Tafseer-e-Madani - Al-Fath : 12
بَلْ ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّنْقَلِبَ الرَّسُوْلُ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ اِلٰۤى اَهْلِیْهِمْ اَبَدًا وَّ زُیِّنَ ذٰلِكَ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ ظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ١ۖۚ وَ كُنْتُمْ قَوْمًۢا بُوْرًا
بَلْ ظَنَنْتُمْ : بلکہ تم نے گمان کیا اَنْ لَّنْ : کہ ہرگز نہ يَّنْقَلِبَ : واپس لوٹیں گے الرَّسُوْلُ : رسول وَالْمُؤْمِنُوْنَ : اور مومن (جمع) اِلٰٓى : طرف اَهْلِيْهِمْ : اپنے اہل خانہ اَبَدًا : کبھی وَّزُيِّنَ : اور بھلی لگی ذٰلِكَ : یہ فِيْ : میں، کو قُلُوْبِكُمْ : تمہارے دلوں وَظَنَنْتُمْ : اور تم نے گمان کیا ظَنَّ السَّوْءِ ښ : بُرا گمان وَكُنْتُمْ : اور تم تھے، ہوگئے قَوْمًۢا بُوْرًا : ہلاک ہونیوالی قوم
(اصل وجہ یہ نہیں جو تم بیان کر رہے ہو) بلکہ تم لوگوں نے تو یہ سمجھ رکھا تھا کہ رسول اور دوسرے مسلمان تو اپنے گھر والوں کی طرف کبھی کسی طرح لوٹ کر آہی نہیں سکیں گے اور یہ خیال تمہارے دلوں کو لبھا رہا تھا اور تم نے بڑے برے گمان قائم رکھے تھے اور تم تو تھے ہی برباد ہونے والے لوگ1
[ 27] منافقوں کے گمان بد اور اس کی تزیین کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " تم لوگوں نے تو یہ گمان کر رکھا تھا کہ اللہ کے رسول اور دوسرے اہل ایمان کبھی لوٹ کر اپنے گھروں کی طرف واپس آہی نہیں سکیں گے، اور تمہارے اس برے گمان کو کھبا دیا گیا تھا تمہارے دلوں کے اندر "۔ جس کی وجہ سے تم لوگ اپنے آپ کو تو ہوشیار و دانش مند سمجھ رہے تھے اور سچے و مخلص مسلمانوں کو سادہ لوح اور فریب خوردہ قرار دے رہے تھے کہ یہ لوگ تو اپنے دین کی حقانیت اور خڈائی مدد کے سہارے اور غرے پر اپنے آپ کو موت کے منہ میں دھکیلنے جا رہے ہیں۔ اور اس طرح یہ قریش کیلئے ایک تر نوالہ ثابت ہوں گے اور ان کی تعداد کی قلت کو تم لوگ " اکلۃ راس " " ایک سرکے کھانے والوں " سے تعبیر کر رہے تھے۔ یہ عربی زبان کا محاورہ ہے جو کہ تعداد کی قلت اور بےہمتی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، مگر تمہاری یہی چالاکی و خود فریبی تمہاری تباہی کا باعث بن گئی۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ سو بدنیتی اور خبث باطن کی یہ ایک نقد سزا ہے جو اس قماش کے لوگوں کو ملتی ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ جس سے ان کی مت مار دی جاتی ہے اور اس کی بنا پر ایسے لوگ اپنی برائی کو بھی اچھائی سمجھنے لگتے ہیں۔ اور برائی کو اچائی سمجھنے کی سزا ایک بڑی سخت اور ہولناک سزا ہے جو ایسے بدبخت لوگوں کو ملتی ہے کہ اس کے بعد وہ برائی کو ترک کرنے کیلئے آمادہ ہی نہیں ہوتے۔ اور اس کے نتیجے میں ان کا حال بد سے بدتر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور یہ اپنے آخری اور ہولناک انجام کی طرف بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں مگر ان کو اسکا کوئی احساس و شعور نہیں ہوتا۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ [ 28] کفر و نفاق کا نتیجہ و انجام ہلاکت و تباہی۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم : سو ارشاد فرمایا گیا " اور تم لوگ تو اے منافقو ! تھے ہی تباہ ہونے والے " یعنی اپنی بدبختی و بدباطنی اور بدکرداری کے باعث ہلاکت و تباہی خود تمہارا اپنا مقدر بن چکی تھی مگر تمہیں اپنی بجائے دوسروں کی تباہی نظر آرہی تھی۔ " بور " یا تو " بائِرکی جمع ہے جیسے " حائل " اور " حول " یا یہ مصدر ہے جیسے " ہلک " ّالوجیز، الجامع ] ۔ معنی و مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی رہتا ہے کہ تم لوگوں نے بہرحال ہلاک ہونا تھا۔ والعیاذ باللّٰہ۔ بہرکیف اس سے ثابت ہوا کہ حق سے منہ موڑنا اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری سے کنی کترانا اور رسول اور انکے ساتھیوں کے بارے میں بدگمانی رکھنا خود اپنی ہی تباہی اور ہلاکت کا سامان کرنا ہے۔ کوئی سمجھے یا نہ سمجھے اور اسکا ادراک کرے یا نہ کرے، حق اور حقیقت بہرحال یہی ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اور کامیابی اللہ اور اس کے رسول کی سچی اطاعت اور فرمانبرداری ہی میں ہے۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی جو کہ اس دنیائے فانی کے بعد آنے والا ہے، اور جو ابدی جہاں ہے وباللّٰہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی ما یحب ویرید، وھو الھادی الیٰ سوائِ السبیل سبحانہ وتعالیٰ جل شانہ وعم نوالہ۔
Top