Fi-Zilal-al-Quran - Az-Zukhruf : 48
وَ مَا نُرِیْهِمْ مِّنْ اٰیَةٍ اِلَّا هِیَ اَكْبَرُ مِنْ اُخْتِهَا١٘ وَ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ
وَمَا نُرِيْهِمْ : اور نہیں ہم دکھاتے ان کو مِّنْ اٰيَةٍ : کوئی نشانی اِلَّا هِىَ اَكْبَرُ : مگر وہ زیادہ بڑی ہوتی تھی مِنْ اُخْتِهَا : اپنی بہن سے وَاَخَذْنٰهُمْ : اور پکڑ لیا ہم نے ان کو بِالْعَذَابِ : عذاب میں۔ ساتھ عذاب کے لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ : تاکہ وہ لوٹ آئیں
“ ہم ایک پر ایک ایسی نشانی ان کو دکھاتے چلے گئے جو پہلی سے بڑھ چڑھ کر تھی ، اور ہم نے ان کو عذاب میں دھر لیا کہ وہ اپنی روش سے باز آئیں۔
آیت نمبر 48 تا 50 یوں یہ مسلسل معجزات جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ سے ظاہر ہوتے جا رہے تھے ذریعہ ایمان نہ بنے۔ حالانکہ ایک سے ایک بڑا معجزہ ظاہر ہو رہا تھا۔ یہ بات قرآن کریم کے اس اصول کی تصدیق کرتی ہے جو قرآن میں بار بار دہرایا گیا ہے کہ جو دل ہدایت کے قابل ہی نہ ہو اس کو معجزات کے ذریعہ کبھی ہدایت نہیں ملتی اور یہ کہ کوئی رسول بہرے کو سنا نہیں سکتا اور اندھے کو راہ نہیں دکھا سکتا۔ یہاں قرآن کریم فرعون اور اس کے درباریوں سے جو بات نقل کرتا ہے اس میں عجیب بات یہ ہے جو وہ کہتے ہیں۔ وقالوا یا ایھا ۔۔۔۔ اننا لمھتدون (43 : 49) “ اے ساحر ، اپنے رب کی طرف سے جو منصب تجھے حاصل ہے ، اس کی بنا پر ہمارے لیے اس سے دعا کر ، ہم ضرور راہ راست پر آجائیں گے ”۔ یہ ایک مصیبت میں گرفتار ہیں۔۔۔۔ ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ دعا کراتے ہیں کہ یہ مصیبت ٹل جائے لیکن اس کے ساتھ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو “ اے جادوگر ” سے خطاب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں۔ ادع النا ربک بما عھد عندک (43 : 49) “ اپنے رب کی طرف سے جو منصب تجھے حاصل ہے ، اس کی بنا پر ہمارے لیے اس سے دعا کر ”۔ حالانکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تو ان کو کہتے تھے کہ میں رب العالمین کا رسول ہوں۔ یہ نہ کہتے تھے کہ میں صرف اپنے رب کی طرف سے رسول ہوں۔ لیکن اصل بات یہ تھی نہ ان معجزات نے ان کے دل پر اثر کیا تھا اور نہ رسول کے کلام نے ان پر اثر کیا تھا۔ وہ یہ غلط کہتے تھے کہ اننا لمھتدون (43 : 49) “ ہم ضرور راہ راست پر آجائیں گے ”۔ فلما کشفنا عنھم العذاب اذاھم ینکثون (43 : 50) “ مگر جونہی کہ ہم ان پر سے عذاب ہٹا دیتے وہ اپنی بات سے پھر جاتے ”۔ لیکن بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ معجزات کے نتیجے میں جمہور عوام کے دلوں پر اثر ہوجاتا ہے اور ان کے دھوکہ کھائے ہوئے دماغوں میں بعض اوقات بات آجاتی ہے۔ اب فرعون دبدبہ شاہی اور اقتدار کے رنگ میں آتا ہے۔ زیب وزینت کے کروفر میں۔ اور جمہور کے سامنے اپنی سطحی منطق پیش کرتا ہے۔ اور عوام کو متاثر کرنے کی سعی کرتا ہے۔ غلامی کی ذہنیت رکھنے والے عوام کے سامنے جن کا خمیر ظلم اور جبر کے دور میں بالعموم بدل جاتا ہے ، وہ چکنی چپڑی باتیں کرتا ہے اور ان کے سامنے کروفر کے ذریعے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا ہے۔
Top