Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 5
اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآئِهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ١ۚ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْۤا اٰبَآءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ مَوَالِیْكُمْ١ؕ وَ لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ فِیْمَاۤ اَخْطَاْتُمْ بِهٖ١ۙ وَ لٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
اُدْعُوْهُمْ
: انہیں پکارو
لِاٰبَآئِهِمْ
: ان کے باپوں کی طرف
هُوَ
: یہ
اَقْسَطُ
: زیادہ انصاف
عِنْدَ اللّٰهِ ۚ
: اللہ نزدیک
فَاِنْ
: پھر اگر
لَّمْ تَعْلَمُوْٓا
: تم نہ جانتے ہو
اٰبَآءَهُمْ
: ان کے باپوں کو
فَاِخْوَانُكُمْ
: تو وہ تمہارے بھائی
فِي الدِّيْنِ
: دین میں (دینی)
وَمَوَالِيْكُمْ ۭ
: اور تمہارے رفیق
وَلَيْسَ
: اور نہیں
عَلَيْكُمْ
: تم پر
جُنَاحٌ
: کوئی گناہ
فِيْمَآ اَخْطَاْتُمْ
: اس میں جو تم سے بھول چوک ہوچکی
بِهٖ ۙ
: اس سے
وَلٰكِنْ
: اور لیکن
مَّا تَعَمَّدَتْ
: جو ارادے سے
قُلُوْبُكُمْ ۭ
: اپنے دل
وَكَانَ
: اور ہے
اللّٰهُ
: اللہ
غَفُوْرًا
: بخشنے والا
رَّحِيْمًا
: مہربان
تم (متبنیٰ بیٹوں) کو ان کے باپوں (کے ناموں) سے پکارا کرو یہی اللہ کے نزدیک درست بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہیں جانتے ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور دوست ہیں اور جو بات تم غلطی سے کر بیٹھے تو اس کا تم پر کوئی گناہ نہیں لیکن جو تم دل کے ارادہ سے کہو ، اللہ بخشنے والا پیار کرنے والا ہے
سیدھی بات کو سیدھی طرح مان لو اور اولاد کی نسبت ان کے باپوں کی طرح کرو 5) ” لوگو ! تم اولاد کو ان کے باپوں ہی کے ناموں سے پکارا کرو یہی اللہ کے نزدیک درست بات ہے “۔ باپوں سے اس جگہ مراد اصل والدین ہیں کہ اگر تم کو معلوم ہے کہ فلاں فلاں بیٹا ہے تو اس کی طرف اس کی نسبت کرنا چاہیے۔ گویا کسی کو کسی بچے یا بچی کو لے کر تم نے اس کی پرورش کردی اور اس کو اپنی اولاد بنا لیا ہے اور اولاد کی سی محبت و پیار اس سے کرنا چاہتے ہو تو ایسا کرسکتے ہو لیکن اس اولاد کی نسبت اپنی طرف مت کرو اپنے آپ کو ان کا کفیل کہہ سکتے ہو اور اس طرح اگر کوئی دوسرا نام رکھنا چاہتے ہو تو رکھ لو لیکن ان کی نسبت ان کے اصل باپوں ہی سے کرو اپنی طرف منسوب مت کرو۔ یہ حکم عام ہے اور اس میں انسانی زندگی کے لئے بہت ہی بھلائی اور خیر رکھی گئی ہے اگر تم اس کی حقیقت کو سمجھتے ہو تو اس کو ہرگز ہرگز مت بھلائو اور کسی حال میں بھی حق داروں کا حق ضائع نہ کرو حق داروں کا حق ادا نہ کرنا یہ کوئی خوبی کی بات نہیں بلکہ خوبی کی بات یہی ہے کہ حق کو حق رہنے دینا چاہیے۔ اس جگہ ایک خاص حکم کو عام بیان کیا گیا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس خاص حکم کو عام بنایا گیا ہے یعنی اگرچہ اس مسئلہ کا تعلق صرف نبی کریم ﷺ کے ساتھ خاص ہے لیکن ہم اس خاص سے عام حکم کا بیان کر رہے ہیں تاکہ آج سے رہتی دنیا تک لوگ اس کو قانون کے طور پر تسلیم کرلیں اور آئندہ کوئی شخص کبھی کسی دوسرے کو اپنا بیٹا نہ کہے بلکہ جس کا وہ ہے اسی کا بیان کرے گویا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جارہا ہے کہ آج کے بعد تم کبھی بھول کر بھی زید کو زید بن محمد نہ کہو بلکہ زید بن حارثہ کہو اور یہ حکم نازل ہونے کے بعد بلا شبہ ایسا ہی ہوا چناچہ بخاری ’ مسلم ‘ نسائی وغیرہ میں ہے کہ زید بن حارثہ کو پہلے سب لوگ زید بن محمد ﷺ کہتے تھے لیکن یہ آیت نازل ہونے کے بعد انہیں زید بن حارثہ کہنے لگے اور یہ بھی کہ اس آیت کے نزول کے بعد یہ بات حرام قرار دی گئی کہ کوئی شخص اپنے حقیقی باپ کے سوا کسی اور کی طرف اپنانسب منسوب نہ کرے۔ (عن عبداللہ بن عمر ؓ بلکہ احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا من ادعی الی غیر ابیہ فالجنۃ علیہ حرام (بخاری ، مسلم ، ابودائود ، عن سعد بن ابی وقاص ؓ ” جس شخص نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے سوا کسی اور کا بیٹا کہا درآنحالیکہ وہ جانتا ہو کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔ “ لیکن اس حرمت کو شاید لوگوں نے حرام نہیں سمجھا اور نہ ہی سب کچھ جاننے کے باوجود علماء اسلام نے کبھی اس کی وضاحت قوم کو بتائی ہے۔ افسوس کہ آج بیہ بڑے بڑے دیندار گھروں میں جن کے ہاں اولاد نہیں ہوتی اور اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے اولاد کو لے لیتے ہیں ان کو اپنی اولاد کے طور پر کاغذات میں درج کراتے ہیں مثلاً کمیٹی میں ، یونین کونسل میں ، سکول اور کالج میں اور اس متنبی کو اپنا وارث قراردے کر اپنی جائیداد اس کو دے دیتے ہیں جو کسی حال میں بھی جائز اور صحیح نہیں ہے۔ صحیح اور حق بات یہ ہے کہ ان بچوں کو ان کے اصل والدین کی طرف ہی نسبت دی جائے اور پرورش وتعلیم وتربیت کے علاوہ میراث کا مسئلہ بدستور اسی طرح رہے جس طرح قانون قدرت کے اندر موجود ہے۔ ہاں ! تیسرا حصہ مال کی انسان وصیت کرسکتا ہے اگر مرنے والا چاہے تو اس طرح اس کے نام وصیت جاری کراسکتا ہے اور زندگی ہی میں اس کو ہبہ بھی کرسکتا ہے لیکن اصل وارثوں کو محروم کرنا کسی حال میں بھی جائز اور درست نہیں۔ آیت کے الفاظ پر غور کرو تو تم کو معلوم ہوجائے گا کہ جس طرح متنبی بنانے والے کو یہ ہدایت ہے اسی طرح متنبی بنائے گئے آدمی کے لئے بھی یہ ہدایت ہے کہ اگر کوئی شخص غلطی سے ایسی صورت اختیار کرگیا ہے تو متنبی ہونے والے کو بھی چاہیے کہ جب شعور آئے اور عقل وفکر پختہ ہو یا خصوصاً مسئلہ معلوم ہوجائے تو فوراً توبہ کرے اور اپنی ولدیت تبدیل کرکے وہ بنوائے جو فی الواقع اس کی ولدیت ہے اور تیسرا حصہ اگر چاہے تو رکھ کر باقی ساری جائیداد اور وراثت اصل وارثوں تک پہنچا دے تاکہ اس گناہ سے خود بھی بچے اور مرنے والے کو بھی بچائے کہ جو غلطی اس سے ہوئی اس کا ازالہ کردینے سے یقینا اس کو فائدہ ہوگا بشرطیکہ اس نے غلطی کی وجہ سے ایسا کیا ہو۔ خیال رہے کہ حقوق کبھی زائل نہیں ہوتے لیکن اکثر لوگ ان کی پروا نہیں کرتے اور جس کو مال مل جاتا ہے اس نے حق اور ناحق کو کبھی نہیں دیکھا ، الا ماشاء اللہ۔ ” اگر تم کو معلوم ہی نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں۔ “ قرآن کریم کے الفاظ پر ٹھنڈے دل سے غور کرو ، ارشاد الٰہی ہے کہ { فان لم تعلمو اباء ھم فاخوانکم فی الدین وموالیکم } یہ نہیں فرمایا کہ جن کے باپوں کے متعلق تم کو معلوم نہ ہو ان کو انہی کے ناموں کے ساتھ منسوب رہنے دو جن کے ساتھ وہ منسوب ہوچکے ہیں اور نہ ہی یہ تعلیم دی ہے کہ اگر تم ان کے باپوں کو نہیں جانتے تو ان کو بغیر باپ کے مان لو کہ ان کے باپ نہیں ہوں گے اللہ قادر وقدیر اور مالک وملیک ہے ممکن ہے کہ اس نے ان کو بغیر باپوں ہی کے پیدا کردیا ہو اور نہ یہ ارشاد فرمایا کہ ان کی مائوں سے پوچھو کہ ان کے باپ کون ہیں اور اگر مائیں بھی موجود نہ ہو اور تم ان کو جانتے اور نہ یہ ارشاد فرمایا کہ ان کی مائوں سے پوچھو کہ ان کے باپ کون ہیں اور اگر مائیں بھی موجود نہ ہو اور تم ان کو جانتے بھی نہ ہو تو مان لو کہ یہ بغیر ماں اور باپ کے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ جس طرح قادر ہے کہ وہ چاہے بغیر باپ کے پیدا کردے اسی طرح اگر وہ چاہے وہ بغیر ماں اور باپ کے بھی پیدا کردے اور ایسے تو بلا شبہ اس نے پہلے بھی پیدا کیے ہیں جو انسان اول تھے۔ کیونکہ قرآن کریم نے خود ہی انسانی پیدائش کے ضابطہ کا اعلان کیا ہے اور اس میں کوئی استثناء بھی نہیں فرمائی اور وہ یہی چاہتا ہے ، اس کے ضابطہ میں نہ تو کبھی فرق آیا ہے اور نہ آئندہ جب تک یہ نظام قائم ہے اس ضابطہ میں فرق آنے کا کوئی امکان ہے ہاں جب یہ ضابطہ ہی نہ رہے گا اور اس سارے نظام کو بدل دیا جائے گا تو وہ دوسری بات ہے فی الحال جو کچھ ہے وہ یہ ہے کہ جن کے باپوں کا تم کو معلوم نہیں وہ تمہایر دینی بھائی یا انسانی بھائی تو ہیں چاہے ان کے ماں اور باپ دونوں کا کچھ معلوم نہ ہو بہرحال وہ دنیا میں اس ضابطہ کے عین مطابق آئے ہیں ہاں ! اگر کسی کا کوئی جائز باپ نہیں تو بلا شبہ ناجائز باپ ہوگا لیکن اس جائز یا ناجائز باپ کی بحث کا اس بچے سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ ہر انسان اپنے اعمال کا جواب دہ پیدا کیا گیا ہے اپنے حسب ونسب کا جوابدہ نہیں اور بلا شبہ اولاد اپنے ماں باپ کے عمل سے ہے اور پرستش ہمہشو عمل سے نہیں بلکہ عامل سے ہوتی ہے۔ ہمیں تعجب ہے کہ بعض بڑے بڑے علم اور عقل وفہم والے لوگ بھی عقل وفکر سے کیوں گورے ہو بیٹھے ہیں اور یہ ضد کرنا شروع کردیتے ہیں کہ فلاں کے باپ کا نام بتائو ورنہ تسلیم کرلو کہ اس کا کوئی باپ نہیں ہے حالانکہ یہ نظریہ ایسا ہے جس کا سر ہے نہ پیر اور سراسر ضد اور ہٹ دھرمی ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور اس ہٹ دھرمی کو اکثریت کی حمایت حاصل ہے حالانکہ اکثریت ہمیشہ غلط ہوتی ہے دلائل کے مقابلہ میں اکثریت لاتے ہیں اگرچہ اس کو بڑی شے سمجھ لیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اکثریت جو کچھ کہے وہ غلط ہے لہٰذا اکثریت اگر ایک صحیح بات مانتی ہو تو وہ اکثریت کے ماننے سے غلط ہوجائے گی۔ نہیں ! ہرگز نہیں مطلب یہ ہے کہ جب اقلیت کے پاس دلائل ہوں لیکن اس کے مقابلہ میں اکثریت کے پاس کوئی دلیل نہ ہو اس کے باوجود اکثریت محض اکثریت ہونے کے باعث اپنا آپ منوانا چاہے تو اس ورطہ پر کبھی اکثریت صحیح نہیں ہوگی بلکہ اس کو اکثریت حاصل ہونے کے باوجود غلط ہی سمجھا جائے گا کیونکہ دلائل کے سامنے اکثریت کوئی چیز نہیں ہے حالانکہ یہی ہوتا آیا ہے ، ہورہا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ ہوتا رہے گا کہ اکثریت کو دلائل کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آئی کیونکہ وہ اکثریت ہونے کے نشہ میں دلائل کو ماننے اور تسلیم کرنے کے لئے کبھی تیار ہی نہیں ہوتی حالانکہ یہ نظریہ سوفی صدی غلط اور تحکم محض ہے۔ ” جو بات تم غلطی سے کربیٹھے تو اس کا تم پر کوئی گناہ نہیں لیکن جو کچھ تم دل کے ارادہ سے کرو “۔ وہ بلا شبہ گناہ ہے۔ خطا کب تک خطا ہے جب تک معلوم نہ ہو اور جب معلوم ہوجائے وہ خطا نہیں رہتی تاہم جو حطاء ہوگیا اس پر تاسف اور افسوس کی ضرورت نہیں اور نہ ہی شک میں مبتلا ہونے کی ضرورت ہے مثلاً ایک آدمی نے روزہ رکھا اور وہ بھول گیا کہ میں روزہ سے ہوں اور بھول کر وہ کھانے یا پینے لگا اور اس نے سیر ہو کر کھایا پیا اور اس کو کھانے یا پینے کے دوران بھی یاد نہ آیا لیکن جب وہ کھانے پینے سے فارغ ہوگیا تو معاً اس کو یاد آگیا یا کسی نے اس کو یاد دلادیا تو کھائیے پئے کو نہ تو الٹنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کے روزے میں کوئی فرق آیا ہے لیکن اگر اس نے کوئی چیز منہ میں رکھی اور یاد آگیا کہ میرا تو روزہ ہے لیکن اس کے باوجود وہ کھاتا ہی رہا تو اب اس کھانے سے خواہ اس نے ایک ہی لقمہ کھایا تھا روزہ جاتارہا کیونکہ اس کے فرائض میں یہ چیز بھی کو جبھی اس کو یاد آیا تھا وہ اس کو تھوک دیتا اور جو اندر چلا گیا تھا اس پر وہم نہ کرتا بلکہ یہ سمجھتا کہ روزہ دار ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کو یہ چیز کھلانا تھی سو وہ کھلا دی کیونکہ جو اس نے کھایا وہ بھول کر کھایا اس لئے شریعت کے مطابق اس نے نہیں کھایا یا یوں کہہ لو کہ اس کو اللہ نے کھلایا کیونکہ بھول جانا انسان کی اختیاری بات نہیں اور غیر اختیاری بات پر گرفت نہیں ہوتی بلا شبہ گناہ اس میں ہے کہ انسان عیاشی شروع کرلے اور اپنے آپ کو کسی ضابطہ کا پابند خا ال نہ کرے اور اس طرح جو اس کے جی میں آئے اس کو کرنے لگے بلا شبہ یہ ظلم اور گناہ ہے جو کسی حال میں معاف نہیں الا یہ کہ اس طرح کے ظلم اور گناہ سے توبہ کرکے اور اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کر کے گناہ معاف کرالے اگر وہ حقوق العباد سے بھی ہے تو جس بندہ کے متعلق ہے اس سے بھی معافی طلب کرنا ہوگی اور اللہ تعالیٰ سے بھی اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر گناہوں کو بخشنے والا اور معاف کرنے والا اور کون ہے ؟
Top