Dure-Mansoor - Al-Maaida : 38
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَالسَّارِقُ : اور چور مرد وَالسَّارِقَةُ : اور چور عورت فَاقْطَعُوْٓا : کاٹ دو اَيْدِيَهُمَا : ان دونوں کے ہاتھ جَزَآءً : سزا بِمَا كَسَبَا : اس کی جو انہوں نے کیا نَكَالًا : عبرت مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
جو چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت ہو سو ان کے کردار کے عوض ان کے ہاتھ کاٹ دو یہ بطور سزا کے اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ غالب ہے، حکمت والا ہے۔
(1) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے نجدہ الحنفی ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے ابن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما کے بارے میں پوچھا کہ (یہ حکم) خاص ہے یا عام ہے ؟ فرمایا عام ہے۔ (2) عبد بن حمید نے نجدہ بن نفیع (رح) سے روایت کیا ہے کہ میں نے ابن عباس ؓ سے لفظ آیت والسارق والسارقۃ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا مردوں اور عورتوں میں سے جو بھی یہ کرے گا۔ اس پر ہاتھ کاٹا جائے گا۔ (3) امام ابن جریر، ابن منذر اور ابوالشیخ سے چند طریق سے ابن مسعود ؓ نے اس کو یوں پڑھا لفظ آیت فاقطعوا ایدیھما (4) سعید بن منصور نے ابن جریر، ابن منذر اور ابوالشیخ نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا ہماری قرآت میں اور کبھی فرمایا عبد اللہ کی قرأۃ میں یوں ہے لفظ آیت والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما (5) عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت جزآء بما کسبا نکالا من اللہ کے بارے میں فرمایا کہ اس میں تم ان کے وارث نہ بنو (یعنی ان جیسا کام نہ کریں) بلاشبہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ کیا ہمارے سامنے یہ بھی ذکر کیا گیا۔ ہم کو عمر بن خطاب ؓ فرمایا کرتے تھے۔ فاسقوں پر سختی کرو۔ ان کو ایک ایک ہاتھ والا ایک ایک پاؤں والا بنا دو ۔ (6) امام بخاری اور مسلم نے عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی چور کا ہاتھ نہ کاٹو یعنی چوتھائی دینار میں یا اس سے زیادہ میں۔ (7) عبد الرزاق نے مصنف میں ابن جریج سے اور انہوں نے عمرو بن شعیب ؓ سے روایت کیا پہلی حد جو اسلام میں قائم کی گئی۔ اس آدمی کے لئے جس کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا۔ جس نے چوری کی۔ اور اس پر گواہی دی گئی۔ تو نبی ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم فرمایا جب وہ آدمی گھر لایا گیا تو رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا گیا گویا آپ کے چہرہ مبارک پر راکھ اڑا دی گئی ہو۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا اس کا ہاتھ کاٹنا بھاری پڑھ رہا ہے۔ فرمایا مجھے کسی چیز نے نہیں روکا اور تم شیطان کے دوست ہو۔ اپنے بھائی کے خلاف۔ انہوں نے کہا آپ اس کو چھوڑ دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اسے میرے پاس لانے سے پہلے ایسا کیوں نہیں کیا۔ بلاشبہ امام جب کسی حد کا فیصلہ کرے تو اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس کو معطل کر دے۔
Top