Dure-Mansoor - Az-Zukhruf : 48
وَ مَا نُرِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ اِلَّا هِیَ اَكْبَرُ مِنْ اُخْتِهَا١٘ وَ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ
وَمَا نُرِيْهِمْ : اور نہیں ہم دکھاتے ان کو مِّنْ اٰيَةٍ : کوئی نشانی اِلَّا هِىَ اَكْبَرُ : مگر وہ زیادہ بڑی ہوتی تھی مِنْ اُخْتِهَا : اپنی بہن سے وَاَخَذْنٰهُمْ : اور پکڑ لیا ہم نے ان کو بِالْعَذَابِ : عذاب میں۔ ساتھ عذاب کے لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ : تاکہ وہ لوٹ آئیں
اور ہم انہیں جو بھی کوئی نشانی دیتے تھے وہ دوسری نشانی سے بڑھ کر ہوتی تھی اور ہم نے انہیں عذاب کے ساتھ پکڑا تاکہ وہ باز آجائیں
1:۔ ابن المنذر (رح) نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وما نریہم من ایۃ الاھی اکبر من اختھا “ (اور ہم ان کو جو نشانی دکھاتے تھے وہ دوسری نشانی سے بڑھ کر ہوتی تھی) یعنی طوفان اور اس کے ساتھ اور نشانیاں۔ 2:۔ عبد بن حمید (رح) نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” واخذنھم بالعذاب “ (اور ہم نے ان کو عذاب کے ساتھ پکڑ لیا) اور وہ قحط سالی کا (عذاب تھا) 3:۔ عبد بن حمید (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” واخذنہم بالعذاب لعلہم یرجعون “ (اور ہم نے ان کو عذاب میں پکڑا تھا تاکہ وہ کفر سے باز آجائیں یعنی وہ توبہ کریں یا نصیحت حاصل کریں۔ 4:۔ عبد بن حمید (رح) ابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ادع لنا ربک بما عہد عندک “ (اپنے رب سے ہمارے لئے دعا کر جس کا اس نے تجھ سے وعدہ کر رکھا ہے) یعنی اگر ہم ایمان لے آئیں تو ہم سے ضرور عذاب کو دور فرمائے گا۔ 5:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” اذا ھم ینکثون “ (تب ہی انہوں نے اپنا عہد توڑ دیا) یعنی انہوں نے دھوکہ دیا۔ 6:۔ ابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے (آیت ) ” ونادی فرعون فی قومہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس نے خود اعلان نہ کیا تھا بلکہ اس نے اعلان کرنے کا حکم دیا تھا۔ حکومت مدار نجات نہیں : 7:۔ ابن ابی حاتم (رح) نیا سود بن یزید (رح) سے روایت کیا کہ عائشہ ؓ سے کہا کیا آپ تعجب نہیں کرتیں ایسے آدمی پر جس کو آزاد کیا گیا اور وہ محمد ﷺ کے اصحاب سے خلافت کے بارے میں جھگڑا کرتا ہے عائشہ ؓ نے فرمایا تو اس پر کیوں تعجب کرتا ہے۔ یہ اللہ کی بادشاہی ہے اللہ تعالیٰ نیک اور بدکار دونوں کا دیتا ہے۔ ؛ اور یقینی بات ہے کہ فرعون مصر والوں پر چار سو سال تک حاکم بنارہا۔ 8:۔ عبد الرزاق وعبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” الیس لی ملک مصر وھذہ الانھر تجری من تحتی “ (کیا مصر کی سلطنت اور یہ نہریں جو میرے محلات کے نیچے بہہ رہی ہیں میری نہیں ہیں) فرمایا کہ ان کے باغات اور نہریں تھیں (آیت ) ” ام انا خیر من ھذا الذی ھو مھین “ (بلکہ میں اس شخص سے بہتر ہوں جو حقیرذلیل ہے) یعنی کمزور ہے (آیت ) ” ولا یکاد یبین “ اور اپنا مدعی واضح طور پر بیان بھی نہیں کرسکتا یعنی زبان میں لکنت ہے، صاف بول بھی نہیں سکتا (آیت ) ” فلولا القی علیہ اسورۃ من ذھب “ (تو سونے کے کنگن اس پر کیوں نہیں ڈالے گئے) یعنی سونے کے زیورات (آیت ) ” او جآء معہ المآئکۃ مقترنین “ (یا انہوں نے ہم کو غضبناک کیا (آیت ) ’ ’ فجعلنھم سلفا “ یعنی ہم نے ان کو آگ کی طرف پہلے جانے والا بنا دیا (آیت ) ” ومثلا “ (اور مثال بنادیا) یعنی نصیحت بنادی (آیت ) ” للاخرین “ (آئندہ آنے والوں کیلئے) 9:۔ ابن المنذر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا (آیت ) ” ولا یکاد یبین “ (اور واضح طور پر بیان بھی نہیں کرسکتا) یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان میں لکنت تھی (صاف نہیں بول سکتے تھے) 10:۔ فریابی (رح) وعبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” او جآء معہ المآئکۃ مقترنین “ (یا فرشتے اس کے پاس لگاتار جماعتیں بناکر آجاتے یعنی اس کے ساتھ فرشتے چلتے۔ 11:۔ ابن عبدالحکیم نے فتوح مصر میں عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ فرعون نے چالیس سال سے زیادہ اور بیس سال سے کم عمر کا کوئی آدمی ساتھ نہ لیا اسی کو فرمایا (آیت) ” فاستخف قومہ فاطاعوہ “ (غرض اس نے اپنی قوم کو مغلوب کرلیا اور وہ اس کی اطاعت کرنے لگے) یعنی اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طلب میں اپنی قوم کو ہلکا جانا۔ 12:۔ عبد بن حمید (رح) نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ’ فلما اسفونا “ سے مراد ہے کہ جب ہم کو سخت غصہ دلایا۔ 13:۔ ابن جریر (رح) وابن حاتم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ’ فلما اسفونا “ یعنی جب ہم کو غصہ دلایا (اور) ” سلفا “ یعنی مختلف دلی خواہش۔ 14:۔ فریابی (رح) وعبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ’ فلما اسفونا “ یعنی جب انہوں نے ہم کو غصہ دلایا (آیت ) ” فجعلنہم سلفا “ سے مراد ہے فرعون کی قوم کے کافر ” سلفا “ محمد ﷺ کی امت کے کافروں کے لئے (آیت ) ” ومثلا للاخرین “ یعنی ان کے بعد والوں کے لئے عبرت۔ 15:۔ احمد والطبرانی والبیہقی (رح) نے شعب میں وابن ابی حاتم (رح) نے عقبہ بن عامر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تو دیکھے کہ اللہ تعالیٰ بندے کودے رہا ہے جو وہ چاہتا ہے جبکہ بندہ اپنی نافرمانیوں پر قائم رہتا ہے تو یہ اس کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہلت ہے پھر (آیت ) ’ فلما اسفونا انتقمنا منہم فاغرقنہم اجمعین “ (جب انہوں نے ہم کو سخت غصبناک کردیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور سب کو غرق کردیا ) 16:۔ ابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم (رح) نے طارق بن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ میں عبداللہ ؓ کے پاس تھا کہ ان کے پاس اچانک آنے والی موت کا ذکر کیا گیا تو فرمایا کہ یہ تخفیف ہے مؤمن کے حق میں) اور حسرت ہے کافر کے حق میں۔ 17:۔ عبد بن حمید (رح) نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ وہ (آیت ) ” فجعلنہم سلفا “ کو سین اور لام کے نصب کے ساتھ پڑھتے ہیں۔
Top