Ruh-ul-Quran - Al-Fath : 12
بَلْ ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّنْقَلِبَ الرَّسُوْلُ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ اِلٰۤى اَهْلِیْهِمْ اَبَدًا وَّ زُیِّنَ ذٰلِكَ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ ظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ١ۖۚ وَ كُنْتُمْ قَوْمًۢا بُوْرًا
بَلْ ظَنَنْتُمْ : بلکہ تم نے گمان کیا اَنْ لَّنْ : کہ ہرگز نہ يَّنْقَلِبَ : واپس لوٹیں گے الرَّسُوْلُ : رسول وَالْمُؤْمِنُوْنَ : اور مومن (جمع) اِلٰٓى : طرف اَهْلِيْهِمْ : اپنے اہل خانہ اَبَدًا : کبھی وَّزُيِّنَ : اور بھلی لگی ذٰلِكَ : یہ فِيْ : میں، کو قُلُوْبِكُمْ : تمہارے دلوں وَظَنَنْتُمْ : اور تم نے گمان کیا ظَنَّ السَّوْءِ ښ : بُرا گمان وَكُنْتُمْ : اور تم تھے، ہوگئے قَوْمًۢا بُوْرًا : ہلاک ہونیوالی قوم
بلکہ تم نے یہ گمان کیا کہ رسول اور ان پر ایمان لانے والے اب کبھی اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے اور یہ بات تمہارے دلوں میں آراستہ کردی گئی، اور تم نے برے برے گمان کیے، تم ہو ہی بدباطن لوگ
بَلْ ظَنَنْـتُمْ اَنْ لَّنْ یَّنْقَلِبَ الرَّسُوْلُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ اِلٰٓی اَھْلِیْھِمْ اَبَدًاوَّزُیِّنَ ذٰلِکَ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْئٍ صلے ج وَکُنْتُمْ قَوْمًا م بُوْرًا۔ (الفتح : 12) (بلکہ تم نے یہ گمان کیا کہ رسول اور ان پر ایمان لانے والے اب کبھی اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے اور یہ بات تمہارے دلوں میں آراستہ کردی گئی، اور تم نے برے برے گمان کیے، تم ہو ہی بدباطن لوگ۔ ) منافقین کے دل کی حالت کا افشاء سابقہ آیت کریمہ میں یہ جو فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ زبان سے جو کچھ کہتے ہیں وہ ان کے دلوں میں نہیں۔ اور دلوں میں کیا ہے، اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ چناچہ پیش نظر آیت کریمہ میں ان کے دل کی بات کو پروردگار نے افشاء فرما دیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ آپ کا ساتھ دینے سے اس لیے نہیں رکے کہ ان کے اموال اور ان کے بیوی بچوں کی نگہداشت نے انھیں مصروف رکھا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا گمان یہ تھا کہ مسلمان موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ قریش جو مسلمانوں کی نسبت بہت طاقت رکھتے ہیں جن کے پاس افرادی قوت بھی کثیر ہے اور اسلحہ ٔ جنگ کی فراوانی بھی ہے اور وہ چونکہ اپنے مرکز میں ہیں اس لیے ضرورت پڑنے پر قرب و جوار کے حلیفوں اور دیگر قبائل کو بھی بلا سکتے ہیں۔ اور مسلمان اپنے مرکز سے اڑھائی سو میل دور ہوں گے۔ اور افرادی قوت ان کے پاس صرف چودہ سو ہے۔ اور اسلحہ ٔ جنگ نہ ہونے کے برابر۔ تصادم کی صورت میں یہ ان سے کیسے عہدہ برآ ہوسکتے ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ قریش انھیں کبھی مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے اور اگر یہ زبردست داخل ہونا چاہیں گے تو تہہ تیغ کردیئے جائیں گے۔ یہ وہ خطرات تھے جنھوں نے انھیں نکلنے سے روکا۔ اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ ایمان کے دعوے اور مسلمانوں سے تعلق کے باوجود انھیں اس بات پر کوئی ملال نہیں تھا کہ مسلمان ایک خطرے کی طرف بڑھ رہے ہیں، ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ بلکہ وہ اس بات پر بہت خوش تھے اور یہ بات ان کے دلوں میں آراستہ کردی گئی تھی کہ بہت اچھا ہے کہ مسلمان اس طرح تباہ کردیئے جائیں۔ اور بھی قسم قسم کی بدگمانیاں اللہ تعالیٰ اور مسلمانوں کے بارے میں کرتے رہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ جس طرح کا عذر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں اس کا حقیقت سے کتنا رشتہ ہے۔ اور یہ لوگ کیا واقعی اس قابل ہیں کہ ان کے اس عذر کو قبول کرکے ان کے جرائم سے درگزر کیا جائے۔ امرِواقعہ یہ ہے کہ یہ ہیں ہی بدباطن لوگ، ان سے کسی خیر کی توقع نہیں۔ بُوْرً جمع ہے بائر کی۔ اس کے دو معنی ہیں۔ ایک ہے فاسد، بگڑا ہوا آدمی جو کسی بھلے کام کے لائق نہ ہو۔ یا ایسا آدمی جس کی نیت میں فساد ہو۔ اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ بدباطن کیا ہے۔ اور دوسرا معنی ہے ہلاک ہونے والا، بدانجام۔ اس لیے جن لوگوں نے اس کا معنی یہ کیا ہے کہ تم ہو ہی ہلاک ہونے والے۔ انھوں نے بھی غلط نہیں کیا۔
Top