جن کو وہ عمدہ خیال کرتا تھا پھر اس نے ان کو کھوٹے پایا تو اس پر کوئی چیز لازم نہ ہوگی اسی طرح اس کے نزدیک یہ بھی ہے جب اس نے قسم اٹھائی کہ وہ فلاں کو سلام نہیں کرے گا اس نے اسے سلام کیا جب کہ وہ اسے پہچانتا نہیں تھا وہ حانث نہیں ہوگا کیونکہ اس نے اس میں قصد نہیں کیا۔ مامحل جر میں ہے (اس ما سے مراد وہ ما ہے جو ما تعمدت قلوبکم میں ہے) اس ما کو اس ما کی طرف لوٹایا گیا ہے جو اخطاء تم میں ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ محل رفع میں ہو کیونکہ مبتدا محذوف ہے۔ تقدیر کلام یہ ہے ولکن الذی تواخذون بہ ما تعمدت قلوبکم قتادہ اور دوسرے علماء نے کہا : جس آدمی نے کسی کو اس کے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کیا جب کہ اس کا خیال ہو کے وہ اس کا باپ ہے اس نے یہ بات خطا کی تو یہ اس خطا سے ہوگی جس پر سے اللہ تعالیٰ نے گناہ کو اٹھا دیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ گفتگو کرتے ہوئے اسے یہ کہے : اے بیٹے ! جب کہ اس نے یہ گفتگو اس کے متعلق کی جو اس کے متبنی نہ ہو۔ مسئلہ نمبر 4۔ آیت ذالکم قولکم بافواھکم، (1) بافوھکم قول کے باطل ہونے کی تاکید ہے، یعنی یہ ایسا قول ہے جس کی وجود میں کوئی حقیقت نہیں، یہ صرف زبانی قول ہے۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح تو کہتا ہے : انا امشی الیک علی قدمی میں قدموں پر چل کر تیرے پاس آئوں گا۔ اس سے مراد حسن معاملہ ہے، یہ کثرت سے واقع ہوتا ہے۔ یہ کئی مواضع پر بحث واقع ہوئی ہے۔ آیت واللہ یقول الحق، الحق یہ مصدر محذوف کی صفت ہے۔ تقدیر کلام یہ ہوگی یقول القول الحق، یھدی اس کا معنی واضح ہو یہ فعل حرف جار کے واسطہ کے بغیر متعدی ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر 5۔ الادعیاء یہ دعی کی جمع ہے۔ اس سے مراد ہو شخص ہے جو ایسے بیٹے کا دعوی کرے جس کا پہلے باپ معروف نہ ہو اور یا وہ اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کے بیٹا ہونے کا دعوی کرے۔ مصدر دعوۃ دال کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ادعیاء کے اپنے صلبی باپوں کے ساتھ بلایا جائے۔ جو آدمی اس اعتبار سے مجہول ہو اور اس کے نصب مشہور نہ ہوں تو وہ مولی اور دینی بھائی ہوگا۔ طبری نے ذکر کیا کہ ابوبکر نے اس آیت کو پڑھا اور کہا : میں ان لوگوں میں سے ہوں جن کا باپ معروف نہیں میں تمہارا دینی بھائی اور مولی ہوں۔ ان سے روایت کرنے والے نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر انہیں علم ہوتا کہ اس کا باپ گدھا ہے تو وہ اپنی نسبت اس سے کرلیتا۔ محد ثین ابوبکر کے بارے میں یوں ذکر کرتے ہیں : نفیع بن حارث مسئلہ نمبر 6۔ حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت ابو بکرہ دونوں کے بارے میں صحیح روایت مروی ہے کہا : میرے دونوں کانوں نے حضرت محمد ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا جب کہ میرے دل نے اسے یاد رکھا : ” جس نے اپنی نسبت اپنے غیر باپ کی طرف کی جب کہ وہ جانتا ہے کہ یہ اس کا باپ نہیں تو اس پر جنت حرام ہے “ (2) ۔ حضرت ابو ذر ؓ کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : ” جس آدمی نے اپنے غیر باپ سے ہونے کا دعوی کیا جب کہ وہ اسے جانتا بھی ہو تو اس نے کفر کیا “ (3) ۔
Top