Mutaliya-e-Quran - Al-Ahzaab : 5
اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآئِهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ١ۚ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْۤا اٰبَآءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ مَوَالِیْكُمْ١ؕ وَ لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ فِیْمَاۤ اَخْطَاْتُمْ بِهٖ١ۙ وَ لٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
اُدْعُوْهُمْ : انہیں پکارو لِاٰبَآئِهِمْ : ان کے باپوں کی طرف هُوَ : یہ اَقْسَطُ : زیادہ انصاف عِنْدَ اللّٰهِ ۚ : اللہ نزدیک فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ تَعْلَمُوْٓا : تم نہ جانتے ہو اٰبَآءَهُمْ : ان کے باپوں کو فَاِخْوَانُكُمْ : تو وہ تمہارے بھائی فِي الدِّيْنِ : دین میں (دینی) وَمَوَالِيْكُمْ ۭ : اور تمہارے رفیق وَلَيْسَ : اور نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ فِيْمَآ اَخْطَاْتُمْ : اس میں جو تم سے بھول چوک ہوچکی بِهٖ ۙ : اس سے وَلٰكِنْ : اور لیکن مَّا تَعَمَّدَتْ : جو ارادے سے قُلُوْبُكُمْ ۭ : اپنے دل وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے اور اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں نا دانستہ جو بات تم کہو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے، لیکن اُس بات پر ضرور گرفت ہے جس کا تم دل سے ارادہ کرو اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے
اُدْعُوْهُمْ [تم لوگ پکارو ان (لے پالکوں) کو ] لِاٰبَاۗىِٕهِمْ [ان کے باپوں (کے نام) سے ] هُوَ اَقْسَطُ [یہ زیادہ انصاف ہے ] عِنْدَ اللّٰهِ ۚ [اللہ کے نزدیک ] فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا [پھر اگر تم لوگ نہ جانو ] اٰبَاۗءَهُمْ [ان کے باپوں کو ] فَاِخْوَانُكُمْ [تو (وہ) تمہارے بھائی ہیں ] فِي الدِّيْنِ [اس دین میں ] وَمَوَالِيْكُمْ ۭ [اور تمہارے ساتھی ہیں ] وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ [اور تم لوگوں پر نہیں ہے ] جُنَاحٌ [کوئی گناہ ] فِيْمَآ [اس میں ] اَخْطَاْتُمْ [تم لوگ چوک گئے ] بِهٖ ۙ [جس میں ] وَلٰكِنْ [اور لیکن ] مَّا [اس میں (گناہ ہے) جس کا ] تَعَمَّدَتْ [پختہ ارادہ کیا ] قُلُوْبُكُمْ ۭ [تمہارے دلوں نے ] وَكَانَ اللّٰهُ [اور اللہ ہے ] غَفُوْرًا رَّحِـيْمًا [بخشنے والا رحم کرنے والا ] ۔ نوٹ۔ 1: یہ آیات اس وقت نازل ہوئی تھیں جب حضرت زید ؓ بی بی زینب ؓ کو طلاق دے چکے تھے۔ اس وقت نبی ﷺ خود بھی یہ محسوس فرماتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی یہی تھا کہ منہ بولے رشتوں کے معاملہ میں جاہلیت کی رسوم پر ضرب لگانے کا یہ ٹھیک موقعہ ہے، اب آپ ﷺ کو خود آگے بڑھ کر اپنے منہ بولے بیٹے (زید ؓ کی مطلقہ سے نکاح کرلینا چاہیے تاکہ یہ رسم قطعی طور پر ٹوٹ جائے۔ لیکن آپ ﷺ اس لئے جھجک رہے تھے کہ کفار اور منافقین کو آپ ﷺ کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لئے ایک زبردست ہتھیار مل جائے گا۔ یہ خوف اپنی بدنامی کے اندیشے سے نہ تھا بلکہ اس بنا پر تھا کہ اس سے اسلام کو زک پہنچے گی۔ اس لئے حضور ﷺ یہ خیال کرتے تھے کہ جاہلیت کی ایک رسم کو توڑنے کی خاطر ایسا قدم اٹھانا خلاف مصلحت ہے۔ چناچہ تقریر کا آغاز کرتے ہوئے پہلے ہی فقرے میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے ان اندیشوں کو رفع فرما دیا۔ ارشاد کا منشا یہ ہے کہ دین کی مصلحت کو ہم زیادہ جانتے ہیں۔ لہٰذا تم وہ طرز عمل اختیار نہ کرو جو کفار و منافقین کی مرضی کے مطابق ہو، بلکہ وہ کام کرو جو ہماری مرضی کے مطابق ہو۔ (تفہیم القرآن) نوٹ۔ 2: ایک آدمی بیک وقت مومن اور منافق، سچا اور جھوٹا، بدکار اور نیکوکار نہیں ہوسکتا۔ اس کے سینے میں دو دل نہیں ہیں کہ ایک دل میں اخلاص ہو اور دوسرے میں خدا سے بےخوفی۔ ایک وقت میں آدمی کی ایک ہی حیثیت ہوسکتی ہے۔ یا تو وہ مومن ہوگا یا منافق۔ یا تو وہ وہ کافر ہوگا یا مسلم ۔ (تفہیم القرآن)
Top