Dure-Mansoor - Al-Fath : 12
بَلْ ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّنْقَلِبَ الرَّسُوْلُ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ اِلٰۤى اَهْلِیْهِمْ اَبَدًا وَّ زُیِّنَ ذٰلِكَ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ ظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ١ۖۚ وَ كُنْتُمْ قَوْمًۢا بُوْرًا
بَلْ ظَنَنْتُمْ : بلکہ تم نے گمان کیا اَنْ لَّنْ : کہ ہرگز نہ يَّنْقَلِبَ : واپس لوٹیں گے الرَّسُوْلُ : رسول وَالْمُؤْمِنُوْنَ : اور مومن (جمع) اِلٰٓى : طرف اَهْلِيْهِمْ : اپنے اہل خانہ اَبَدًا : کبھی وَّزُيِّنَ : اور بھلی لگی ذٰلِكَ : یہ فِيْ : میں، کو قُلُوْبِكُمْ : تمہارے دلوں وَظَنَنْتُمْ : اور تم نے گمان کیا ظَنَّ السَّوْءِ ښ : بُرا گمان وَكُنْتُمْ : اور تم تھے، ہوگئے قَوْمًۢا بُوْرًا : ہلاک ہونیوالی قوم
بلکہ بات یہ ہے کہ تمہارا خیال تھا کہ رسول اور مؤمنین کبھی اپنے گھروالوں کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ اور یہ بات تمہارے دلوں میں مزین کردی گئی اور تم نے برا گمان کیا اور تم ہلاک ہونے والے لوگ ہو
1:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” بل ظننتم ان لن ینقلب الرسول والمؤمنون الی اھلیھم ابدا وزین ذلک فی قلوبکم وظننتم ظن السوء “ (بلکہ تم نے یہ خیال کیا کہ رسول اور مومن اپنے گھر والوں کے پاس کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے اور یہ بات تمہارے دلوں میں اچھی بھی معلوم ہوتی تھی، اور تم نے برے برے گمان کئے) یعنی انہوں نے اللہ کے نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کے بارے میں یہ گمان کیا کہ وہ ہرگز اپنے بندوں کو نہیں لوٹیں گے اور وہ عنقریب ہلاک ہوں گے اور یہ بات ان لوگوں نے کہی تھی جو اللہ کے نبی ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے اور وہ جھوٹ بولتے تھے جو وہ کہتے تھے اور فرمایا (آیت ) ” سیقول المخلفون اذا انطلقتم الی مغانم لتاخذوھا “ (اور جو وہ لوگ پیچھے رہ گئے تھے وہ عنقریب جب تم خیبر کی غنیمتیں لینے جاؤ گے۔ وہ لوگ جو حدیبیہ کے زمانے میں نبی کریم ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے وہ تمہاری طرح ہی تھے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے تمہارے بارے میں پہلے سے ہی فرمایا۔ پھر فرمایا کہ مال غنیمت جہاد کے واسطے سے بنایا گیا اور خیبر کا مال غنیمت اس کے لئے ہے جو حدیبیہ میں حاضر ہوا اور ان کے علاوہ اس میں کسی کا حصہ نہیں فرمایا (آیت ) ” قل للمخلفین من الاعراب ستدعون الی قوم اولی باس شدید “ (آپ ان پیچھے رہ جانے والے دیہاتیوں سے کہہ دیجئے کہ عنقریب تم ایسے لوگوں سے جہاد کرنے کے لئے بلائے جاؤ گے جو سخت لڑنے والے ہیں) فرمایا کہ ان کو بلایا گیا حنین کے دن قبیلے ھوزن اور ثقیف کی طرف بعض ان میں سے وہ تھے جنہوں نے دعوت کو طریقے سے قبول کیا۔ اور جہاد میں رغبت کی پھر اللہ تعالیٰ نے معذور لوگوں نے عذر قبول فرمائے اور فرمایا (آیت ) ’ ’ لیس علی الاعمی حرج ولا علی الاعرج حرج ولا علی المریض حرج “ یعنی اندھے پر لنگڑے پر اور مریض پر کوئی حرج نہیں کہ جہاد پر نہ جائیں۔ 2:۔ ابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” بل ظننتم ان لن ینقلب الرسول “ یعنی منافق لوگوں نے (یہ بات کہی) (آیت ) ” وظننتم ظن السوء “ (اور تم نے برا گمان کیا) کہ رسول اللہ ﷺ ہرگز نہیں لوٹیں گے۔
Top